الف : تقویٰ کے رخ سے
ماہِ رمضان • مجلسِ مصنّفین
اسلام میں تقویٰ، بنیادی اخلاقی قدر ہے اوراسے اسلامی احکام وضع کرنے کا مقصد قرار دیا گیا ہےبعض عبادات، بلکہ بنیادی طور پر بذات خود عبادت کا مقصد، یہ ہے کہ انسان عبادی اعمال کی انجامدہی کے ذریعے متقی بنیں۔
خداوندِ عالم، قرآنِ مجید میں فرماتا ہے کہ :
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ
اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں، جس طرح تمہارے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے، شاید تم اسی طرح متقی بن جائوسورۂ بقرہ ۲- آیت ۱۸۳
یہ آیۂ شریفہ، اس انسان ساز عبادت کا فلسفہ، ایک مختصر لیکن انتہائی پُر معنی جملے ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ“ (شاید تم اسی طرح متقی بن جائو) میں بیان کرتی ہے۔
روزہ، انسانی زندگی کے تمام میدانوں اور تمام پہلوئوں میں، تقویٰ اور پرہیز گاری کی روح کی پرورش کا ایک موثر عامل ہے۔
روزہ، مختلف رخ اور جہات رکھتا ہے، جن میں سے سب سے اہم ترین اسکا معنوی، اخلاقی اور تربیتی پہلو ہےروزہ انسان کی روح اور ارادے کو قوی کرتا ہے اوراسکی نفسانی خواہشات کو متوازن بناتا ہے۔
روزہ دار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ روزے کی حالت میں کھانے پینے اور اسی طرح جنسی لذت سے پرہیز کرے اورعملاً یہ بات ثابت کرے کہ وہ حیوان نہیں ہے جواپنی خواہشات کی تسکین کیلئے اِدہر اُدہر منھ مارتا پھرتا ہےبلکہ وہ اپنے سرکش نفس کو لگام دے سکتا ہے، اور اپنی نفسانی خواہشات پر غلبہ پا سکتا ہےدرحقیقت روزے کا سب سے بڑا مقصد، اسکا یہی روحانی اور معنوی اثر ہے۔
ایسے انسان جو طرح طرح کی لذیذ غذائوں اور ٹھنڈے میٹھے مشروبات تک دسترس رکھتے ہیں، اور جوں ہی انہیں بھوک یا پیاس محسوس ہوتی ہے، بے دریغ ان اشیا سے استفادہ کرتے ہیں، وہ نہروں کے کنارے اگنے والے درختوں کی طرح ہیںناز و نعم میں پرورش پانے والے یہ درخت ذرا سی سختی پر پژمردہ ہو جاتے ہیں اگر انہیں صرف چند دن پانی نہ ملے تو مرجھا کر خشک ہو جاتے ہیںلیکن صحرائوں، سنگلاخ پہاڑوں اور خشک میدانی علاقوں میں اگنے والے درخت جو ابتدا ہی سے جلتے سورج، تیز وتند ہوائوں اور سخت سردیوں کا سامنے کرتے ہیں اور طرح طرح کی محرومیوں کے ساتھ نشو و نما پاتے ہیں، وہ مضبوط، سخت جان اور دیر تک قائم رہنے والے ہوتے ہیں۔
روزہ بھی انسان کی روح کے ساتھ یہی عمل انجام دیتا ہےاور وقتی اور عارضی پابندیوں کے ذریعے اسے سخت کوش اور مضبوط قوت ِارادی کا مالک بناتا ہے، اوراسے مشکلات کے خلاف مقابلے کی طاقت فراہم کرتا ہے اور سرکش خواہشاتِ نفسانی کوکنٹرول کرکے انسانی قلب کو نور اور پاکیزگی بخشتا ہے۔
روزہ، ایک انتہائی اہم عبادت ہےاگر مخصوص آداب و شرائط کے ساتھ، اور جس طرح اللہ رب العزت چاہتا ہے اُس طرح انجام پائے تو تعمیر کردار اور تزکیہ و تہذیب ِنفس کے سلسلے میں بہت زیادہ تاثیر کاحامل ہے۔
روزہ، انسانی نفس کو گناہوں اوراخلاقِ بد سے پاک کرنے اور اسے معنوی و انسانی ارتقا اور نشو و نما کے لئے آمادہ کرنے کے سلسلے میں بنیادی کردار کا حامل ہے۔
روزہ رکھنے والا انسان گناہوں کو ترک کرنے کے ذریعے، نفس امارہ کو لگام دے کر، اسے کنٹرول کر کے، اپنے اختیار میں لیتا ہے۔
