قرآن کا اصل مقصد، اس کے احکام پر عمل
ماہِ رمضان • مجلسِ مصنّفین
البتہ اس جانب متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ قرآن کے حوالے سے ہماری اہم ترین ذمے داری یہ ہے کہ ہم اس کی تعلیمات اوراس کے احکام پر عمل کریںیعنی قرآنِ مجید ہماری زندگی کے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں ہمارا دستور ِعمل ہواور عملاً گمراہی کی تاریکیوں سے ہدایت کی روشنی کی جانب انسانیت کا رہنما ہوجیسا کہ خود قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اس اہم مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہےسورۂ یونس میں ہے کہ :
یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤُمِنِیْنَ۔
اے لوگو! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبانِ ایمان کے لئے رحمت (قرآن) آچکا ہے(سورۂ یونس۱۰۔ آیت۵۷)
لہٰذا قرآنِ مجید کو ہمارے لئے وعظ و نصیحت ہونا چاہئےیعنی اسے ہمیں غفلتوں اور لاپرواہیوں سے نکالنا چاہئے اور ہمارے کمال کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرکے، ہماری ترقی اور کمال کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔
اسی طرح اس نسخہ ٔشفا کو ہماری معنوی بیماریوں کا مداوا بھی کرنا چاہئے، اسے ہمارے دلوںکی صفائی اور پاکیزگی کا ذریعہ بھی بننا چاہئےنیز اسے کمال کی جانب ہماری ہدایت و رہنمائی کا وسیلہ اور مومنین کے لئے باعث ِرحمت ہونا چاہئے۔
پس اگر قرآنِ کریم ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں یہ بنیادی کردار ادا نہ کررہا ہو، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن ہمارے درمیان متروک اور مہجور ہےسورۂ ابراہیم کی پہلی ہی آیت میں ہے کہ:
كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ۔
یہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو خدا کے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر، نور کی طرف لے آئیں(سورۂ ابراہیم ۱۴آیت ۱)
امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ نے تاکید فرمائی ہے کہ:
اللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْقُرْاٰنِ لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔
قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل میں تم پر سبقت لے جائیں(نہج البلاغہ مکتوب ۴۷)
ہر چیز کے چار وجود ہوتے ہیں: وجودِ ذہنی، وجودِ لفظی، وجودِ تحریری اور وجودِ عینی و خارجی۔
مثلاً اگر انسان پیاسا ہو، تو کتنا ہی وہ زبان سے پانی، پانی، پانی، کہتا رہے، اس کی پیاس نہیں بجھے گیاور کتنا ہی وہ پانی، پانی لکھتا رہے، اس کی تشنگی جوں کی توں رہے گیاور کتنا ہی وہ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا خیال اپنے ذہن میں لائے، پیاسا کا پیاساہی رہے گاصرف اسی صورت میں اس کی تشنگی ختم ہوگی، اس کی پیاس بجھے گی، جب وہ واقعی پانی کی جستجو کرے اور اس کا گلاس اٹھا کر پی جائے۔
بالکل اسی طرح قرآنِ کریم کے الفاظ، تحریر اور اس کی آیات کو ذہن میں لانا نجات و کامیابی کا باعث نہیں بن سکتا، محض یہ عمل انسان کی معنوی ضروریات کی تسکین نہیں کرسکتابلکہ جو چیز باعث ِ نجات ہوگی وہ قرآن سے واقعی وابستگی ہےیعنی اپنی زندگی کو قرآنی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا، اپنے اعمال کو قرآن کے مطابق انجام دینا، زندگی کے تمام میدانوں میں قرآنی احکام و فرامین کا نفاذ کرنا۔
پہلے تین وجود (ذہنی، لفظی اورتحریری) اس وقت قابلِ قدر ہیں جب وہ قرآن سے شناسائی اور اس پر عمل کا مقدمہ ہوں۔
مثلاً ایک ویٹ لفٹر کو ذہن میں رکھئےوہ شروع شروع میں صرف بیس کلو وزن اٹھا پاتا ہےلیکن مسلسل مشق اور بار بار پریکٹس کے نتیجے میں، وہ اپنے اندر دوسو کلو تک وزن اٹھانے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے جی ہاں، عمل انسان میں اتنی قوت پیدا کر دیتا ہے۔
تاریخ میں امِ عقیل نامی ایک بادیہ نشین خاتون کا ذکر آیا ہےاس خاتون نے دل کی گہرائیوں سے اسلام قبول کیا، اور سچے ایمان کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہوئیںایک دن ان کے یہاں دو مہمان آئےمہمانوں کی خاطر تواضع کے دوران اچانک انہیں پتا چلا کہ ان کا بچہ اونٹوں کے نزدیک کھیل رہا تھا، کہ اونٹوں نے اسے کچل کر مار دیاامِ عقیل نے مہمانوں کو اس سانحے سے مطلع کئے بغیر، اس واقعے کی خبر لانے والے سے درخواست کی کہ وہ مہمانوں کی خاطر مدارت میں ان کی مدد کرےکھانا پکنے کے بعد جب مہمان اسے تناول کر چکے تب انہیں امِ عقیل کے بیٹے کی موت کا پتا چلاانہیں اس عورت کے صبر، حوصلے اور بلند ہمتی پر بڑاتعجب ہوا۔
مہمانوں کے چلے جانے کے بعد چند مسلمان امِ عقیل کے پاس تعزیت و تسلیت کی غرض سے آئےامِ عقیل نے ان سے کہا: کیا تم میں آیاتِ قرآنی جاننے والاکوئی شخص موجودہے، جو تلاوتِ قرآن کے ذریعے میرے دل کو تسلی دے؟ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا: ہاں، میں ہوںاور پھر اس نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی:
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ۔
اور آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجئے، جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں، ان (لوگوں) کے لئے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے، اوریہی ہدایت یافتہ ہیں( سورۂ بقرہ۲آیت۱۵۵تا۱۵۷)
ان مسلمانوں کو رخصت کرنے کے بعد امِ عقیل نے وضو کیا اوردست ِدعا اٹھا کے بارگاہ ِالٰہی میں عرض کیابارِ الٰہا! تو نے صبر کا جو حکم دیا تھا، میں نے اسے انجام دیا، اب تو (صبر کی جزا کے سلسلے میں) اپنا وعدہ پورا فرما۔
یوں اس خاتون نے قرآن سے سبق لیا، اور سخت ترین حالات میں اس پر عمل کیا، نتیجے کے طو رپر سکون و اطمینان کی دولت حاصل کی۔