ماہِ رمضان

اولیائے خدا کے، قرآن سے اُنس و لگائو کے نمونے

ماہِ رمضان   •   مجلسِ مصنّفین

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ائمۂ معصومین علیہم السلام اور اولیائے الٰہی، قرآنِ کریم سے بہت زیادہ اُنس ورغبت رکھتے تھے اور اس کے ظاہری و باطنی فیوضات سے مستفیض ہوتے تھے۔

یہ ہستیاں، آیاتِ قرآنی کی صرف ظاہری تلاوت پر اکتفا نہیں کرتیں تھیں، بلکہ قرآنی آیات پر غور وفکر، تدبرو تفکر کے ساتھ اس کتاب ِہدایت کی تلاوت میں مشغول ہوتی تھیںٹھہر ٹھہر کر، خوبصورت اور پُرکشش آواز میں، قرآن کے معانی و مفاہیم پرتوجہ کے ساتھ، اور اس پر عمل کے عزم کے ہمراہ اسے پڑھتی تھیں۔

مثال کے طور پر قرآنِ مجید میں سینکڑوں مرتبہ ”یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا“ آیا ہےحضرت امام رضا علیہ السلام جب بھی قرآنِ مجید کی تلاوت کے دوران اس جملے پر پہنچتے، اور اسے پڑھتے، فوراً کہا کرتے تھے کہ: لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ (حاضر ہوں، بارِ الٰہا!حاضر ہوںبحار الانوارج۸۵ص۳۴)

آپ ؑ کا یہ طرزِ عمل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ائمۂ معصومین علیہم السلام توجہ اور تدبر کے ساتھ قرآنِ کریم کی تلاوت فرماتے تھے اوراس تلاوت کے ہمراہ فرامینِ الٰہی پر عمل کا عزم کرتے تھے۔

اب ہم ائمۂ اطہارؑاور اولیائے الٰہی کے قرآنِ کریم سے اُنس ورغبت کے کچھ واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

۱امام حسین علیہ السلام کو قرآنِ کریم سے اس قدر اُنس اور الفت تھی کہ جب کربلا میںنویں محرم کے دن، عصر کے وقت، دشمن نے آپ ؑ اور آپ ؑکے اصحاب کے خیام پر حملے کا قصد کیا، تو آپ ؑ نے حضرت عباس علیہ السلام سے فرمایا: بھائی! آپ دشمن کے پاس جائیے اور ان سے کہیے کہ وہ ہمیں آج رات کی مہلت دیدیں، کیونکہ: ھُوَ یَعْلَمُ اَنِّی اُحِبُّ الصَّلاۃَ لَہُ وَ تِلاوَۃَ کِتاٰبِہِ (خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز اور تلاوتِ قرآن کس قدر عزیز ہےتاریخ طبری ج۶ص۳۳۷، نفس المہمومص۱۱۳)

۲امام زین العابدین علیہ السلام جب کبھی سورۂ حمدپڑھتے ہوئے اس کی آیت ”مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ پر پہنچتے تو اس آیت کو ایک خاص خضوع کے ساتھ دہراتے، یہاں تک کہ محسوس ہونے لگتا کہ ابھی آپ کی روح پرواز کر جائے گی(اصول کافیج۲ص۶۰۲)

آپ ؑ اس قدر خوبصورت اور پیاری آواز میں قرآنِ کریم پڑھا کرتے تھے کہ قریب سے گزرنے والے سقّے (پانی لانے والے) یہ دلنشین آواز سننے کے لئے وہیں ٹھہرجاتے تھے(اصول کافی۔ ج۲ص۶۱۶)