روزہ داری کے ایام، گناہوں کو ترک کرنے اور ریاضت ِ نفس کا زمانہ ہیں، جہاد بالنفس اور پرہیز گاری کی مشق کادور ہیں اس زمانے میں انسان اپنے نفس کو گناہوں اور غلاظتوں سے پاک کرنے کے علاوہ جائز لذتوں، جیسے کھانے پینے سے بھی اجتناب برتتا ہے اور اس عمل کے ذریعے اپنے نفس کو جِلا اور نورانیت بخشتا ہےکیونکہ بھوک باطن کی جِلا اور خدا کی جانب توجہ کا باعث ہوتی ہےانسان اکثر بھوک کے عالم میں اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے، جبکہ پیٹ بھرا ہونے کی صورت میں، وہ اس کیفیت سے عاری ہوتا ہے۔
اسلام نے پُرخوری کی مذمت کی ہے اور انسان کو کم خوری کی تاکید کی ہےکیونکہ انسان شکم سیری کی حالت میں دعا و مناجات کی لذت نہیں اٹھا پاتاجبکہ بھوک کی حالت میں عبادات و مناجات میں زیادہ لذت محسوس کرتا ہے۔
رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ و الہ وسلم کا ارشاد ہے:
لاتشبعوا فیطفی نورالمعرفۃ من قلوبکم۔
پُرخوری نہ کرو، کیونکہ اس سے تمہارے قلب میں معرفت کا نوربجھ جاتا ہے(مستدرک الوسائل - ج ۳- ص ۸۱)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:
نعم العون علی اسرالنفس و کسرعا دتھا التجوع۔
بھوک، نفس کی بہترین مددگار اور اسکی عادتوں کا خاتمہ کرتی ہے(حوالہ سابق)
حضرت علی علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ: خداوند ِعالم نے شب ِمعراج رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) سے فرمایا:
یا احمد! لوذقت حلاوۃالجوع، والصمت، والخلوۃ، وماورثوامنھا۔ قال:یارب!ما میراث الجوع؟ قال: الحکمۃ، وحفظ القلب، والتقرب التی، والحزن الدائم، وخفّۃ بین الناس، و قول الحق، ولا یبالی عاش بیسر او بعسر
اے احمد! کاش آپ بھوک، خاموشی، تنہائی اور ان کے آثار کی مٹھاس کو چکھتےرسول اﷲ ؐنے عرض کیا : بارِالٰہا! بھوک کا فائدہ کیا ہے؟ فرمایا: حکمت، قلب کی حفاظت، میرا تقرب، دائمی حزن، کم خرچی، حق گوئی اور سختی میں ہو یا آسانی میں بیباکیمستدرک الوسائل۔ ج۳۔ ص۸۲
علامہ محمد حسین طباطبائی ؒ آیۂ شریفہ ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ“ (سورۂ بقرہ۲- آیت ۱۸۳) کی تفسیر میں فرماتے ہیں :اسلام کی تعلیمات ِعالیہ اور اسکے بیانات ِوافیہ سے پتا چلتا ہے کہ پاک پروردگار کی ذات اس بات سے منزہ ہے کہ اسے کسی چیز کی احتیاج و نیاز ہواوروہ ہر قسم کے نقص اور کمی سے مبرا ہےپس عبادات کا فائدہ صرف اور صرف بندے کوہوتا ہے، خدا کونہیں، اور گناہوں کا بھی یہی حال ہےخداوندِ عالم قرآنِ مجید میں فرماتا ہے: اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَ نْفُسِکُمْ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَھَا (اب تم نیک عمل کرو گے، تواپنے لئے اور بُرا کرو گے، تو اپنے لئےسورۂ بنی اسرائیل ۱۷- آیت ۷)
پس اطاعت یا معصیت کے اثرا ت خود انسان پر عائد ہوتے ہیں جو صرف اور صرف نیاز اور تہیدستی کی خصوصیت کا حامل ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَی ﷲِ وَاللّٰہُ ھُوَا لْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ (اے انسانو! تم سب بارگاہِ الٰہی کے فقیر ہو، اور اﷲ صاحب ِ دولت اور قابلِ حمد و ثنا ہے سورۂ فاطر ۳۵- آیت ۱۵)
