۱۲اہلِ بیت ؑ کے فضائل اور اُن کی تعلیمات کا ذکر
بہترین عشق • حجت الاسلام جواد محدثی
لوگ آئیڈیل پرست اور عظیم شخصیات کے دلدادہ ہوتے ہیںلہٰذا مغرب میں اپنی قومی اور علمی شخصیات کے بارے میں کتابیں اور مقالے تحریر کئے جاتے ہیں، اُن کے بارے میں فلمیں اور اُن کے مجسمے بنائے جاتے ہیں اوراُن کے حوالے سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، تاکہ اِن شخصیات کو ایک آئیڈیل اور ہیرو کے طورپر اپنی قوم کے قلب وذہن میں جگہ دی جائے۔
لہٰذا اپنے بزرگانِ دین کے بارے میں ہم بھی ایساہی کیوں نہ کریں، جو انتہائی صاحبِ فضیلت اور ایسی تکریم کے بہت زیادہ حقدار ہیں؟ اگر لوگ ائمۂ اہلِ بیت ؑ کی شخصیت، اُن کے فضائل، اُن کے افکار اور اُن کی تعلیمات سے واقف ہوں اور اُن کے اعلیٰ پائے کے کلمات و فرمودات سے آشنا ہوں، تو ان کے دلوں میں اُن کی محبت پیدا ہو گی اور یہ محبت وعقیدت اُن کی پیروی اور اُن کے ساتھ یکجہتی کا باعث بنے گیامام رضا علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ :
اِنّ الناسَ لوعَلِمُوامَحاسِنَ کلامِنالَا تّبعُونا۔
اگرلوگ ہمارے کلام کی خوبیوں سے آشنا ہوں گے، تو ہماری پیروی کریں گے۔
اہلِ بیت ؑ کی احادیث کی ترویج اور حفظِ حدیث کے مقابلوں کا انعقاد اس سلسلے میں انتہائی مفید اقدام ہو گابعض ناشرانِ کتب کی جانب سے مختلف موضوعات پر ”چہل حدیث“ کے عنوان سے شائع کی گئی کتب اس مقصد کے لئے تجویز کی جاتی ہیں اِن چہل حدیث یا اسی طرح اور احادیث کو حفظ کرنے کا پروگرام بھی اس حوالے سے مفید ہے۔
بچوں اور جوانوں سے گفتگو کے لئے مفاہیم اور موضوعات کا انتخاب انتہائی اہمیت کا حامل ہےائمہ ؑ کی احادیث میں بہت سے نکات اور معارف موجود ہیں لیکن یہ سب کے سب ایسے نہیں ہوتے جوہر کس و ناکس کے سامنے بیان کئے جاسکیںکیونکہ کبھی کبھی یہ سننے والوں کے لئے قابلِ ہضم نہیں ہوتے، بجائے کشش رکھنے کے دفع رکھتے ہیں، اہلِ بیت ؑ کے مکتب کی جانب رغبت کا سبب بننے کی بجائے ا س سے دوری کا باعث ہوجاتے ہیں اور اذہان کوصاف کرنے کی بجائے ان میں شبہ پیدا کرتے ہیںلہٰذاان کے انتخاب کے لئے بھی ذوق اور عقل و خرد کی ضرورت ہے اور ماحول اور سننے والوں کی صلاحیت کو مد نظر رکھنا ضرورییہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے جن کا نام ”مُدرِک بن ہزہاز“ تھا، فرمایا: اے مُدرِک! ہمارے دوستوں کو ہماراسلام پہنچانا اوران سے کہنا کہ اس شخص پر خدا کی رحمت ہو جو لوگوں کے دلوں کو ہماری جانب مائل کرے، ہمارے وہ کلمات انہیں سنائے جنہیں وہ جانتے اورقبول کرتے ہیں اور جن کلمات کا وہ انکار کرتے اورجو ان کے لئے ناقابلِ قبول ہوں، انہیں ان کے سامنے بیان نہ کرے(۱)
کوشش ہونی چاہئے کہ جوان اور نو جوان اہلِ بیت ؑ کے کلام کی مٹھاس محسوس کریں اور ان کے حکیمانہ کلمات کی گہرائیوں کو سمجھیں، تاکہ ان فرامین کے ذریعے ان کے دلوں میں ان شخصیات سے محبت اور عقیدت پیدا ہواس حوالے سے قابلِ فہم کلمات، ان کا خوبصورت اور دلنشیں ترجمہ، مفید موضوعات کا انتخاب اور خوبصورت اور جاذب نظر طباعت موثرثابت ہوتی ہے۔
