ماہ ِرمضان میں نورِقرآن کی تابانی
ماہِ رمضان • مجلسِ مصنّفین
کیونکہ ماہ ِرمضان، ماہِ نزولِ قرآن، ماہ ِخدا اور ماہ ِتزکیہ و تہذیب ِ نفس ہے اور قرآنِ مجید اسی مہینے میں واقع شب ِقدرمیں قلب ِپیغمبرؐ پر نازل ہوا ہےلہٰذا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ماہ ِرمضان، قرآنی نور کی تابانی اور قرآنِ کریم سے اُنس ورغبت کا مہینہ ہے۔
روزہ دار اس مہینے میں خدا کے مہمان ہوتے ہیں اورقرآنِ کریم کے بابرکت دسترخوان کے گرد بیٹھتے ہیںلہٰذا انہیں اس ماہ میں قرآنِ کریم کی تلاوت سے خاص رغبت کا ثبوت دینا چاہئے اور آیاتِ قرآنی میں غوروفکر اور قرآنی مفاہیم سے فکری اور عملی استفادے کے ذریعے اپنے معنوی رشد و کمال میں اضافہ کرنا چاہئے۔
اسی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک برس ماہِ شعبان کے آخری جمعے کو اپنے معروف خطبۂ شعبانیہ میں ارشاد فرمایا کہ:
ھُوَ شَھْرُ دُعِیتُمْ فیہ اِلیٰ ضِیاٰفَۃِ اللّٰہِ۔۔۔ وَ مَنْ تَلافِیہِ آیَۃً مِنَ الْقُرآنِ کانَ لَہُ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرآنَ فِی غَیْرِہِ مِنَ الشّھُورِ
ماہ ِرمضان وہ مہینہ ہے، جس میں تمہیں خدا نے اپنا مہمان مدعو کیا ہےتم میں سے جو کوئی اس مہینے میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا اس کا اجر دوسرے کسی مہینے میں پورے قرآن کی تلاوت کے ثواب کے برابر ہے(عیون اخبار الرضا۔ ج۲۔ ص۲۹۵)
ماہِ رمضان کی دعائوں میں، ہدایت ورہنمائی کی کتاب کے طور پر قرآن اور اس سے اُنس کا بکثرت تذکرہ آیا ہےماہِ رمضان کے ہر دن کی دعائیں، جو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں، ان میں سے دوسرے دن کی دعامیں ہے کہ:
اَللّٰھُمَّ وَ فِقْنی فِیہِ لِقَرا ئَۃِ آیاٰتِکَ۔
بارِ الٰہا! اس دن مجھے آیاتِ قرآن کی قرأت کی توفیق عطا فرما۔
جبکہ بیسویں دن کی دعا میں ہے کہ:
اَللّٰھُمَّ وَ فِّقْنی فِیہِ لِتِلاٰوَۃِ الْقُرآنِ۔
بارِ الٰہا! مجھے آج کے دن تلاوتِ قرآن کی توفیق عطا فرما۔
دعائوں کی صورت میں ذکر ہونے والی ان دو عبارتوں میں قرآنِ کریم کی تلاوت، اور اسے کھول کر پڑھنے کی توفیق بھی طلب کی گئی ہے اور تدبر کے ساتھ اور عمل کے ہمراہ قرأت کی توفیق بھی چاہی گئی ہےکیونکہ تلاوت کا لفط دراصل ”تِلو و تالی“ سے ماخوذ ہےجس کے معنی ہیں بغیر کسی فاصلے کے کسی کے پیچھے پیچھے چلنا، اس کی پیروی کرنا۔
واضح ہے کہ اس قسم کی توفیق قرآنِ مجید سے حقیقی اُنس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیقرآنِ کریم سے اُنس درحقیقت تین بنیادوں سے تشکیل پاتا ہےیہ بنیادیں درج ذیل ہیں:
۱آیاتِ قرآن کو پڑھنا۔
۲قرآن کی معرفت اور اس میں غور وفکر۔
۳قرآنی احکام اور فرامین پر عمل۔
اسی بنیاد پر امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک مختصر تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے فرمایا ہے:
قُرّاءُ الْقُرآنِ ثَلاثَۃٌ، رَجُلٌ قَرَءَ الْقُرآنَ فَاتَّخَذَۂ بِضاعَۃً، وَ اسْتَدَرَّبِہِ الْمُلوکَ، وَاسْتطالَ بِہِ عَلَی النّاسِوَرَجُلٌ قَرَءَ الْقُرْآنَ فَحَفِظَ حُرُوفَہُ وَضَیَّعَ حُدُودَہُ، وَ اَقاٰمَہُ اِقاٰمَۃَ الْقِدْحِ، فَلا کَثَّرِ اللّٰہُ ھٰؤُلاٰءِ مِنْ حَمَلَۃِ الْقُرْآنِوَ رَجُلٌ قَرَءَ الْقُرآنَ، فَوَضَعَ دَواءَ الْقُرْآنِ عَلی داٰء قَلْبِہِ، فَاَشھَرَ بِہِ لَیْلَۃُ، وَ اَظْمَأ بِہِ نَھاٰرَہُ، وَ قاٰمَ بِہِ فَی مَساٰجِدِہِ، وَ تَجاٰفیٰ بِہِ عَنْ فِراشِہِ، فَبِاوُلئٰکَ یَدْفَعُ اللّٰہُ الْعَزِیزُ الْجَبّٰارُ الْبَلاءََ
