قرآنِ مجید سے اُنس ورغبت
ماہِ رمضان • مجلسِ مصنّفین
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:
مَنْ اَنَسَ بِتَلاوَۃِ الْقُرآنِ، لَمْ تُوحِشْہُ مُفارَقَۃُ الاِخْوانِ۔
جو شخص قرآن کی تلاوت سے اُنس ورغبت رکھتا ہے، وہ اپنے بھائیوں کی جدائی سے وحشت زدہ نہیں ہوتا(عزرالحکم)
امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ہے:
لَوْماتَ مِنْ بِیْنِ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغرِبِ لَما اسْتَوْحَشْتُ، بَعْدَ اَنْ یَکُونَ الْقُرْآنُ مَعِی۔
اگر مشرق و مغرب کے درمیان پائی جانے والی تمام موجودات نابود ہوجائیں اور میں تنہا رہ جائوںلیکن اس موقع پر قرآن میرے ہمراہ ہو، تو مجھے ذرّہ برابر وحشت محسوس نہ ہوگی( اصول کافیج۲۔ ص۶۱۰)
اس مقام پریہ سوال ضرور سامنے آتا ہے کہ قرآنِ کریم سے اُنس و لگائو آخرہے کیا چیز، جو انسان کو اس قدر مضبوط اور پختہ کر تاہے اور اس سے ہر قسم کے اضطراب اورتنائو کو دور کر دیتاہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: اُنس کے معنی دراصل کسی چیزسے رغبت، پیاراوراس کا ہمدم و ہمنشین ہوجانا ہےجیسے شیرخوار بچے کا اپنی ماںکی آغوش سے اُنسیت رکھناکبھی کبھی کسی چیز سے اُنس اتنا شدید ہوجاتا ہے کہ وہ ماں کی آغوش سے بچے کے اُنس سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے انہیں موت سے ڈرانے والے منافقین سے، فرمایا تھا کہ:
وَاللّٰہِ لاَ بْنُ اَبِی طاٰلِبٍ اَنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْیِ اُمِّہِ۔
خدا کی قسم ابو طالب کے بیٹے (علی ؑ) کو موت سے اس سے بھی زیادہ اُنسیت ہے، جتنی اُنسیت شیرخوار بچے کو اپنی ماں کی آغوش سے ہوتی ہے(نہج البلاغہ۔ خطبہ۵)
سچا عارف وہ ہے، جو خدا اور اس کے کلام سے اُنس والفت رکھتا ہو۔ لہٰذا حضرت علی علیہ السلام نے آیت قرآن: یٰٓاَیُّھَاالْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ (اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب سے دھوکے میں رکھا ہےسورۂ انفطار۸۲آیت ۶) کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے کہ: وَکُنْ للّٰہِ مُطیعاً وَ بِذِکْرِہِ اَنِساً (خداوندِعالم کے مطیع وفرمانبردار بنو اور خدا کی یاد سے اُنس و رغبت پیدا کرونہج البلاغہخطبہ۲۲۳)
لہٰذا اُنس کا حقیقی اور واقعی مفہوم یہ ہے کہ انسان کسی چیز کے عشق میں مبتلا ہوجائے اور اس کے ساتھ شدید اور اٹوٹ تعلق کے ساتھ اُس کا ہمدم و ہم جان ہوجائےیہ جذبہ اُس چیز سے انسان کے تعلق اور بندھن کو محکم اور مضبوط کرتا ہے جس سے اسے اُنس ہوتا ہے۔
خدا اور کلامِ خدا سے ایسا ہی اُنس، اولیائے الٰہی اور ہر عارف اورسچے مومن کے اوصاف میںسے ہےلہٰذا میر المومنین حضرت علی علیہ السلام، بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
اَللّٰھُمَّ اِنِّکَ اَنَسُ الاَ نِسِینَ لاَ وْلِیاٰئکَ۔۔۔ اِنْ اَوْ حَشَتْھُمُ الْغُرْبَۃُ اَنَسَھُمْ ذِکْرُکَ۔
بارِ الٰہا! تو اپنے دوستوں کے ساتھ، تمام اُنس رکھنے والوں سے زیادہ مانوس ہے۔ ۔ اگرتنہائی سے ان کا دل گھبراتا ہے تو تیرا ذکر ان کا مونس و ہمدم ہوتا ہے(نہج البلاغہ۔ خطبہ۲۲۴)