روزے کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ“ یعنی یہ حکم اس لئے وضع کیا گیا ہے کہ تم پرہیز گار بن جائو، اس لئے نہیں کہ پروردگار کو تمہارے روزے کی ضرورت ہے۔
البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ روزے کے ذریعے حصولِ تقویٰ کی امید کی جا سکتی ہےکیونکہ انسان فطرتاً یہ بات محسوس کرتا ہے کہ اگر کوئی عالمِ طہارت اور قدس سے تعلق پیدا کرنا چاہے اور کمال و روحانیت کے مرتبے پر پہنچنے کا خواہشمند ہو اور چاہتا ہو کہ معنوی ارتقا کے درجات طے کرے، تواس کے لئے سب سے پہلے جو چیز ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ وہ بے لگامی اور خواہشات ِنفسانی سے پرہیز کرے، سرکش نفس کو کنٹرول کرے اور اسے بے لگام ہو کر جہاں دل چاہے منھ مارنے کی اجازت نہ دے، مادی زندگی کے مظاہر میں ڈوب جانے اور انہی سے دل لگانے سے خود کو پاک رکھے۔
مختصر یہ کہ جو چیز اسکے اور خدا کے درمیان رکاوٹ ہو، اس سے دور رہےاور یہ تقویٰ شہوتوں پر قابو پانے اور نفسانی خواہشات سے دور رہنے کے ذریعے حاصل ہوتا ہےاورجوچیز عام لوگوں کے حال سے مناسب ہے، وہ یہ ہے کہ جن امور کی تمام ہی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے، جیسے کھانا پینا اور جائز شہوات کی جانب میلان، تو ان پر کنٹرول سے کام لیں، تاکہ اس مشق کے ذریعے انہیں قوتِ ارادی حاصل ہو، اور ناجائز نفسانی خواہشات سے بھی دور رہ سکیں اور تقربِ الٰہی کی سمت بڑھیںکیونکہ جوشخص جائز اور مباح امور(کو چھوڑنے کے سلسلے) میں خدا کی بات مانتا ہے وہ ناجائز اور حرام امور (کو چھوڑنے کے سلسلے) میں اسکی بہتر اطاعت اور فرمانبرداری قبول کرے گا(تفسیر المیزان ج ۳۔ ص۹)
ایسا شخص جو ماہِ رمضان میں روزے رکھے، اور اس ایک مہینے میں ارتکاب ِگناہ اور برے اخلاق و کردار سے اجتناب کرے، وہ ماہِ مبارکِ رمضان کے بعد بھی ترکِ گناہ اور اخلاقِ بد سے پرہیز کی اس حالت کو باقی رکھ سکتا ہے۔
روزہ، ایک ایسی عبادت ہے جس میں جائز لذتوں کو چھوڑنے اور گناہوں سے دوری کی باعث، روزہ دار شخص کا دل پاک ہو جاتا ہے اوروہ خدا کے سوا کسی اور کے ذکر اور فکر سے آزاد رہتا ہے۔
روزے کا اہم ترین فلسفہ تقویٰ کا حصول ہےاخلاقی خوبیوں اور انسانی خصلتوں کا حصول، خدا کی طرف سے واجب کئے گئے اس حکم کا لازمہ ہےکیونکہ (روزے کے عبادت ہونے سے قطع نظر) بھوک انسان کو ان میلانات اور کششوں سے بازرکھتی ہے جو اسے سرکشی اور گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں اور اسکے اندر انسانی خُلق وخُو کو زندہ کرتی ہےلہٰذا تقویٰ، اپنی اصلاح کرنے والے انسان کی بلند ترین خصوصیت ہے۔
تقویٰ کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے :
فَاءِنَّ تَقْوَیٰ ﷲِ دَوَاُ دَاءِ قُلُوبِکُمْ، وَ بَصَرُ عَمَیٰ أَ فْئِدَتِکُمْ، وَشِفَاءَ مَرَضِآ اَجْسَادِکُمْوَصَلَاحُ فَسَادِ صُدُورِکُمْ، وَطُھُورُ دَنَسِ أَنْفُسِکُمْ، وَ جِلَاءُ غَشَاءِ أَبْصَارِکُمْ، وَأَمْنُ فَزَعِ جَأْشِکُمْ، وَ ضِیَائُ سَوَادِ ظُلْمَتِکُمْ۔
بے شک تقویٰ تمہارے قلوب کی بیماری کی شفا بخش دوا، فکر و شعور کی تاریکیوں کے لئے اجالا، جسموں کی بیماریوں کے لئے شفا، سینے کی تباہ کاریوں کے لئے اصلاح، نفس کی کثافتوں کے لئے پاکیزگی، آنکھوں کی تیرگی کے لئے نور، دل کی دہشت کے لئے ڈھارس اور جہالت کے اندھیروں کے لئے روشنی ہے(نہج البلاغہ - خطبہ ۱۹۶)