بہترین عشق

۷محبتِ اہلِ بیت ؑ کی اہمیت کاا ظہارکرنا

بہترین عشق   •   حجت الاسلام جواد محدثی

جب کسی عمل کی جانب ترغیب دلائی جاتی ہے، یا اسے انجام دینے پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اسے ایک مثال اور نمونے کے بطور پیش کیا جاتا ہے، تو دوسروں میں بھی اس عمل کی جانب جذب اور کشش پیدا ہو تی ہےوہ افراد جو معاشرے میں اعلیٰ اقدار کو فروغ دیتے ہیں، فن و ثقافت کے میدانوں کے ذمے دار ہیں، مقابلوں کا انعقاد اور مختلف کارہائے نمایاں پر اعزازات سے لوگوں کو نوازتے ہیں، اگر یہ سب کے سب افراد چاہیں تومحبتِ اہلِ بیت ؑ کو معاشرے میں ایک قابلِ قدر شئے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے
جب ائمہؑ کے بارے میں شعر کہنے، اُن کے حوالے سے کوئی قصہ لکھنے، یا اُن کے بارے میں کوئی کتاب پڑھنے کی وجہ سے کسی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اُسے انعام واعزاز سے نوازا جاتا ہے، تو یہ عمل اُس میں ائمہؑ سے محبت کا باعث بھی ہوتا ہے اور اس تعلق کی بنا پر اُس میں احساسِ عزت و سربلندی بھی پیدا ہوتا ہےکیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ انعام مجھے اس تعلق کی وجہ سے ملا ہےاس طرح یہ معاملہ اُس کے ذہن میں ایک خوبصورت یادکے طور پر باقی رہتا ہے جو جذبۂ محبت پیدا کرنے میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔

لوگوں کو جس چیز کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے اور انہیں جس چیز کے احترام کی تلقین کی جاتی ہے وہ اُسی چیز سے محبت اور عقیدت رکھنے لگتے ہیں اور جس چیز کی جانب سے وہ بے توجہی اور بے اعتنائی کا رویہ دیکھتے ہیں اس سے بے تعلقی اور بے رُخی برتنے لگتے ہیں اس حوالے سے خاص طور پر دوسروں کی موجودگی میں رغبت اور شوق دلانا زیادہ موثر رہتا ہےالبتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ رغبت اور شوق دلانا ”رشوت دینے“ کی سی صورت پیدا نہ کر لے۔

معاشرے میں جس چیز کو اہمیت دی جاتی ہے، لوگ اس کی جانب مائل ہونے لگتے ہیں، اور اُس چیزکے طرفدار فخر و ناز کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیںمثلاً جب جوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کن موضوعات پر شعر پڑھتے ہیں، تو ان کی اکثریت کہتی ہے کہ عشق، بہار، دوستی، زندگی، گل و بلبل وغیرہ کے بارے میںاور جب نوجوانوں اور جوانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ کونسی کتابیں پڑھتے ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں کہ: رومان، سائنس اور ناول وغیرہ۔۔۔

یعنی بہت مشکل سے ایسے جوان ملتے ہیں جو یہ کہیں کہ ہم خدا، نماز اور ائمہؑ کے بارے میں شعر پڑھتے ہیں، یا اہلِ بیت ؑ اور دین سے متعلق کتب پڑھتے ہیںکیونکہ انہیں اس بارے میں شوق ہی نہیں دلایا گیا ہوتا، وہ ان موضوعات کی جانب رغبت ہی نہیں رکھتے اور ان چیزوں کا مطالعہ اُن کے لئے فخر و نازکا باعث ہی نہیں ہوتا۔

ہمیں چاہئے کہ ایسا ماحول پیدا کریں کہ اگر کوئی شخص اہلِ بیت ؑ کے بارے میں شعر کہے، یا ان کے بارے میں اشعار حفظ کرے، ان کی کوئی حدیث یا د کرے، ان کے بارے میں کوئی کتاب پڑھے، ان کے حوالے سے کوئی قصہ تحریر کرے، کوئی فلم بنائے، کوئی نعرہ تخلیق کرے، یا حتیٰ اس کا نام کسی امام کے نام پر ہو، یا وہ اپنے بچے کانام ائمۂ اہلِ بیت ؑ میں سے کسی کے نام پر رکھے، تو وہ اپنے اس عمل پرفخر ونازمحسوس کرےاسے ایک فضیلت کی بات سمجھے اور اسے ایک گراں قیمت چیز تصور کرےمحبتِ اہلِ بیت ؑ خدا کی خاص نعمت ہے، جو اسکے اہل دلوں ہی میں جگہ بناتی ہےبقول امام رضا علیہ السلام :

