بہترین عشق

۱۰طالبِ کمال ہونے کی حس سے استفادہ

بہترین عشق   •   حجت الاسلام جواد محدثی

لوگ کمال اور جمال کی جانب رغبت رکھتے ہیں انسانوں کا بالخصوص نوجوانی اور جوانی کے دور میں طالبِ کمال ہونااس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ عظیم انسانوں اور علم، قدرت اور شہرت کے حامل آئیڈیل افراد کی جانب مائل ہوتے ہیںلوگوں میں عظیم شخصیات کی جانب رغبت کا احساس پایا جاتا ہے اور وہ ان سے عشق و محبت کا اظہار کرکے اپنی اس حس کی تسکین کرتے ہیں اوراگر ایسے آئیڈیل اور عظیم ہستیاں ان کے اردگرد موجود نہ ہوں، تو حتیٰ وہ انہیں اپنے تصورات میں تراشتے ہیںحصولِ کمال کے لئے ہیروز اور عظیم ہستیوں کی جانب رغبت کا نظریہ خاص طور پر نوجوانوں اور جوانوں کے درمیان ایک زندہ حقیقت ہےانسان، بالخصوص نوجوانی کے دنوں میں ہمیشہ ہیروز کی تلاش میں ہوتا ہے اور اگر کوئی ہیرو اس کی دسترس میں نہ ہو، تو حتیٰ خیال اور خواب کے عالم میں بھی بہت سے پہلوؤں سے اسے اپنے طرزِ عمل کے لئے نمونہ اور ماڈل بنا لیتا ہے اور اپنے خاص تصور کی بنیاد پر ہیرو سے، اُس کے انداز سے، اُس کی گفتار سے، اُس کے لباس سے، اُس کی وضع قطع سے، الغرض اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیزسے اثر قبول کرتا ہے۔

نوجوان اپنے طرزِ عمل میں اپنے آئیڈیلز کی نقل کرتے ہیں آئیڈیلزاور ہیروز زمین کے خدا ہوتے ہیں انسان ان میں بھی کمال، طاقت اور آسمانی جمال تلاش کرتا ہے یا ان چیزوں کو ان سے منسوب کرتا ہےخود اپنے ہاتھوں سے ایک بت بناتا ہے، اس سے خدائی صفات منسوب کرتا ہے اور پھر اپنے اس خود ساختہ معبود کی پرستش کرتا ہے۔

اب جبکہ ایسا ہے، تو یہ ہیروز اور آئیڈیلز جتنے عظیم الشان، کمال کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے اور بے عیب ہوں گے، اتنے ہی وسیع حلقے کے لئے پُر کشش ہوں گے اور اسی قدران سے کی جانے والی محبت اوران کی جانب کشش تعمیری ہو گیلہٰذا انسانوں میں عظیم شخصیات کی جانب پائی جانے والی اس رغبت سے استفادہ کرنا چاہئے اور اہلِ بیت ؑ کے ذریعے اس خلا کو پر کرنا چاہئےاہلِ بیت ؑ جسمانی طاقت، روحانی توانائی، معجزات وکرامات، خدا پر توکل، علمِ لدنی اور فضیلت و کمال کے حامل ہونے میں تمام انسانوں سے برتر ہیںوہ خدا کے کمال و جمال کا مظہر ہیں ان کی شجاعت و بہادری، ان کے فضائل، ان کے کردار، ان کے معجزات و کرامات، ان کے لوگوں کو شفا بخشنے، لوگوں کی مشکلات دور کرنے، خدا کے نزدیک ان کے مقامِ شفاعت اور ان سے توسل کرنے والوں کی دعاؤں کی قبولیت کا تذکرہ ان سے محبت و عقیدت پیدا کرنے میں موثر ہے۔

واعظین اورذاکرین، جو ایامِ عزا میں واقعاتِ کربلابیان کرتے ہیں اور اہلِ بیت ؑ کے مصائب اور مظلومیت کا ذکر کر کے ان کی جانب دلوں کو مائل اور متوجہ کرتے ہیں، اگر ان کے مصائب کے ساتھ ساتھ شہدائے کربلا (کے عظیم کردار، ان کے مقصد کی بلندی، اس مقصد سے ان کی وابستگی اور ان) کی دلیری اور جوانمردی کا تذکرہ بھی کریں، تو ان ہستیوں کی محبوبیت میں اور اضافہ ہو جائے۔

کبھی کبھی خود سامعین مقررین سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ امام حسین ؑ، حضرت عباس ؑ اور حضرت علی اکبر ؑ کی شجاعت اور رزم آوری کا تذکرہ کریںیہ اس بات کی علامت ہے کہ ان آئیڈیل شخصیات کے کردار کے ولولہ انگیز پہلو مخاطب کے ذہن میں ان ہستیوں کے کمال اور جامعیت کی تصویر کشی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ عقیدت میں اضافہ کرتے ہیں۔

البتہ بچوں اور نوجوانوں کے سامنے ایسے ہی معجزات اور کرامات بیان کرنی چاہئیں جو ان کے لئے قابلِ فہم اور قابلِ ہضم ہوں۔

