۱۵روحانی اور معنوی ماحول پیدا کرنا
بہترین عشق • حجت الاسلام جواد محدثی
بچوں اور جوانوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرنے کاایک طریقہ، ایسا ماحول اور فضاایجاد کرنا ہے جس میں بچے خاص روحانی حالت محسوس کرنے لگیں اور بتدریج ان کی روحانی حس بیدار ہو اور وہ اس طرف جذب ہو جائیںکیونکہ اگر بچوں (حتیٰ بڑوں کو بھی) ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اس طرف مائل نہیں ہوتے اور دعا اور توسل کی محفلوں میں شرکت سے گریز کرتے ہیںلیکن اگر ہم ان کے لئے اس فضا میں قدم رکھنے کا اہتمام کریں، تو وہ اس جانب مائل ہو جائیں گےمثلاً تعلیمی و تربیتی کیمپس کا انعقاد، زیارتی دوروں کا اہتمام، دینی مجالس، دعااور توسل کی محفلوں میں شرکت اوردینی شخصیات سے ملاقاتیں اس رشتے اور تعلق کو پیدا کرنے یااسے تقویت پہنچانے والی چیزیں ہیں۔
سال کے مختلف حصوں، بالخصوص تعطیلات کے دنوں میں جن سیاحتی اور زیارتی کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے، اور طلبا کومثلاً قم، شیراز، مشہد، جمکران، مرقدِ امام خمینیؒ اور اسی طرح کے دوسرے مقامات پر لے جایا جاتا ہے، تو انہیں صرف ان عمارتوں اور در و دیوار کا تماشائی نہیں بنانا چاہئے بلکہ اس دیدار کے ساتھ ساتھ انہیں فکری اور روحانی غذا بھی فراہم کی جانی چاہئےوہ وہاں سے کچھ باتیں سیکھیں، کچھ سبق لیں اور اس گھرانے کے ساتھ عشق اور عقیدت کا رشتہ قائم کریںاگر ممکن ہو تواس قسم کے سفر اور کیمپس میں متاثر کن شخصیات سے ملاقاتیں بھی شامل ہونی چاہئیں۔
روح پرور محفلوں میں شرکت بھی اسی قسم کی چیز ہےجس طرح ہر اجتماع کا اثر ہوتا ہے اور وہاں موجود افراد کے جذبات و احساسات اور وہاں کی فضا ان اجتماعات میں شریک ہونے والوں پر اثر انداز ہوتی ہے، بالکل اسی طرح محبانِ اہلِ بیت ؑ کے اجتما ع میں شرکت بھی یہ حس اور حالت ایجاد کرتی ہے۔
مجالسِ عزا اور دعائیہ اجتماعات میں شرکت انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہےمجالسِ عزااور نوحہ خوانی میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کے مرکز پر جذبات جوش میں آتے ہیں، دل گداز ہوتے ہیں، آنکھوں سے اشک جاری ہوتے ہیں اور گریہ و زاری لوگوں کو خاندانِ پیغمبر ؐسے جوڑتی ہے اور ان سے ان کا تعلق قائم کرتی ہے۔
مجالسِ عزا میں گریہ و زاری دلوں اور جذبات کو لطیف بھی بناتی ہے اورانہیں تقویت بھی پہنچاتی ہےعام حالت یا انفرادی طور ممکن ہے نہ دل غم و اندوہ سے بھرے، نہ آنسو آنکھوں سے بہیں اورنہ روح میں حرکت وانقلاب پیدا ہولیکن جذباتی اور روحانی فضا کے اثرات وہاں موجود افراد کی انفرادی اور اجتماعی حس کو ہم آواز کردیتے ہیں اور دل کے دروازوں کو کھولتے ہیں۔
اس قسم کی مجالس اگر گھروں، اسکولوں اور محلّوں میں منعقد ہوں اور نوجوان ان کے انعقاد اور ان کے انتظامات میں شریک ہوں، تواس طرح بھی ان کے اندر محبتِ اہلِ بیت ؑ میں اضافہ ہو گا۔
