۶اس محبت کی ضرورت اور فوائد بیان کرنا
بہترین عشق • حجت الاسلام جواد محدثی
انسان عموماً اس شخص یا ہستی کو پسند کرتا ہے اوراس سے محبت رکھتا ہے جو اس کی مشکلات حل کرے اور اسے فائدہ پہنچائےلوگوں کے باہمی تعلقات میں یہ مسئلہ انتہائی واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے۔
ہماری مسلسل زندگی جو آخرت تک جاری رہے گی اس میں ہم کہاں پھنستے ہیں اور کہاں کہاں ہمیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے؟
موت کے وقت، برزخ میں، قیامت کے دن اورپلِ صراط عبور کرتے ہوئے ہمیں شدت کے ساتھ کسی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس وقت ہم مشکل کا شکار ہوتے ہیں، ہمیں ایسے مواقع پر محبتِ اہلِ بیت ؑ کے کارآمد ہونے سے واقف ہونا چاہئےاس بارے میں بھی بہت زیادہ احادیث موجود ہیں، ان ہی میں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند مشہور احادیث درجِ ذیل ہیں:
حُبّی وحُبُّ اھلِ بیتی نافعٌ فی سَبعۃِ مَواطِنَ اَھوالُھُنَّ عظیمۃٌ:
عندَ الوفاۃِوفی القبر وعندَ النُّشورِ، وعندَ الکتابِ وعندَ الحسابِ وعندَ المیزانِ و عندالصِّراط۔
میری اور میرے اہلِ بیت کی محبت سات مقامات پر فائدہ پہنچاتی ہے، وہ سات مقامات جن کی ہولناکی اور ہراس عظیم ہےموت کے وقت، قبر میں، قبر سے اٹھائے جانے کے موقع پر، نامۂ اعمال سپرد کرتے وقت، اعمال کے حساب اور جائزے کے وقت، اعمال کا وزن کرتے وقت اور صراط عبور کرتے ہوئے(میزان الحکمۃج ۲ص ۲۳۷)
سَأل رَجُلٌ رسولَ اﷲِ عَنِ السّاعۃ، فقال: مااَعْدَدْتَ لھا؟ قال: مااعدَدْتُ لھا کبیراً، اِلّا انّی اُحِبُّ اﷲَ ورسولَہقال: فَاَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ (المرءُ مَعَ مَن اَحَبّ) قال انسٌ: فمارأیتُ المسلمینَ فَرِحُوابعدَ الأسلام بِشی ءٍ اَشَدَّ مِن فَرَحِھِم بِھذا۔
ایک شخص نے رسول اﷲ سے سوال کیا کہ قیامت کیا ہے اور کس طرح واقع ہو گی؟ آنحضرت نے اس سے پوچھا: تم نے قیامت کے لئے کیا تیار کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: کوئی خاص اہم چیز تیار نہیں کی ہے، سوائے یہ کہ خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں آنحضرت نے فرمایا: تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو (انسان اس ہستی کے ساتھ محشور ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے)
انس کہتے ہیں :میں نے نہیں دیکھا کہ مسلمان اسلام کے بعد اس کلام سے زیادہ کسی اور کلام سے خوش ہوئے ہوں
(بحارالانوارج ۱۷ص ۱۳، میزان الحکمۃج ۲ص ۲۴۲)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
مَن اَحَبَّنا کانَ مَعَنا یومَ القیامۃ، ولواَنَّ رَجُلا اَحَبَّ حَجَراً لَحَشَرَہُ اﷲُ مَعَہُ۔
جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے، وہ روزِ قیامت ہمارے ساتھ ہو گااگر کوئی ایک پتھر سے (بھی) محبت کرتا ہو گا، تو خداوند عالم اسے اس پتھر کے ساتھ محشور کرے گا(بحارالانوارج ۳۷ص ۳۳۵)
اہلِ بیت ؑ سے محبت و عقیدت رکھنے والے لوگوں کے لئے یہ ایک عظیم خوشخبری ہے کہ وہ آخرت میں بھی اہلِ بیت ؑ کے ساتھ محشور ہوں گے۔
جب محبت اس حد تک مفید اور کارآمد ہے تو آخر کیوں ہم اس دولت سے محروم رہیں؟
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
موت کے وقت جب تمہاری جان گلے میں پہنچتی ہے، اس وقت تمہیں ہماری محبت کی زیادہ ضرورت ہو گیاگر تمہارے دل میں ہماری محبت ہوئی توخوشخبری دینے والا فرشتہ آئے گا اور کہے گا کہ بالکل خوف نہ کھاؤ، تم امان میں ہو۔
(بحارالانوارج ۶ص ۱۸۷)
روایات میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کے بہت سارے آثار کا ذکر ہوا ہےخاص کر آخرت کے مرحلے میں یہ آثار و منافع درج ذیل عنوانات کے تحت جمع کئے جا سکتے ہیں: (۱)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
حبّنا اھل البیت یکفرالذنوب ویُضاعف الحسنات۔
محبتِ اہلِ بیت گناہوں کے جھڑ جانے اور نیکیوں میں اضافے کا باعث ہے۔
(ارشاد القلوبص ۲۵۳)
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
لا یحبّناعبدًحتی یطھَر اﷲُ قلبَہ۔