۳امام جعفرصادق علیہ السلام دورانِ نماز ایک ایسی خاص ملکوتی حالت کے ساتھ آیاتِ قرآنی کی تلاوت فرماتے تھے کہ آپؑ پر ایک غیر معمولی کیفیت طاری ہوجاتی تھیایک روز، ایسا ہونے کے بعد جب آپؑ کی حالت معمول پر آئی تو وہاںموجود لوگوں نے پوچھا:آپ ؑ پر یہ کیسی کیفیت طاری ہو گئی تھی؟ حضرت ؑنے جواب دیا: ماٰ زِلْتُ اُکَرِّرُ آیاٰتَ الْقُرْآنِ حَتَّی بَلَغْتُ اِلیٰ حاٰلٍ کَاَنَّنِی سَمِعْتُھا مُشافِھَۃً مَمَّنْ اَنْزَلَھاٰ (میں مسلسل آیاتِ قرآنی دُہرارہا تھا یہاں تک کہ میری حالت یہ ہو گئی کہ گویا میں ان قرآنی آیات کو براہِ راست، قرآن کے نازل کرنے والے کی زبانی سن رہا ہوںبحار الانوار۔ ج۸۴ص۲۴۸)

۴حضرت امام علی رضا علیہ السلام، قرآنِ کریم سے اس قدر اُنس و رغبت رکھتے تھے کہ ہر تین روز میں ایک پورا قرآن ختم کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ:اگر میں چاہوں تو تین دن سے بھی کم مدّت میں قرآن ختم کرسکتا ہوں، لیکن میں نے کبھی قرآن کی کوئی آیت اس کے معنی میں غوروفکر اور اس بارے میں سوچے بغیر نہیں پڑھی ہے کہ یہ آیت کس موضوع کے بارے میںہے، اور کس وقت نازل ہوئی ہےیہی وجہ ہے کہ میں تین دن میںایک پورے قرآن کی تلاوت کرتا ہوں، بصورت ِدیگرتین دن سے بھی کم میں پورا قرآن ختم کرلیتا(مناقب ابن شہر آشوب۔ ج ۴۔ ص۳۶۰)

۵ ”مستدرک الوسائل“ کے مئولف ”محدث نوریؒ“ معتبر سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ عالمِ ربانی و فقیہ ِصمدانی آیت اللہ العظمیٰ سید محمد مہدی بحر العلوم (م: ۱۲۱۲ھ ق) ایک روز امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی مرقدِ مطہر کی زیارت کے لئے آپؑ کے حرمِ مقدس میں داخل ہوئے، تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ وجد کی حالت میں یہ شعر گنگنا رہے ہیں:

چہ خوش است صوتِ قرآن ز نو دلربا شنیدن
بہ رخت نظارہ کردن سخنِ خدا شنیدن

کچھ دیر بعد بعض لوگوںنے ان سے پوچھا کہ آپ حرم میں کس مناسبت سے یہ شعر پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: جب میں حرم میں داخل ہوا، تو میں نے حضرتِ حجت امامِ زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کو امیر المومنین ؑکی ضریح کے نزدیک پایاآپؑ بلند اور خوبصورت لہجے میں قرائت ِقرآن میں مشغول تھےمیں نے آپ کی دل نشین آواز سن کر یہ شعر پڑھاتھاجب میں حرم میں پہنچا تو آنجناب ؑ قرائتِ قرآن ختم کر کے حرم سے نکل گئے( جنۃ الماویٰ)

۶جنگِ صفین کے بعد امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے، ایک روز مسجدِکوفہ میں اپنے اصحاب کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایااس خطبے میں آپ ؑنے جنگِ صفین میں درجۂ شہادت پر فائز ہونے والے اپنے چند خاص اصحاب کو انتہائی دکھ بھرے لہجے میں یاد کیا اور ان کے بارے میں فرمایا:

کہاں ہیں میرے وہ بھائی جو سیدھی راہ پر چلتے رہے، اور حق پر گزر گئے؟ کہاں ہیں عمار؟ اور کہاں ہیں ابن تیہان؟ اور کہاں ہیں ذوالشہادتین؟ اور کہاں ہیں ان جیسے اور دوسرے بھائی کہ جو جانبازی کا عہد و پیمان باندھے ہوئے تھے اور جن کے سروں کو (کاٹ کر) فاسقوں کے پاس روانہ کیا گیا۔

اس کے بعد حضرت ؑاپنی ریشِ مبارک پر ہاتھ رکھ کردیر تک روتے رہےاور پھر اپنے ان ساتھیوں کی چند صفات کا ذکر کیا، اور ان کی پہلی صفت ”تلاوتِ قرآن اور اس کے احکام پر عمل“ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