زیارت بھی ایسی ہی چیز ہےجس طرح ایک اعلیٰ صفات، پاک و پاکیزہ انسان سے بالمشافہ ملاقات اس سے ملنے والے لوگوں پر اثر ڈالتی ہے، اسی طرح معصومین ؑ کی تربت اور ان کے مقدس مزارات پر حاضری بھی روح کی پاکیزگی کا ذریعہ ہےاگر محبت اور معرفت ہو، تو ”زیارت کاشوق“ اس کا نتیجہ ہےاور اگر زیارت پر جائیں، تو خود زیارت محبت پیدا کرتی ہے اور زیارت اور محبت ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیںمحبت کا نتیجہ زیارت ہے اور زیارت محبت پیدا کرتی ہےمادّی اورجسمانی قربت، روحانی قرابت کا باعث بھی بنتی ہےاور اس کے برعکس اس قسم کے مراکز سے دوری اور گریز روح کو بھی بیگانہ، نا آشنا اور گریزاں بناتا ہےکبھی کبھی حرم اور مزارِ مقدس پر نگاہ پڑتے ہی دل میں محبت امڈ پڑتی ہےپس حرم اور نگاہ کی اس ملاقات سے غفلت نہیں برتنی چاہئے۔
زیارت میں انسان اولیا اﷲ کو سلام کرتا ہےاگر زائر اس بات سے باخبر ہو کہ پیغمبرؐ یا امام ؑ یا حرم میں مدفون اہلِ بیت ؑ زائر کو دیکھتے ہیں، اُسے پہچانتے ہیں اور اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں، تو یہ بات بھی ان ہستیوں کے لئے محبت پیدا کرتی ہےاہم بات یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو یہ بات سمجھائی جائے، اُن کے سامنے ان نکات کی وضاحت کی جائے۔
فضول، لا ابالی اور غیر ذمے دار افراد کے ساتھ میل جول انسان کی روح میں بھی ایسی ہی صفات پیدا کردیتا ہےاس کے برعکس معنویت رکھنے والے حضرات، مقدس مراکز اور دینی مراسم میں شرکت انسان کے اندر معنویت کی بنیاد کو مضبوط کرتی ہے۔
اگر ہمیں بعض لوگ ان چیزوں سے گریزاں نظر آتے ہیں، تو شاید اس کی وجہ ان کی فرومائیگی، احساسِ بیگانگی یا ان کے دل میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کی تڑپ نہ پایا جانا ہواور اگر وہ اس محبت کا ذائقہ چکھیں، تو ممکن ہے اس کے مشتاق ہو جائیںبالکل ان لوگوں کی طرح جو ایک مزیدار کھانا اس لئے نہیں کھاتے کہ انہوں نے تاحال اس کا ذائقہ چکھا ہی نہیں ہوتا لیکن جوں ہی وہ اس کھانے کا ایک لقمہ چکھتے ہیں اور انہیں اس کی لذت پتا چلتی ہے، تو پھران کا ہاتھ ہی نہیں رُکتااہلِ بیت ؑ کے ساتھ تعلق کے سلسلے میں بچوں کے لئے معنوی فضا تیار کرنا اسی طرح کی چیز ہےماحول اپنا بھرپور اثر ڈالتا ہے، خواہ ایک گھر یا اسکول کا ماحول ہو، خواہ ایک ملک اور معاشرے کالہٰذا کیا حرج ہے اگر ہم ان کیلئے توفیقِ اجباری پیدا کریں جو جذبِ اختیاری کا باعث بن جائے۔
کبھی کبھی ایک گنبد، حرم، یا مسجد پر نظر پڑنا انسان میں اس کے لئے کشش پیدا کر دیتا ہےکیا ہم نہیں سمجھتے کہ مسجدوں اورامام بارگاہوں میں عوام کے لئے پھلوں کے درخت وقف کر نااور لوگوں کے لئے ان کے پھلوں سے مفت استفادے کا بندوبست اس تاثیر کا حامل ہوگا؟ یا یہ کہ قدیم زمانے میں بعض مساجد کے احاطے وسیع رکھے جاتے تھے، جنہیں لوگ راہ گزر کے طور پر استعمال کرتے تھے اورکبھی کبھی اسی راہ گزرپر چلتے ہوئے اور نگاہ پڑنے سے لوگ مسجد کی روحانی اور معنوی فضا میں جذب ہو جاتے تھے۔
حتیٰ کسی فلم یا ڈرامے میں ایک مقدس شخصیت، اہلِ بیت ؑ کے کسی فرد، یا ان سے وابستگی رکھنے والی کسی شخصیت کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے انسان میں خود بخود ان سے محبت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ کردار ادا کرنے والا فنکار ان ہستیوں سے محبت کرنے لگتاہےاہلِ بیت ؑ کے بارے میں روحانی اور معنوی فضاپیدا کرنے کایہ بھی ایک طریقہ ہے۔