ماہِ رمضان

مدرسۂ دعا کے تین اہم سبق

ماہِ رمضان   •   مجلسِ مصنّفین

دعا اور خدا وندِ عالم سے التماس و استدعا، جسے ماہِ رمضان کے پروگرام کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور جو رمضان اور روزے کے مفہوم کی تکوین میں بنیادی کردار کی حامل ہے، وہ بارگاہِ الٰہی میں فقط حاجات و ضروریات کے پورا ہونےکی درخواست کا نام نہیں ہے، بلکہ اسکے تین پہلو ہیںواضح الفاظ میں عرض ہے کہ ہمیں مکتب ِ دعا سے تین عظیم اوراہم ترین سبق حاصل کرنے چاہئے، اور دعا کرے ہوئے ہمیں ان تینوں پر گہر ی توجہ رکھنی چاہئے۔

٭ دعا بلائوں کی دوری اور حاجات کی قبولیت کا ذریعہ ہےجیسا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ایک کلام میں فرمایا:

اِدْفَعوُااَمْوَاجَ الْبَلاءِ عَنْکُمْ بِالدُّعاٰءِ قَبْلَ وُرودِ الْبَلاءِ۔

بلائوں کے طوفان کو آنے سے پہلے، دعا کے ذریعے اپنے آپ سے دور کر دو( بحار الانوارج ۱۳ص ۲۸۹ )

٭دعا کے ساتھ نالہ و فریاد، خضوع و خشوع اور راز و نیاز ہوتا ہےاور یہ خصوصیت انسان کے غرور کو توڑتی ہے اور قلب کو معنوی نعمتوں کی قبولیت کیلئے تیار کرتی ہےاسکے نتیجے میں دلی سکون، قوتِ قلب اور عالی ہمتی انسان کو ملتی ہےخداوند ِعالم کا قول ہے :

اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیَۃً

تم اپنے رب کو گڑگڑا کر اور خاموشی کے ساتھ پکاروسورۂ اعراف۷آیت ۵۵

٭ان سب سے اہم ترین چیز پیغمبر اسلامؐ اورائمۂ معصومین ؑسے منقول دعائوں کے بلند معارف اور گہرے اور پُر معنی نکات سے مالا مال مضامین کی جانب ہمار ی توجہ ہے، جو درحقیقت انسان سازی کی عظیم درسگاہ کی حیثیت رکھتے ہیںمثال کے طور پر صحیفہ ٔ سجادیہ کی پہلی دعا اور اسی طرح نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ، دونوں میں یکساں طور سے عالی ترین سطح پر معارف ِاسلامی کو بیان کیا گیا ہے اور معارف اور حقیقی عرفان کے سود مند ترین درس ہمیں دیئے گئے ہیں۔

دعائوں کے مضامین پر گہرا غور و فکر انسان کی معلومات اور معرفت کی سطح بلند کرنے کا باعث ہے اورعالی درجہ تعمیری اور تکامل بخش مفاہیم و اقدار، جن میں سرِ فہرست توحید اور اسکے مختلف پہلو ہیں، کے بارے میں انسان کی شناخت و معرفت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔

کچھ لوگوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: ہم دعا کرتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں ہوتی، اسکی کیا وجہ ہے؟ امام ؑنے انہیں جواب دیا :

لِاَنَّکُمْ تَدْعوُنَ مَنْ لاٰتَعْرِفوُنَہُ۔

وجہ یہ ہے کہ تم ایسی ہستی کو پکارتے ہو، جس کی معرفت نہیں رکھتے(بحار الانوار۔ ج ۹۳۔ ص۳۶۸)

یعنی دعا کرتے ہوئے خدا کی معرفت و شناخت اور اصولِ تکامل پر بھی توجہ ہونی چاہئے۔