اَوِّہِ عَلَیٰ اِخْوانِیَ الَّذِیْنَ تَلَوُا الْقُرْاٰنَ فَاَحْکَمُوْہُ، وَتَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَاَقَامُوْہُ۔

آہ! میرے وہ بھائی جنہوں نے قرآن کو پڑھا تو اس پر کاربند ہوئےاپنے فرئض پر غوروفکر کیا تو انہیں ادا کیا(نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۰)

۷ہم گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے اسلامی جمہوری ٔایران کے بانی رہبر کبیر حضرت امام خمینیؒ کے قرآنِ کریم سے اُنس ورغبت کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔

امام خمینی علیہ الرحمہ، اپنے ظاہر وباطن میں، قرآنِ مجید پر انتہائی زیادہ اور بہت گہری توجہ دیتے تھےآپ کا قرآنِ کریم سے تعلق انتہائی عقیدت و احترام پر مبنی تھاآپ نے اس کتابِ ہدایت سے بکثرت فکری اور عملی استفادہ کیااپنے مقاصد کی پیشرفت اور اس سلسلے میں حصولِ قوت کے لئے قرآن ہی آپ کا سب سے زیادہ اطمینان بخش سہارا تھاآپ فرماتے تھے کہ:

اگر خدا نے قرآن میں طاغوتوں سے مقابلے پر مشتمل انبیا کی داستانوں کا ذکر کیا ہے، موسیٰ و فرعون، ابراہیم ونمرود وغیرہ۔ ۔ کا تذکرہ کیا ہے، تو اس کا مقصد داستان سرائی نہیں ہے، بلکہ طاغوتوں کے خلاف انبیا کے لائحۂ عمل کا بیان مقصود ہے یعنی ہم جو قرآن کے پیروکار ہیں، ہمیں طاغوتوں کی نابودی تک ان کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے۔

آپ نے بارہا فرمایا کہ:قرآن ایک مکمل انسان ساز کتاب ہےیہ انسان سازی کے لئے نازل ہوئی ہے۔

امام خمینی علیہ الرحمہ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ، حتیٰ وہ دور بھی جب ایران پر عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ جاری تھی اور وہ زمانہ بھی جب آپ اپنی آخری عمر میں سخت بیماری کے نتیجے میں صاحب ِفراش تھے، قرآن سے اُنس و رغبت کے ساتھ بسر ہواآپ آیاتِ قرآنی کی تلاوت اور ان میں تدبر کے ذریعے خداوندِ عالم سے تعلق اور رابطہ پیدا کرتے تھےآپ کے آفس کے ایک کا رکن کے مطابق:

ہر روز امام خمینی ؒکا ایک خاص منظم پروگرام ہوتا تھاآپ اپنے وقت کا ایک حصہ آیاتِ قرآن کی تلاوت میں گزارتے تھےآپ کے کام اس قدر منظم اور پروگرام کے مطابق ہوا کرتے تھے کہ معمولاً کبھی بھی ایک کام پر آپ کی توجہ، آپ کے دوسرے کام کے خراب ہونے کا موجب نہیں ہوتی تھی۔

امام خمینیؒ جب آدھی رات کو نمازِ شب کے لئے بیدار ہوتے، توکچھ دیر قران کی تلاوت کرتےحتیٰ عمر کے آخری دنوں میں جب آپ بہت زیادہ علالت کی باعث صاحب ِ فراش تھے، خفیہ کیمروں سے آ پ کی جو فلم بنائی گئی، اس فلم میں اکثر دیکھا گیاہے کہ آپ بستر سے اٹھتے او ربیٹھ کر قرآن ہاتھ میں لے کر آیاتِ قرآنی کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے۔

امام خمینی ؒ کو فراغت کا کوئی چھوٹا سا وقفہ بھی ملتا، تو آپ اسے قرآنِ کریم کی تلاوت میں گزارتےکہتے ہیں کہ جب گھر میں کھانے کیلئے دسترخوان چنا جا رہا ہوتا، تو اس چھوٹے سے وقفے میں بھی آپ قرآنِ کریم کھول کر پڑھنے لگتے۔

