ماہِ رمضان

مکتب ِ دعا سے بہتر استفادے کیلئے آداب کا ملحوظ رکھنا

ماہِ رمضان   •   مجلسِ مصنّفین

ہرعبادت کے کچھ آداب اورشرائط ہوتے ہیں، جن کے بغیر یہ عبادت بےاثر رہتی ہےلہٰذا ضروری ہے کہ ہم دعا کے آداب و شرائط کو جانیں اور انہیں ملحوظ رکھ کر دعا کریں، تاکہ ہماری دعائیں اثر بخش ہوںاسی صورت میں دعا تہذیب ِ نفس اوراصلاحِ کردار میں اپنا اثر دکھائے گیمثال کے طور پر گناہ سے کنارہ کش ہونے کا پختہ عزم، دل کو پاک کرنا، حلال غذا اور جائز کسب ِ معاش، امربالمعروف ونہی عن المنکراورعادل اور لائق قیادت کی رہبری قبول کرنا، دعا کی شرائط میں شامل ہیں۔

دعا کے آداب بھی متعدد ہیں جیسے:

۱خدا کے نام اور صفاتِ الٰہی کے تذکرے سے دعا کا آغاز کرنا۔
۲محمدؐ اور آلِ محمدؑ پر در ود اورسلام بھیجنا۔
۳دعا کے وقت اولیائےالٰہی، جیسے پیغمبراسلام اور ائمۂاطہارؑ کو شفیع قرار دینا۔
۴اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا۔
۵دورانِ دعا بارگاہِ الٰہی میں گڑ گڑانا۔
۶دعا سے پہلے دو رکعت نمازِ حاجت ادا کرنا۔
۷دعا کو معمولی اور غیر اہم بات نہ سمجھنا۔
۸خدا کی عظمت و بزرگی کے سامنے اپنی خواہشات اور حاجات کو حقیر اور ناچیز سمجھنا۔
۹دعا میں عالی ہمتی اور بلند نظری کو پیش نظر رکھنا۔
۱۰اپنی دعا میں سب کوشامل کرنا۔
۱۱پوشیدہ دعا کرنا، جس کی اہمیت ستّرعلانیہ دعائوں کے مساوی ہے۔
۱۲قبولیت ِدعا کے سلسلے میں حسنِ ظن رکھنا۔
۱۳مناسب و مقدس جگہوں اور اوقات میں دعا کرنا۔
۱۴دعا کرتے ہوئے اصرار کرنا( میزان الحکمہ۔ ج ۳ص ۲۶۰ تا ۲۶۷سے ماخوذ)

واضح رہے کہ ان آداب و شرائط میں سے ہر ایک، خدا سے مضبوط تعلق کے قیام اور خود سازی کے سلسلے میں مثبت کردار رکھتے ہیں اور انسان کو پاکیزگی، اصلاح اور کمال کی جانب اسکی صحیح اور ثابت قدمی کے ساتھ حرکت کیلئے زیادہ سے زیادہ تیار کرتے ہیںلہٰذا دعائے کمیل کے الفاظ ہیں کہ :

اَللّٰہُمَّ اِغْفِرْلِیَ الذُّنُوبَ الَّتِی تَحْبِسُ الدُّعاٰ۔

بارِ الٰہا! میرے ان گناہوں کو بخش دے، جو دعائوں کی قبولیت اور ان کی تاثیر میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔

اسی طرح ماہِ رمضان کی دعائوں اور ان کے علاوہ پڑھی جانے والی دعائوں میں ہم اکثر فکر و عمل کی پاکیزگی، گناہ اور گمراہی سے پرہیزاور ہر قسم کی برائیوں اور نجاستوں سے دوری طلب کرتے ہیں اور کلی طور پر دعائوں کے مضامین خودسازی کا رجحان لئے ہوتے ہیں۔