یَھدِی اﷲُ لِولایتنامَنْ اَحَبَّ۔

خدا جس کسی کو پسند کرتا ہے، ہماری محبت کی جانب اس کی رہنمائی کردیتا ہے(بحارالانوارج ۱۶ص ۳۵۶)

عام طور پرجب کسی بچّے کو محمد، علی، فاطمہ، مہدی، حسن اور حسین جیسے نام ہونے کی وجہ سے ان معصومین ؑ سے منسوب کسی مناسبت پر انعام حاصل ہوتا ہے، تو یہ عمل اس بچّے کے دل میں ان ناموں اور ان شخصیات سے محبت پیدا کرتا ہے اور دوسروں میں بھی یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ کاش ان کا بھی یہ نام ہوتا اور انہیں بھی انعام ملتا۔

اس نکتے پر اس قدر احتیاط کے ساتھ عمل ہونا چاہئے کہ لوگوں کے دلوں میںیہ نام رکھنے کا شوق پیدا ہو، ایسانہ ہو کہ یہ نام نہ ہونے کی بنا پر ان میں کوئی بدگمانی، کمپلکس اور احساسِ حقارت پیدا ہو جائے اور کوئی منفی اثر مرتب ہواہلِ بیت ؑ سے محبت کا تعارف ایسی پیاری اور قیمتی شئے کے طور پرکرانا چاہئے کہ یہ محبت رکھنے والا اس پرفخر کرے، اسے معمولی نہ سمجھےامام جعفر صادق علیہ السلام نے تلقین فرمائی ہے کہ:

لا تستصغِرْ مودَتنا، فانّھامِن الباقیات الصالحات۔

ہم سے محبت اور چاہت کو معمولی نہ سمجھوکیونکہ یہ باقیاتِ صالحات میں سے ہے(بحارالانوارج ۲۳ص ۲۵۰)

جب کبھی ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹیلی ویژن اخبارات کے ذریعے کسی قابلِ تقلید شخصیت کا تعارف کرایا جاتا ہے (خواہ وہ شخصیت کوئی قارئ قرآن ہو، سائنس دان ہو، شاعر ہو، مصور ہویا کوئی کھلاڑی) تویہ سامعین، ناظرین، قارئین کو متاثر کرتاہے اور لوگ اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیںجس خصوصیت کی وجہ سے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، وہ خصوصیت لوگوں کی نظر میں بھی اہمیت اختیار کرلیتی ہےایک حافظِ قرآن کی حوصلہ افزائی لوگوں میں قرائتِ قرآن اور حفظِ قرآن کا شوق پیدا کرتی ہے، کسی سائنسی مقابلے میں کامیاب ہونے والے طالبِ علم کے اعزاز میں تقریب سائنس کی جانب نوجوانوں کے رجحان میں اضافے کا باعث ہوتی ہے اورایک فنکار کی حوصلہ افزائی فن کی جانب لوگوں کی رغبت اور رجحان کو بڑھاتی ہے۔

وہ ممتاز افراد، نامورعلمی و ادبی شخصیات جن کا ذکر بچوں کی نصابی کتب میں ہوتا ہے، بچے اُن سے محبت کرنے لگتے ہیںلہٰذا اس قسم کے افراد کا انتخاب کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہئےلوگوں میں کسی محبِ اہلِ بیت ؑ اور انقلابی شاعر کو متعارف کرانا اسے ایک قابلِ تقلید شخصیت کے طورپر پیش کرنے کی مانند ہے اوریہ انسان میں مذہب اور اہلِ بیت ؑ کی جانب رجحان پیدا کر دیتا ہےامام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

یا مَعشرَالشیعۃ!۔۔۔ عَلِّموااَولادَکُم شِعْرَالعَبدیٖ فَاِنَّہُ عَلیٰ دینِ اﷲ۔

اے گروہِ شیعہ ! اپنے بچوں کو عبدی کے شعر سکھاؤ کیونکہ وہ خدا کے دین پر ہے(الغدیرج ۲ص ۲۹۵)

امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ تلقین کہ شیعہ اپنے بچوں کو عبدی کے اشعار یاد کرائیں عبدی کوفی (۱) کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز اور اُس کی شخصیت کی عظمت کا اظہار ہےعبدی نے اپنے اشعار میں بھرپور انداز سے فضائلِ اہلِ بیت ؑ بیان کئے ہیں
۱ان کا نام سفیان بن مصعب تھاان کا شمار ممتاز شیعہ شعرا میں ہوتا تھااوروہ اہلِ بیت ؑ کی عنایات اور توجہات کا مرکز تھےانہوں نے اہلِ بیت کی مدح اور ان کے مصائب کے بارے میں شعر کہے ہیںیہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور میں ہوا کرتے تھے۔

سید حمیری جومخلص شیعہ شعرا میں شمار کئے جاتے ہیں، کہا کرتے تھے کہ جو کوئی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور اہلِ بیت علیہم السلام کی فضیلت کے بارے میں کوئی ایسی حدیث بتائے، جسے میں نے اپنے کسی شعر میں بیان نہ کیا ہو، میں اسے اپنا یہ گھوڑا بخش دوں گا !!!

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے والدِ گرامی حضرت ابو طالب علیہ السلام کا شمار موحدین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھنے والے افراد میں ہوتا ہے، انہوں نے آنحضرتؐ کی توصیف میں اشعار کہے تھےبیان کیا گیا ہے کہ حضرت علی ؑ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ حضرت ابوطالب ؑ کے اشعار کو نقل کیا جائے، انہیں جمع کیا جائےآپ ؑ فرماتے تھے کہ: انہیں یادکرو اور اپنے بچوں کو بھی سکھاؤکیونکہ ابوطالب ؑ خدا کے دین پر تھے اور ان کے اشعار میں بہت سا علم و دانش ہے۔

کانَ امیرُالمؤمنین (ع) یُعجِبُہ اَن یُرویٰ شعرُابی طالبٍ وَأنْ یُدَوَّنَ وقال: وَتَعَلّموہ اولادَ کُم، فانّہ کانَ علیٰ دینِ اﷲ وفیہ علمٌکثیرٌ(مستدرک وسائل الشیعہج ۲ص ۶۲۵)

ابو الا سود دوئلی کی بیٹی نے جب یہ محسوس کیا کہ خلیفۂ وقت نے اس کے گھر شہد اسلئے بھیجا ہے تاکہ ان کے دلوں سے محبتِ اہلِ بیت ؑ کم کر سکے، تو اس نے منھ میں لیا ہوا شہد تھوک دیا اور شہدکھا کر آلِ علی ؑ کی محبت سے محروم ہونا پسند نہ کیا۔

والدین، اساتذہ اور تربیتی امور کے نگراں حضرات، ان مسائل میں بہت عمدہ طریقے سے رہنمائی کر سکتے ہیں اور نوجوانوں کے رجحانات اور قابلِ تقلید شخصیات کے بارے میں ان کے رُخ کا تعین کر سکتے ہیںحتیٰ اگر ایک بے دین لڑکا یا لڑکی اپنا نام مہدی یا فاطمہ ہونے پر انعام حاصل کرے، تو یہ انعام پانے پر حاصل ہونے والی خوشی بھی اس میں ان ہستیوں سے محبت پیدا کرے گیاگر دینی ایام، یااہلِ بیت ؑ کی ولادت سے مخصوص دنوں میں اس قسم کے انعامات دیئے جائیں، تو یہ عمل ان ہستیوں کی جانب بچوں اور جوانوں کو متوجہ کرنے میں موثر واقع ہو گاشفاعت سے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ روزِ قیامت حضرت فاطمہ زہرا ؑ شیعوں کی شفاعت کریں گی اور جن لوگوں کی شفاعت کی جائے گی، جب وہ خدا سے اپنی منزلت اور مقام کے بارے میں سوال کریں گے، تو ان سے کہا جائے گا کہ: واپس جاؤ اور جس کسی نے فاطمہ کی محبت میں تم سے محبت کی ہے یا تمہیں کھانا دیاہے، لباس فراہم کیاہے، یا پانی پلایاہے، یا تمہاری عزت و آبرو کی حفاظت کی ہے، اس کا ہاتھ پکڑکر اسے بہشت میں داخل کر دو (بحارالانوارج ۸ص ۵۲)

یہ اس محبت کی قدر و قیمت اور روزِ قیامت اس کی تاثیر کی ایک علامت ہے۔