ماہِ رمضان

۲روزے کا اُخروی پہلو (قیامت کی یاد دہانی)

ماہِ رمضان   •   مجلسِ مصنّفین

روزے کے واجب کئے جانے کا دوسرا قابلِ بحث وگفتگو پہلو، اسکا اُخروی پہلو ہےجو دراصل قیامت کے دن کی یاد دلانا ہےیعنی جو انسان روزہ رکھ کر بھوک اور پیاس کی سختیاں برداشت کرتا ہے، اسے روزِ قیامت کی بھوک اور پیاس کا خیال آتا ہے۔ قیامت کے دن کی سختیوں کی جانب اس کا یوں متوجہ ہونا، اسکے کردار اور عمل پر قابلِ لحاظ اثر مرتب کرتا ہے۔

اگر انسان اپنے اعمال و کردار کی جانب متوجہ رہے، خود کو وعظ و نصیحت کرتا رہے اور ہمیشہ یہ خیال اسکے دل میں رہے کہ اسے ایک دن اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے، اسکی ایک ایک حرکت اور ایک ایک سکوت کا حساب دینا ہے، تو اسکا یہ احساس اسکے مزاج اور اخلاق پر نہایت مثبت اثرات مرتب کرے گاجس کے نتیجے میں وہ بارگاہِ الٰہی سے زیادہ سے زیادہ اجر وثواب کا حقدار بن جائے گا۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے:

فان قال:فلم امروابالصوم؟ قیل لکی یعرفواالم الجوع، والعطش، فیستد لواعلی فقر الاٰخرۃ، ولیکون الصائم خاشعًا ذلیلاً مستکینًا ماجورًا محتسبًا، عارفًاصابرًالما اصابہ من الجوع والعطش، فیستوجب الثوابمع مافیہ من الانکسار عن الشھوات، و لیکون ذٰلک واعظًالھم فی العاجل، ورائضًا لھم علی اداء ما کلّفھم و دلیلاًلھم فی الاٰجل، ولیعرفواشدّۃ مبلغ ذٰلک علی اھل الفقروا لمسکنۃ فی الدّنیا، فیودّوا الیھم ما افترض ﷲتعالیٰ لھم فی اموالھم(بحارالانوار - ج ۹۳- ص ۳۶۹)

اگر کوئی پوچھے کہ روزے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ تواسکا جواب یہ ہے: تاکہ انہیں معلوم ہوکہ بھوک اور پیاس کی تکلیف کیا ہوتی ہے، اور اس ذریعے سے وہ آخرت کے فقروفاقے کو محسوس کریں، نیز (اس کے ذریعے) ان میں خضوع وخشوع اور فروتنی پیدا ہو اور وہ اسکا اجر حاصل کریں، اور یہ سمجھیں کہ ان کا اجر خدا کے پاس ہے، انہیں خدا کی معرفت حاصل ہو، انہیں بھوک اور پیاس سے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کریں، تاکہ ثواب کے مستحق قرار پائیںاس کے ساتھ ساتھ (روزے کے ذریعے) ان میں موجود خواہشاتِ نفسانی کمزور ہوں، (روزہ) دنیا میں ان کیلئے وعظ و نصیحت کا موجب ہو اور فریضے کی انجامدہی کے لئے ایک مشق ہو، اور آخرت میں ان کے لئے رہنما ہو اورانہیں معلوم ہو کہ دنیا میں فقراو مساکین کس مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔ خدا نے ان کے اموال میں فقرا ومساکین کا جو حق واجب کیا ہے وہ انہیں ادا کریں۔

یہ حدیث، جس میں امام رضا علیہ السلام نے روزے کے واجب ہونے کا فلسفہ بیان فرمایا ہے، اس میں روزے کے اُخروی پہلو، یعنی روزِ قیامت کی بھوک اور پیاس کی یاد دہانی کے علاوہ فقرا اور مساکین کی مشکلات کی جانب توجہ کابھی ذکر ہےجس کا تعلق روزے کے اجتماعی پہلو سے ہے، جس پر آئندہ سطور میں ہم روشنی ڈالیں گے۔

ایک دوسرے مقام پر امام رضا علیہ السلام ہی نے ارشاد فرمایا ہے کہ :

انما امروا بالصوم لکی یعرفوا الم الجوع والعطش فیستدلوا علی فقر الآخرۃ۔

لوگوں کو روزے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ وہ بھوک اور پیاس کو محسوس کریں، اور اس کے توسط سے آخرت کے فقر اور بے چارگی کو درک کریں( من لایحضرا لفقیہ ج ۲ص ۴۳)

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے، خطبۂ شعبانیہ میں فرمایا ہے :

وذکروا بجوعکم وعطشکم جوع یوم القیامۃ وعطشہ۔

اور روزے میں تمہاری بھوک اور پیاس کے ذریعے تمہیں قیامت کی بھوک اور پیاس یاد دلائے( بحار الانوارج ۹۶ص ۳۵۶)

اس باب میں بیان ہونے والی روایات سے مجموعاً جو بات سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس برداشت کرا کے، اسے آخرت کی جانب متوجہ کیا جائے اور ایسا انسان جوروزے کی سختیاں اور مشکلات برداشت کرتا ہے، وہ اس موقع پر قیامت کے دن کے فقر اور مشکلات کی جانب متوجہ ہو۔