مثلاً ماہِ رمضان کی صبحوں میں پڑھی جانے والی دعا ”دعائے ابوحمزہ ثمالی“ کا ہر جملہ تہذیبِ نفس، اصلاحِ کردار اور صفائے باطن کا ایک مکتب ہےمثلاً اس دعا کے ایک حصے میں ہم پڑھتے ہیں کہ:

اَللّٰھُمَّ طَھِّرْقَلْبِی مِنَ النِّفاٰقِ، وَ عَمَلِی مِنَ الرِّیاٰءِ، وَلِساٰنِی مِنَ الْکِذْبِ، وَ عَیْنِی مِنَ الْخِیاٰنَۃِ۔

بارِ الٰہا! میرے دل کو نفا ق سے، میرے عمل کو ریا اور دکھاوے سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے پاک فرما۔

یہ تمام گفتگو اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ آداب و شرائط کے ساتھ صحیح دعا خود سازی اور تعمیر کردار کی غرض سے رمضان کی روح سے استفادے کیلئے ایک مضبوط اور گہرا عامل ہےنیز مکتب ِ ماہِ رمضان، اپنے مختلف پہلوئوں میں، جن میں سے ایک خدا کے اس مہینے میں دعا بھی ہے پاکیزہ روح، قلب ِسلیم اور خالص نیت کی پرورش و نشوونما کیلئے ایک عالی ترین مکتب ہے۔

ہمیں اہلِ بیت ؑسے دعا کا سلیقہ اور بارگاہ ِالٰہی میں التماس کا ڈھنگ سیکھنا چاہئےدعا کے بنیادی اراکین میں سے ایک رکن یہ بھی ہے کہ ہماری دعائیں معقول، مناسب، پُرمعنی اور صحیح اور جچے تلے اصولوں کی بنیاد پر ہوں۔

پیغمبرؐ اورائمۂ اطہار ؑ سے نقل ہونے والی، یا قرآنِ مجید میں نظر آنے والی دعائیں وضاحت کے ساتھ ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہیں کہ دعائوں کے مضامین کو اعلیٰ معنی اور گہرائی کا حامل ہونا چاہیےمثال کے طور پربطل توحید حضرت ابراہیم خلیل اللہ(علیہ السلام) نے بیت اللہ کی بنیادوں کی تجدید کے بعد چند دعائیں کیں، جنہیں قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہےانہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا:

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَ اَرِنَامَنَا سِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُرَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَ کِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔

پروردگار! ہماری محنت کو قبول فرما لے، کہ تو بہترین سننے والا اور جاننے والا ہےپروردگار! ہم دونوں کو اپنا مسلمان اور فرمانبردار قرار دیدے، اورہماری اولاد میں بھی ایک فرمانبردار امت پیدا کرہمیں ہمارے مناسک دکھلا دے، اور ہماری تو بہ قبول فرما کہ تو بہترین توبہ قبول کرنے والامہربان ہےپروردگار! ان کے درمیان ایک رسول کومبعوث فرما جو، ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائےبے شک تو صاحب ِعزت اور صاحب ِ حکمت ہے( سورۂ بقرہ ۲آیت ۱۲۷تا۱۲۹)

رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَاٰ مِنًاوَّاجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَرَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًامِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍغَیْرِذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَرَبَّنَآ اِنَّکَ تَعْلَمُ مَانُخْفِیْ وَ مَانُعْلِنُ وَمَایَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنْ شَیْ ءٍ فَی الْاَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآءِ۔

پروردگار! اس شہر کو محفوظ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچائے رکھ، پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، تو اب جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہو گا، اور جو میری معصیت کرے گا، اسکے لئے تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہےپروردگار! میں نے اپنی ذرّیت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے، تاکہ نمازیں قائم کریںاب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ تیرے شکرگزار بندے بن جائیںپروردگار! ہم جس بات کا اعلان کرتے ہیں، یا جس کو چھپاتے ہیں، تو اس سب سے باخبر ہے اور اللہ پر زمین و آسمان میں کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی( سورۂ ابراہیم ۱۴آیت ۳۵تا۳۸)