۳ اجتماعی پہلو‘ عدالت ِ اجتماعی کے قیام کی جانب ایک قدم
ماہِ رمضان • مجلسِ مصنّفین
روزے کا اجتماعی پہلو کسی سے پوشیدہ نہیںروزہ افرادِ معاشرہ کے درمیان مساوات اور برابری کا ایک درس ہےروزہ رکھ کر صاحب ِحیثیت افراد بھی معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے بھوکے اور نادار افراد کی کیفیت محسوس کرتے ہیں، اور اپنی شبانہ روز کی خوراک میں کفایت شعاری کے ذریعے ان کی مدد کا اہتمام کر سکتے ہیں۔
البتہ بھوکے اور نادار افراد کی حالت بیان کر کے بھی شکم سیر افراد کو ان کے حال کی جانب متوجہ کیا جاسکتا ہےلیکن اگر یہ مسئلہ حسی اور عینی پہلو حاصل کر لے تو اسکا اثربڑھ جاتا ہےروزہ اس اہم سماجی مسئلے کو حسی رنگ دیتا ہےلہٰذا امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک معروف روایت میں آیا ہے کہ جب آپ ؑسے روزے کے وجوب کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ ؑ نے فرمایا :
اما العلۃ فی الصیام لیستوی بہ الغنی والفقیر، و ذٰلک لانّ الغنّی لم یکن لیجد مسّ الجوع، فیرحم الفقیر، لاّن الغنّی کلّما اراد شیئا قدر علیہ، فاراد اﷲعزّوجلّ ان یستوی بین خلقہ، و ان یذیق الغنیّ مسّ الجوع والالم، لیرقّ علی الضّعیف و یرحم الجائع۔
روزہ اس وجہ سے واجب کیا گیا ہے، تاکہ اسکے ذریعے امیر اور غریب برابر ہوجائیںکیونکہ دولت مند افراد نے بھوک کا ذائقہ نہیں چکھا ہوتاکہ (جس کے زیرِ اثر) وہ غریبوں پر رحم کریںکیونکہ دولت مندوں کے لئے ہر وہ چیز فراہم ہو جاتی ہے جو وہ چاہتے ہیںلہٰذا خدا نے چاہا کہ اپنے بندوں کے درمیان مساوات پیداکرے، اورصاحبانِ مال ودولت کو بھی بھوک اور اس کے درد و رنج کا ذائقہ چکھائے، تاکہ وہ کمزور و لاچارافراد پر مہربانی اور بھوکوں پر رحم کریں( بحارالانوار۔ ج ۹۶ص ۳۷۱)
حمزہ بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں تحریر کیا کہ: خداوندِ عزوجل نے روزہ کیوں فرض کیا ہے؟ اس کے جواب میں امام ؑنے مجھے تحریر کیا کہ : لیجد الغنیّ مسّ الجوع فیمنّ علی الفقیر (تاکہ صاحبانِ دولت بھوک کا مزہ چکھیں اورفقیر پر احسان کریں۔ بحارالانوار۔ ج۹۶۔ ۳۶۹)
ان روایات کے مجموعی مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ روزے کے وجوب کی وجوہ میں سے ایک وجہ، عدالت ِ اجتماعی کے قیام کے سلسلے میں ا قدام ہےتاکہ دولت مند اور صاحب ِ حیثیت افرادروزے کے ذریعے محروم اور مفلس افراد کی بھوک، غربت اور بے چارگی کا درد محسوس کریں اور فقرا اورمساکین کی مدد کریں۔
معاشرے میں بھوکے، غریب اور محتاج افراد ایک کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں، جبکہ دولت مند اور صاحب ِ ثروت افراد کی بھی کمی نہیں، کتنا اچھا ہو کہ دولت مند افراد، ماہِ مبارک رمضان میں محروم اور فقیر افراد کی فکر کریں، اور معاشرے میں عدلِ اجتماعی کے قیام کے لئے ایک قدم اٹھائیں اور حتیٰ الامکان ان لوگوں کی مدد کریں۔
ذرا بتایئے اگر دولت مند ممالک کے لوگ، سال کے صرف چند دن روزہ رکھ لیں اور بھوک کا مزہ چکھیں توکیا پھر بھی دنیا میں بھوک و افلاس باقی رہ سکتاہے؟