جس زمانے میں آپ نجفِ اشرف میں مقیم تھے، آپ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہوئیآپ نے ڈاکٹر سے رجوع کیا، ڈاکٹر نے آپ کی آنکھوں کے معاینے کے بعد کہا کہ: آپ کچھ دن قرآن نہ پڑھئے گا، اور اپنی آنکھوں کوآرام دیجئے گایہ سن کر امام خمینیؒ مسکرائے اور ڈاکٹر سے کہا:میں قرآن پڑھنے ہی کیلئے توآنکھیں چاہتا ہوں، کیا فائدہ کہ میری آنکھیں تو ہوں لیکن میں ان سے قرآن نہ پڑھ سکوں؟ آپ کچھ ایسا کیجئے کہ میں قرآن پڑھ سکوں۔

نجفِ اشرف میں امام خمینیؒ کے ساتھ رہنے والے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ: امام خمینیؒ ماہِ رمضان میں ہر روز قرآنِ مجید کے دس پارے پڑھتے تھےیعنی ہر تین دن بعد ایک قرآن ختم کرتے تھےیوں آپ ماہِ رمضان میں دس قرآن ختم کرتے تھے۔

روایات میں آیا ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ایک ممتاز شاگرد ”علی بن مغیرہ“ نے آپ ؑ سے عرض کیا: میں ا پنے والد کی طرح، ماہ ِرمضان میں چالیس قرآن ختم کرتا ہوں کبھی مصروفیات یا تھکن کی وجہ سے یہ تعداد کم ہوجاتی ہے اورکبھی فراغت اوربشاشت کی وجہ سے زیادہپھر (عید)فطر کے دن، ان میں سے ایک ختمِ قرآن کا ثواب پیغمبر اسلامؐ کو ہدیہ کرتا ہوںدوسرے ختمِ قرآن کا ثواب حضرت علی ؑ کو، تیسرے ختمِ قرآن کا ثواب حضرت فاطمہ ؑکو اور اسی طرح دوسرے ائمہ ٔاطہار ؑ کو۔ ۔ یہاں تک کہ آپؑ کوبھی شامل کرتا ہوںاس عمل سے مجھے کیا ثواب ملے گا؟

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

لَکَ بِذٰلِکَ أَنْ تَکُونَ مَعَھُمْ یَوْمَ الْقِیامۃ۔

تمہاری جزا یہ ہے کہ تم روز ِقیامت ان لوگوں کے ساتھ ہوگے۔

میں نے کہا: اللہ اکبر! سچ مچ کیا میرا یہ مقام ہوگا؟ امام ؑنے تین مرتبہ فرمایا: ہاں، ہاں، ہاں۔ (اصول کافیج۲۔ ص۶۱۸)

اس گفتگو کی آخری سطور کو ہم تلاوتِ قرآن کے ثواب کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کے ایک کلام سے زینت بخشتے ہیں آنحضرتؐ نے فرمایا:

جوشخص ہر رات قرآنِ کریم کی دس آیات پڑھے گا، اس کا نام ”غافلوں“ کے ساتھ نہیں لکھا جائے گااورجو کوئی ہر رات پچاس آیات پڑھے گا، اس کا نام ”ذاکرین“ میں لکھا جائے گا، اور جو کوئی سو آیات پڑھے گا، اس کا نام ”قانتین“ (مخلص اورعاجز بندگانِ خدا) میں، اورجو کوئی دو سو آیات پڑھے گااس کا نام خاشعین میں، اور جو کوئی تین سو آیات پڑھے گا، اس کا نام ”فائزین“ (کامیاب افراد) میں ثبت کیا جائے گااورجو شخص پانچ سو آیات کی تلاوت کرے گا، اس کا نام ”مجتہدین“ (راہِ حق کے متلاشی افراد) میں، اورجو کوئی ایک ہزار آیات پڑھے گا، اس کیلئے نیکیوں کا قنطار ہوگا۔ اور ہر قنطار پندرہ ہزار مثقال سونے کے برابرہوگا اور اس میں کا ہر مثقال چوبیس قیراط کا ہوگا اور اس کا سب سے چھوٹا قیراط کوہ ِاحد کے برابر ہوگا اور سب سے بڑا قیراط زمین سے آسمان کی بلندی جتنا ہوگا(اصول کافی۔ ج۲۔ ص۶۱۸)