جس کسی نے ہم سے محبت کی خدا نے اس کے دل کو پاک و پاکیزہ کیا ہے(دعائم الاسلامج۱ص ۷۳)
آپ ؑ ہی نے فرمایا ہے:
من احبّنااھل البیت وحقّق حبَنا فی قلبہ جَرَتْ ینابیع الحکمۃ علی لسانہ۔
جس کسی نے ہم اہلِ بیت سے محبت کی اور اس محبت کو اپنے دل میں رچا بسالیا، اسکی زبان سے حکمت و دانائی کے چشمے جاری ہو کے رہیں گے(المحاسنج ۱ص ۱۳۴)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
حبّ اھل بیتی وذرّیتی استکمالُ الدّین۔
میرے اہلِ بیت اور عترت سے محبت کمالِ دین (کی باعث) ہے۔
(امالئ صدوقص ۱۶۱)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
شفاعتی لأ متی مَن احبّ اھلَ بیتی وھم شیعتی۔
میری شفاعت میری اُمت کے اُن افراد کے لئے ہے جو میرے اہلِ بیت سے محبت کرتے ہیں، اور یہی میرے شیعہ ہیں(تاریخ بغدادج ۲ص ۱۴۶)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا فرمان ہے:
اکثرکم نوراً یومَ القیامۃ اکثرکم حُبّأ لاَل محمّد۔
روزِ قیامت ان ہی لوگوں کا نور زیادہ ہوگا جو آلِ محمد سے زیادہ محبت کرتے ہوں گے(بشارۃ المصطفیٰص ۱۰۰)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے فرمایا ہے:
من احبّنا اھل البیت حشرہ اﷲ تعالیٰ اَمنأیومَ القیٰمۃ۔
جو ہم اہلِ بیت سے محبت کرتا ہے، روزِ قیامت خداوند عالم اسے (اس دن کے خوف سے) امان کے ساتھ محشور کرے گا(عیون اخبار الرضاج ۲ص ۲۲۰)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:
اَثْبَتُکم قَدَمَاً عَلی الصّراط اشدّ کم حُبّاًلأ ھل بیتی۔
پلِ صراط پر تم میں زیادہ ثابت قدم وہی ہوگا جو میرے اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرتا ہے(فضائل الشیعہص ۴۸)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
واﷲ لا یموتُ عبدیحبّ اﷲ ورسولَہ و یتولّی الأئمۃ (ع) فَتمسَّہُ النار۔
خدا کی قسم! جو بھی خدا اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور ائمہ کی پیروی کرتا ہے اُسے آتش جہنم نہیں چھو سکتی(رجالِ نجاشیج۱ص ۱۳۸)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَن احبّنا اھل البیت فی اﷲ حُشرمعناواَدْخَلْنٰاہُ مَعَناالجَنّۃ۔
جو خدا کی خاطر ہم اہلِ بیت سے محبت کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ محشور کیا جائے گا اور ہم اسے اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے(کفایۃ الاثرص ۲۹۶)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
اعلیٰ درجات الجنَۃ لِمَنْ اَحَبّنابِقلبہ ونَصرنابلسانہ ویَدہ۔
جنت کے اعلیٰ درجات اُسکے لئے ہیں جو ہم سے دلی محبت کرتا ہے اور اپنی زبان اور عمل سے ہماری مدد کرتا ہے(المحاسنج ۱ص ۲۵۱)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
مَن ارادَاَنْ ینجومِن عذابِ القبرِ فلیُحبَّ اھلَ بیتی۔۔۔ ومن اراددخولَ الجنَۃ بغیرحسابٍ فلیحبَّ اھل بیتیفواﷲِ مٰا اَحبَّھم اَحدٌ الاَ رَبِحَ الدّنیا والاَخرَۃ۔
جو شخص عذابِ قبر سے نجات چاہتا ہے، اُسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت سے محبت کرے۔۔۔ اور جو بغیر حساب کے جنت میں داخلے کا متمنی ہے اسے (بھی) چاہئے کہ میرے اہلِ بیت سے محبت کرےخدا کی قسم جس کسی نے اہلِ بیت سے محبت کی وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوا
(مقتل الحسین ؑ ازخوارزمیج۱ص ۵۹)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خداوند عالم جس کسی کو میرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنے والے اماموں کی محبت ودیعت کرتا ہے، وہ شخص دنیا اور آخرت کی خیر حاصل کرلیتا ہے اور بے شک اُس کا شمار اہلِ جنت میں ہوتا ہےاور میرے اہلِ بیت ؑ کی محبت میں بیس خصوصیات اور فوائد ہیں، دس دنیا میں اور دس آخرت میں(بحارالانوارج ۲۷ص ۷۶)
اس محبت کے آثار و برکات پیش نظر ہوں تو انسان اہلِ بیت ؑ کاشیفتہ اور عقیدت مند بن جاتا ہے اوراُس کی نظر وں میں یہ محبت ایک گرانقدر سرمائے کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔
۱یہ آثار وعناوین محمد محمدی ری شہری کی کتاب ”اھل البیت فی الکتاب والسنۃ“ سے ماخوذ ہیں۔