بہترین عشق

۲آبِ فرات اور خاک شفا سے تعلق

بہترین عشق   •   حجت الاسلام جواد محدثی

اہلِ بیت ؑ سے تعلق رکھنے والی اشیا اور علامات سے استفادہ ان سے محبت اور دوستی کے رشتے کو مضبوط کرتا ہے ”عاشورا“ اس گھرانے سے رشتۂ عقیدت کی برقراری کا نمایاں ترین مظہر ہے ”شہادت“ اور ”تشنگی“ عاشورا کے دو اہم ترین مظہر ہیں ”آبِ فرات“ امام حسینؑ اور ان کے انصار واقربا کی تشنگی اور حضرت عباس ؑ کی وفا یاد دلاتا ہےجبکہ خاکِ شفا ”ثار اﷲ“ کے خون سے گندھی ہوئی مٹی ہےاوران دونوں میں عاشورا کی ثقافت اور حبِ اہلِ بیت ؑ پائی جاتی ہے۔

شیعہ تعلیمات میں جن مذہبی رسوم کو اہمیت دی گئی ہے، اُن میں سے ایک رسم ولادت کے موقع پربچے کو آبِ فرات اور خاکِ شفا چٹانا ہے۔

یہ عمل بچوں کی ولادت کے وقت ہی سے اہلِ بیتِ رسول ؑ اور عاشورا سے ان کا رشتہ جوڑنے کا باعث بنتا ہےاسی طرح یہ عمل یہ رشتہ جوڑنے اور یہ تعلق قائم کرنے کے لئے ان بچوں کے والدین کے لگاؤ کی علامت بھی ہےیہ آب اورخاک قدرتی طور پر بچے کی سرشت و طینت اور اسکی عادات و اطوار پر اثرمرتب کرتی ہےبہت سی احادیث کے مطابق، خداوند عالم نے حسین ابن علی ؑ کی قبرمطہر کی خاک میں شفا اور علاج کی خاصیت رکھی ہے (وسائل الشیعہج ۳ص ۴۱۱، بحار الانوارج ۹۸ص ۱۱۸) اس خاک اور اس پانی میں محبت ایجاد کرنے کا اثر بھی رکھا گیا ہے۔

پس اپنے بچوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ ایجاد کرنے کے عملی طریقوں میں سے ایک طریقہ اس رسم پر عمل کرنا ہےروایات میں بھی اسکی جانب متوجہ کیا گیا ہےامام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:

حَنّکوااولادَکم بماء الفراتِ۔

اپنے نومولود کا دَہَن آبِ فرات سے تر کرو  (بحار الانوارج ۹۷ص ۲۳۰)

امام جعفر صادق علیہ السلام ہی نے سلیمان بن ہارون بجلی سے فرمایا:

ما اَظُنُّ احداً یُحَنِّکُ بماء الفراتِ الاَّ احبَّنٰا اھلَ البیت۔

میں نہیں سمجھتا کہ کسی نے آبِ فرات سے اپنے نومولود کا دَہَن تر کیا ہو اور وہ (بچہ) ہم اہلِ بیت کا محب نہ ہو  (بحارالانوارج ۹۷ص ۲۲۸، ۲۳۰)

امام جعفر صادقؑ نہرِ فرات کو جنت کی ایک نہر قرار دیتے تھے، جو خدا پر ایمان لائی ہے اور ایک روز اس میں جنت سے ایک قطرہ آ کر گرا تھانیز آپ ؑ نے فرمایاہے:

مَن شَرِبَ مِن ماء الفراتِ وَحنَّکَ بہ فھومحبّنااَھْلَ البیت۔

جو کوئی آبِ فرات نوش کرے یا اس سے بچے کے دَہَن کو تر کرے، تو یقیناًوہ ہمارے خاندان کا محب ہو گا(بحارالانوارج ۹۷ص ۲۲۸، ۲۳۰)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اِنَّ اھلَ الکوفۃِ لَوْحَنَّکوااولادَ ھم بماء الفراتِ لکانواشیعۃً لنا۔

اگر اہلِ کوفہ نے اپنے بچوں کے دَہَن کو آبِ فرات سے تر کیا ہوتا، تو وہ ہمارے شیعہ ہو جاتے(ایضاًج ۶۳ص ۴۴۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مااحدٌ یَشربُ من ماء الفراتِ وَ یُحنِّکُ بہ اذااولَدَ الّااَحبَّنٰا، لِأنَّ الفراتَ نھرٌمؤمِنٌ۔

کوئی ایسا نہیں جس نے آبِ فرات پیا ہو، یا اپنے بچے کے دَہَن کو آبِ فرات سے تر کیا ہو اور وہ ہمارا محب نہ ہوا ہوکیونکہ فرات مومن نہر ہے  (ایضاًج ۱۰۱ص ۱۱۴)

امام ؑ نے بچوں کی ولادت کے موقع پر ان کو خاکِ شفا چٹانے کی بابت حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:

حَنِّکوااولادَ کم بِتُربۃِ الحسینِ، فانّھااَمانٌ۔

اپنے بچوں کو خاکِ شفا چٹاؤ کیونکہ یہ ان کے حفظ و امان کا باعث ہے
(وسائل الشیعہج ۱۰ص ۴۱۰بحارالانوارج ۹۸ص ۱۲۴ اور ۱۳۶)

البتہ روایات میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ خاکِ شفا سے علاج کی غرض سے یہ استفادہ اس وقت سود مند ثابت ہو گا جب انسان اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ خداوند عالم نے خاکِ شفا میں یہ منفعت اور خیر کا پہلورکھا ہے(بحارالانوارج ۹۸ص۱۲۳)

پانی یا شربت میں خاکِ شفا کو حل کر کے علاج کی غرض سے اسے پینے یا دوسروں کو پلانے کی یہ رسم، ائمہؑ کے زمانے میں بھی رائج تھی (ایضاًص ۱۲۱) اور آج بھی مکتبِ اہل بیتؑ کے ماننے والوں میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