بہترین عشق

۳محبوبیت چاہنے سے استفادہ

بہترین عشق   •   حجت الاسلام جواد محدثی

ہر انسان چاہتا ہے کہ دوسرے اس سے محبت کریں اور اس پر توجہ دیںلوگوں کو جذب اور مائل کرنے کے لئے ان سے محبت و عقیدت کا اظہارانتہائی موثرواقع ہوتا ہےہر انسان کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ کوئی اہم، معروف اور معتبر ہستی اس سے محبت اورچاہت کا اظہارکرےاور اگر یہ اظہارِ محبت و پسندیدگی خدا، رسول ؐاور ائمۂ اطہار ؑ کی طرف سے کیا جارہا ہو، توکیا کہنے!!

اس بنیاد پر ہمیں لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا چاہئے کہ اہلِ بیت ؑ سے محبت اور ان سے ولایت رکھنے کی وجہ سے انسان خدا اور اس کے رسول کی محبت کا مستحق ہو جاتا ہےکیا کوئی نعمت اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتی ہے؟

اس بات کا اظہار کہ ائمہ ؑ اپنے محبوں سے محبت کرتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں ائمہ ؑ کی محبت پیدا کرنے کا باعث بنتا ہےاس بارے میں بکثرت روایات ہیں، ان ہی میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ :

ایک شخص امام علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
السلام علیکَ یا امیرالمؤمنین ورحمۃ اﷲوبرکاتہ، کیفَ اصبَحْتَ؟
اے امیر المومنین! آپ پر سلام (اور خدا کی رحمت و برکت) ہوآپ نے کس حال میں صبح کی؟

امام ؑ نے سر اٹھا کے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:
اصبحتُ مُحِبّاً لِمُحِبِّنا ومُبغِضاً لِمَن یُبغِضُنا
میں نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے محب سے محبت کرتا ہوں اور اس کا دشمن ہوں جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے(سفینۃالبحارج ۲ص ۱۷)

باہمی محبت اور خدااور بندے یا پیغمبر اور امت کے ایک دوسرے سے خوش ہونے کا ذکرایک سود مند عمل ہےاس بارے میں قرآنِ مجید میں بھی مثالیں پائی جاتی ہیں، جیسے :

رَّضِیَ اﷲُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہ

خدا اُن سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے
(سورۂ مائدہ ۵آیت ۱۱۹، سورۂ توبہ ۹آیت ۱۰۰، سورۂ مجادلہ ۵۸آیت ۲۲، سورۂ بینہ ۹۸آیت ۸)

فَسَوْفاَا یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗٓ

تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اسکی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی ہے(سورۂ مائدہ ۵آیت ۵۴)

یہ آیات صاحبانِ ایمان، صاحبانِ عملِ صالح، دینداراور راہِ خدا میں ثابت قدم رہنے والے افراد کے بارے میں ہیں

اسی طرح یہ سوال کرنا کہ خدا کن لوگوں سے محبت کرتا ہے؟ اوراس کا یہ جواب دینا کہ محبانِ اہلِ بیت ؑ سےاور پھر یہ نتیجہ دینا کہ اہلِ بیت ؑ سے مودت کے نتیجے میں انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے خاندانِ پیغمبر ؑ سے محبت میں اضافے کا باعث ہے

خدا کے منتخب بندوں سے محبت کرنا بھی باعثِ افتخار ہے، اور ان کا محبوب ہونا بھی فضیلت کی بات ہےہم ائمہ ؑ کے حرم میں پڑھی جانے والی زیارتِ امین اﷲ میں خدا کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ :

مُحِبَّۃً لِصَفْوَۃِ اولیاء ک، مَحبوبۃً فی أَرضِک و سماء ک

بارِالٰہا ! ہمیں اپنے برگزیدہ اولیا سے محبت کرنے والا بنا دے اور اپنی زمین اور اپنے آسمان پر محبوب قرار دے
(مفاتیح الجنان، زیارتِ امیر المومنین، زیارتِ امین اﷲ)

اہلِ بیت ؑ سے محبت، انسان کو اس گھرانے کا ہم دل و ہم ساز بنا دیتی ہے اور وہ اس خاندان کا ایک رکن بن جاتا ہےجیساکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلمانِ فارسیؓ کو اپنے خاندان کا ایک فرد قرار دیا اور فرمایا کہ: سلمانُ مِنّااھلَ البیت (سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہےمناقب ابن شہر آشوبج ۱ص ۸۵)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی جملہ حضرت ابوذر غفاریؓ کے بارے میں بھی فرمایا ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فضیل بن یسار (رجال کشیج ۲ص ۴۷۳ اور ۳۸۱) اور یونس بن یعقوب (ایضاًص ۶۸۵) کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ ہم اہلِ بیت ؑ میں سے ہیں

کسی انسان کا خاندانِ پیغمبر میں شمار کیا جانا اسکے لئے ایک عظیم نعمت ہےمحبتِ اہلِ بیت ؑ وہ اعزا زہے جس کے ذریعے ان کا محب یہ امتیاز حاصل کرتا ہےاس سلسلے میں درجِ ذیل دو احادیث پر توجہ فرمایئے، جن میں سے ایک محبت کو اور دوسری تقویٰ اور عملِ صالح کو گروہِ اہلِ بیت کی رکنیت کاذریعہ قرار دیتی ہے

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاہے:

مَنْ اَحَبَّنا فھومِنّااَھل البیتِ

جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے وہ ہم اہلِ بیت میں سے ہے
(تفسیر عیاشیج ۲ص ۲۳۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مَنِ اتّقیٰ مِنکم وَاَصْلَحَ فھومنّا اھلَ البیت

تم میں سے جو کوئی تقویٰ اختیار کرے، اور صلاح و اصلاح کے لئے کوشاں ہو، وہ ہم اہلِ بیت میں سے ہے(ایضاً)

اِس نکتے کی جانب توجہ اہمیت کی حامل ہے کہ تقویٰ اور نیکوکاری کے بغیرصرف محبتِ ہلِ بیت ؑ کام نہیں آئے گی اور حقیقی محبت انسان کواپنے محبوب کا ہمدم وہم ساز اور ہمرنگ بنا دیتی ہے