قرآن پڑھنے والے لوگ تین قسم کے ہیں:ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو قرائتِ قرآن کو اپنے لئے مال ودولت کمانے کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ قرائت قرآن کے ذریعے بادشاہوں سے فائدے اٹھاتے ہیں اور لوگوںکے سامنے اپنی بڑائی جتاتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں اور اس کے حروف (اور اس کی تجوید) کا خیال رکھتے ہیں لیکن قرآن میں بیان شدہ حدود و احکام کو ضائع کرتے ہیں۔
(ایسے حاملانِ قرآن کسی صورت قرآن سے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے اور اس کے ذریعے نجات حاصل نہ کرسکیںگے)
تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور اس سے اپنے قلب کے امراض کا علاج کرتے ہیں اور اس کی تلاوت (یعنی اسے پڑھنے اور اس پر غور وفکر) کے لئے راتوں کو جاگتے ہیں، اور دن کو بھوکے پیاسے رہتے ہیں اس کے ذریعے مساجد میں کھڑے رہتے ہیں، اورذکرِ الٰہی کے لئے اپنے بستر سے دور رہتے ہیںیہی وہ لوگ ہیں جن کے وجود کی برکت سے اللہ رب العزت مصیبتیں ٹال دیتا ہے، بلائوں کو دور کرتا ہے، دشمن کی شر انگیزیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور آسمان سے بارش برساتا ہے۔
آخر میں امام ؑفرماتے ہیں:
فَوَ اللّٰہِ لَھٰؤلاٰءِ فِی قُرّاء الْقُرآنِ اَعَزُّ مِنَ الْکِبْریتِ الاَحْمَرِ۔
خدا کی قسم، قرآن پڑھنے والوں میں، اس قسم کے لوگ سرخ گندھک سے بھی زیادہ کامیاب ہیں(اصول کافیج۲ص۶۲۷)
امام زین العابدین علیہ السلام ختمِ قرآن کے موقع پر ایک دعا کی تلاوت فرماتے تھے، اس دعا کے ایک حصے میں ہے کہ:
اَللّٰھُمَّ فَاِذا اَفَدْتَنَا الْمَعُونَۃَعَلیٰ تِلاٰوَتِہِ وَ سَھَّلْتَ جَو اسِیَ اَلْسِنَتِناٰ بِحُسْنِ عِباٰرَتِہِ، فَاجْعَلْنٰا مِمِّنْ یَرْعاٰہُ حَقَّ رِعاٰیَتِہِ۔
بارِ الٰہا! جبکہ تو نے (قرآن کی) تلاوت کے سلسلے میںہماری مدد کی، اور اسے اچھے انداز میں پڑھنے کیلئے ہماری زبان کی گرہیں کھول دیںپس ہمیں ایسے لوگوں میں قرار دے جو اس (قرآن) کے حق کا ایسا لحاظ رکھتے ہیں جیسا اسے لحاظ رکھنے کا حق ہے(صحیفہ سجادیہدعانمبر۴۲)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت ِ قرآن: یَتْلُوْنَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ (اور مومنین اس کتابِ الٰہی کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں، جیسا اس کی تلاوت کا حق ہےسورۂ بقرہ ۲۔ آیت۱۲۱) کی تفسیر میں فرمایا: یَتَّبِعُونَہُ حَقَّ اِتَّباٰعِہِ (جیسا قرآن کی پیروی کا حق ہے، ویسی اس کی پیروی کرتے ہیںتفسیر درالمنثورج۱ص۱۱۱)
ایک دوسرے مقام پر آنحضرتؐ نے فرمایاہے:
رُبَّ تالِ الْقُرآنَ، وَ الْقُرآنُ یَلْعَنُہُ۔
کتنے ہی قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں، جن پر قرآن لعنت کرتا ہے( بحار الانورج۔ ۹۲ص۱۸۴)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمۂ اطہارعلیہم السلام کے یہ کلمات اور اس بارے میں آپ حضرات کے ایسے دسیوں ارشادات یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی ایسی ہی تلاوت اہمیت اور قدر و قیمت رکھتی ہے جو آیاتِ قرآنی میں غور و فکر اوراس کے احکام و فرامین پر عمل کے عزم کے ساتھ ہونیز قرآن سے حقیقی اُنس و لگائو اس میں تدبر و تفکر اور اس پر عمل سے وابستہ ہےوگرنہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے خونخوار دشمن نہروان کے خوارج سب کے سب قاریانِ قرآن تھےلیکن قرآن کی صرف ”ق“ سے آشنا تھایہی وجہ تھی کہ سراپا توحید حضرت علی علیہ السلام کو(نعوذباللہ) کافر قرار دے کر ان سے مصروفِ جنگ تھے۔