اگر جوان اور بچے ایسے انسانوں سے عقیدت رکھتے ہوں، اُن سے اظہارِ محبت کرتے ہوں جو علمی، فنی اور ادبی صلاحیتوں کے حامل ہوں، جسمانی قدرت، شجاعت و بہادری، اعلیٰ کردار، خوبصورتی، سخاوت اور جوانمردی میں بلند سطح کے حامل ہوں، تو انہیں بتانا چاہئے کہ اہلِ بیت ؑ علم ودانش، زہدوعبادت، قدرت وطاقت، فصاحت و بلاغت، سخاوت وفیاضی، صورت و سیرت، عبادت و عرفان، جمال و زیبائی، مردانگی وشجاعت، عفوودرگزر، بخشش و احسان، صبر و ثبات کے لحاظ سے تمام انسانوں سے بلند اور بالاتر ہیں۔

آئیڈیلز کے طور پران کا تعارف دلوں میں ان کی محبت پیدا کرتا ہے
بتایئے وہ کونسا امتیاز، خصلت اورپرکشش اور محبت انگیز فضیلت ہے جو انتہائی اعلیٰ پیمانے اور بالاترین درجے پر اہلِ بیتِ عصمت ؑ میں نہ پائی جاتی ہو؟

امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث میں اہلِ بیت ؑ کے مکتب اور ان کے مذہب کی توصیف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:

مِنْ دینِھمُ الوَرَعُ والعِفَّۃُ والصِّدقُ والصَّلاحُ والأ جتھادُ واداءُ الاَمانۃ اِلَی البَرِّ وَالفاجِرِ وطولُ السّجودِ والقیامُ باللّیلِ واجتنابُ المَحارِمِ وحُسْنُ الصُّحبَۃِ وَحُسنُ الجَوارِوَبَذْلُ المعروفِ وکفُّ الأذیٰ وَبَسْطُ الوَجْہِ والنّصیحۃُ والرحمۃُ لِلمؤمِنین۔

”پرہیز گاری، پاک دامنی، راست گوئی، شائستگی، جہد وکاوش، اچھے بُرے (ہر شخص) سے امانتداری، طولانی سجود، شب بیداری، حرام سے پرہیز، عمدہ معاشرت، ہمسایوں سے حسنِ سلوک، اچھی بخشش، (دوسروں کو) اذیت و آزارپہنچانے سے اجتناب، خنداں پیشانی، خیر خواہی اور مومنین کے لئے رحمت ائمہ کا دین ہے(تحف العقولص ۴۱۶)

زیارتِ جامعہ میں ائمہ ؑ کے ممتاز اوصاف اور اعلیٰ فضائل کا ذکر آیا ہےان ہی میں سے ہے کہ: جب بھی نیکیوں کا تذکرہ ہو، تو آپ ہی سے ان نیکیوں کی ابتدا بھی، اصل بھی، فرع بھی (آپ ہی ان کے) مخزن بھی مرکز بھی اور انتہا بھیاِن ذُکرالخیرکنتم اولہ واصلہ وفرعہ ومعدنہ وماواہ ومنتھاہ۔

اہلِ بیتِ عصمت و طہارت ؑ، انسانوں میں سب سے زیادہ محبوب اور دوستوں میں بہترین دوست ہیں، جو تمام اخلاقی اور عملی خوبیوں کے حوالے سے بے مثل جامعیت کے حامل ہیں اور جو خوبیاں اچھے لوگوں میں علیحدہ علیحدہ پائی جاتی ہیں وہ اہلِ بیت ؑ میں یکجا ملتی ہیں اوریہ عشق کرنے اور محبوب بنانے کے لئے بہترین انسان ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے کہ: ثلاثۃ تورِثُ المحبّۃ: الدّینُ والتواضُعُ والبَذلُ (تین چیزیں محبت کا باعث ہوتی ہیںدین، انکساری اور سخاوتبحارالانوارج۷۵ص ۲۲۹)

ائمۂ شیعہ اور اہلِ بیتِ رسول دین کا محور ومدار بھی ہیں، اپنے بلند مقام و مرتبے کے باوجود فروتنی و انکساری میں بھی سب سے بڑھ کر ہیں اور سخاوت و دریادلی میں بھی اپنے زمانے کے تمام لوگوں میں سرِ فہرستائمہ ؑ کے بلند اخلاق کا ذکر اور ان کی انکساری اورفیاضی کا تذکرہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت کو اور بڑھاتا ہے۔

ایک دن معاویہ نے حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کی محب وعقیدتمند ایک نڈر خاتون ”دارمیّہ حجونی“ کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ: میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے بتاؤ کہ آخر تم کس وجہ اورکس بنیادپر علی سے محبت اور مجھ سے دشمنی رکھتی ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں علی ؑ سے اس لئے محبت کرتی ہوں اور ان کی ولایت کا دم بھرتی ہوں کہ وہ لوگوں کے ساتھ عدل سے پیش آتے تھے، حقوق کو مساوی تقسیم کرتے تھے، پیغمبر نے ولایت کے لئے ان کا انتخاب کیا تھا، وہ محروم (و مظلوم) لوگوں کو دوست رکھتے تھے، دینداروں کی عزت کیا کرتے تھےاورعلی کے حق بجانب ہونے کے باوجود تمہارے اُن کے خلاف لڑنے، تمہارے ظلم و ستم، من مانے اندازمیں حکومت کرنے اور ظالمانہ فیصلوں کی وجہ سے تم سے دشمنی رکھتی ہوں(بحارالانوارج ۳۳ص ۲۶۰)

امام علی ؑ کے اخلاق اور ان کے کردار نے اس نڈر خاتون کو علی ؑ کا محب، عقیدت مند اور ہمنوا بنایاجی ہاں، فضائل و کمالات ہمیشہ پر کشش ہوا کرتے ہیں۔