افرادِ معاشرہ، جوانوں اور انسانیت تک اہلِ بیت ؑ کی تعلیمات کس طرح پہنچائی جائیں؟ یہ ایک قابلِ غور سوال ہے اور اس سلسلے میں فن وہنر سے استفادہ کیا جانا چاہئے اور نئی نسل کے سامنے ائمہ ؑ کی تعلیمات پیش کرنے کے لئے جدید طریقوں، فنکارانہ کشش اور موثر اسلوب سے کام لینا چاہئےاس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہےافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم (اس جانب متوجہ ہی نہیں، بلکہ) اکثر ان تقاضوں کے برخلاف عمل کرتے ہیں۔
اہلِ بیت ؑ کے فضائل کودو پہلوؤں سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
۱ان کے بلند درجات، ان کی خلقت، ان کی طینت، ان کی عالی سرشت اور ان کے نورِ الٰہی ہونے وغیرہ کے پہلو سے
اہلِ بیت ؑ کے فضائل کی یہ قسم، اگرچہ قابلِ قدر ہے اور خدا کے یہاں اُن کے مقام و منزلت کو واضح کرتی ہے لیکن کیونکہ عملی پہلو کی حامل نہیں اور اس میں تاسی کاعنصر نہیں پایا جاتا، اسلئے بہت کم تربیتی اثر اور عملی کشش کی حامل ہے اور بعض اوقات نوجوانوں کے لئے ناقابلِ فہم اور ناقابلِ ہضم ہوجاتی ہے۔
۲اسوۂ عمل بنائے جانے کے قابل اور اہلِ بیت ؑ کے کردار کی عملی پیروی کے پہلوؤں سے، نوجوانوں اور جوانوں کو سیرتِ معصومین ؑ اور ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے آگاہ کرنا انتہائی ضروری اور مفید ہےاس مقصد کے لئے تاریخ سے آگہی سود مند ثابت ہوتی ہے اور اندازِ تحریر کے پرکشش ہونے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ائمہ ؑ کے صبر، ایثار، انکساری، عبادت، شجاعت، اخلاص، جوانمردی، حلم، علم، حسنِ خلق، عفو ودر گزر، سخاوت و فیاضی، ان کی نماز اور روزے کی کیفیت، ان کی تہجد گزاری اور حج اور اسکے مناسک کے دوران ان کی کیفیت کا تذکرہ انتہائی سود مند ہےبالخصوص اہلِ بیت ؑ کے ایسے قصوں کا بیان جن میں وہ نوجوانوں کے ساتھ انتہائی احترام آمیز طرزِ عمل اختیار کرتے نظر آتے ہیں انتہائی متاثر کن ہوتا ہےمثلاً پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچوں سے حسنِ سلوک اور انہیں سلام کرنا، یا مومنین کے بچوں کوگود میں لے کر اُن کے بوسے لینا، یا مثلاً امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کا ایک بوڑھے کو وضو سکھانا وغیرہ۔۔۔
اہلِ بیت ؑ کے بچوں کا تعارف اور ان کا پرکشش طرزِ عمل ہمارے بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اپنے ہی ہم عمر بچوں کا یہ کردار ان میں ان کی جانب اور زیادہ کشش پیدا کرتا ہے۔
نوجوانوں کے دلوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کابیج بو کر، عمدہ اخلاقی مثالوں اور سیرتِ اہل بیت ؑ کے ذریعے اس بیج کی آبیاری کرنی چاہئے تاکہ وہ خشک نہ ہو جائے بلکہ پھلے پھولے اوراس سے مزید پھل حاصل ہوںیہ عمل محبت کو مزید گہراکرتا ہےمعتبر اور بنیادی کتب میں اس سلسلے میں جو باتیں نقل ہوئی ہیں انہیں سامنے لانا چاہئے تاکہ ہماری آج کی نوجوان نسل بھی ان ذخائرسے مستفیض ہوسکے۔
ائمۂ معصومین ؑ اور اہلِ بیت ؑ کے بارے میں خوبصورت، رواں اور عام فہم اشعار کا انتخاب اور اِن اشعار کو دلنشین اور شیریں انداز میں پڑھنا ان ہستیوں سے محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہےاس انتخاب میں معلومات اور ذوقِ لطیف انتہائی اہم کردارادا کرتے ہیں اس مسئلے میں بھی دوسرے ثقافتی اور تعلیمی پروگراموں کی طرح بچوں کے سن و سال اور ان کی تعلیمی سطح کی خاص نفسیات اور مزاج جیسے نکات پر توجہ ضروری ہے۔
۱رَحِم اﷲُ امرء اًاِجَتَرَّ مودَّۃ الناس اِلینا، فَحدَّثَھم بما یَعرِفُون وتَرَکَ مایُنکرون (بحارالانوارج ۲ص ۶۸)