بہترین عشق

۱بچپنے سے پہلے کا دور

بہترین عشق   •   حجت الاسلام جواد محدثی

و ہ عوامل جو ایک انسان کی شخصیت کی تشکیل میں موثر ہوتے ہیں، اُن کا آغاز اسکول میں اس کے داخل ہونے اورمعاشرے میں اس کے قدم رکھنے سے بہت پہلے ہو چکا ہوتا ہےان عوامل کا تعلق بچے کی خوراک، ماں کے دودھ، والدین کی شخصیت، ایامِ حمل کے حالات اور نطفے کے قرار پانے وغیرہ جیسے مسائل سے ہوتا ہےہاں، اس سلسلے میں وراثت کا پہلو بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔

اہلِ دانش، سنجیدہ اورمہذب انسان ایک پاک، شریف، با ایمان، صالح اورکامیاب نسل وجود میں لانے کی خاطرمذکورہ نکات اور باریکیوں کوبھی پیش نظر رکھتے ہیں۔

ہم بہت سے بزرگانِ دین اور شہدائے اسلام کی سوانح حیات میں پڑھتے ہیں، یاہم ان کے متعلق سنتے ہیں کہ ان کی مائیں انہیں با وضو ہو کر دودھ پلاتی تھیںجن دنوں یہ افراد اپنی ماؤں کے شکم میں ہوتے تھے، یا وہ انہیں دودھ پلاتی تھیں، اُن دنوں میں وہ اپنے روحانی حالات، غذاؤں، تقریبات میں شرکت اور مطالعے کے لئے کتب کے انتخاب کی جانب خاص دھیان رکھتی تھیںاس دوران ماؤں کا یہ احتیاط اور دھیان بچوں کی شخصیت اور ان کی عادات و اطوار پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ایامِ حمل اور دودھ پلاتے وقت ماں کونسی آوازیں (ترانوں یا تلاوتِ قرآن، یا نوحوں اور قصیدوں کے کیسٹ) سنتی ہے، کونسی تصاویر اور فلمیں دیکھتی ہے، کیسی تقریبات میں شرکت کرتی ہے، کن لوگوں سے میل جول رکھتی ہے، یہ سب باتیں بچے کی روحانی اور معنوی شخصیت کی تشکیل پراثر انداز ہوتی ہیںبعض مائیں امام حسین علیہ السلام کے دسترخوان، مجالس کے حصوں اور نذر و نیازمیں دیئے گئے کھانو ں کو تبرک کی نیت سے استعمال کرتی ہیںیہ عقیدے اور ایمان بچے میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔

خداوند عالم سے صالح فرزند کی دعا کرنا، ولادت کے وقت اس کے کان میں اذان و اقامت کہنا، اس کے لئے اچھانام منتخب کرنا، (اس بات کے پیش نظر کہ دایہ کا اخلاق بچے میں منتقل ہوتا ہے) اسے دودھ پلانے کے لئے پاک سیرت دایہ کا انتخاب کرنا، بچے کو دریائے فرات کاپانی اور خاکِ شفا چٹانا، اسے قرآنی آیات اور احادیثِ معصومین ؑ یاد کرانا، اسے نماز روزے کی تلقین کرنا اورایسے ہی دوسرے اسلامی آداب و رسوم کا خیال رکھنا، اس بات کی علامت ہے کہ یہ اموربچوں کی عادات و اطوار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:

میں نے خدا سے خوبصورت اور خوش قامت بچے طلب نہیں کئے، بلکہ میں نے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایسے فرزند عطا فرما جو خدا کے اطاعت گزار اور اس سے خوف کھانے والے ہوں تاکہ جب بھی میں انہیں اطاعتِ الٰہی میں مشغول دیکھوں تو میری آنکھوں کو ٹھنڈک ملے
(بحار الانوارج ۱۰۱ص ۹۸)

امام زین العابدینؑ نے بھی بچوں کے لئے اپنی مخصوص دعا میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ تردینی، روحانی اور اخلاقی خوبیاں اور تقویٰ، بصیرت، اطاعتِ الٰہی، اولیا اﷲ سے محبت اور دشمنانِ خدا سے دشمنی جیسی خصوصیات طلب کی ہیں۔

وَاجعلھم اَبراراً اَتْقیاءَ بُصَراءَ سامعینَ مُطیعینَ لک
وَلِاَ ولیا ئک مُحبّینَ مُناصِحینَ و لجمیعِ اَعْداءِ ک مُعٰاندینَ و مُبغِضینَ۔

اور انہیں نیکو کار، پرہیز گار، روشن دل، حق بات سننے والا، اپنا مطیع و فرمانبردار، اپنے دوستوں کا دوست اور خیر خواہ اور اپنے تمام دشمنوں کا دشمن اوربد خواہ قرار دے(صحیفۂ سجادیہدعا نمبر ۲۵)

پس بچپنے کا زمانہ بچوں کی دینی تربیت اور اُن میں خدا اور اُس کے محبوب بندوں سے انس و الفت پیدا کرنے کا دور ہے اور اُن میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرنا بھی اس دینی تربیت کا حصہ ہےہمارا مجالسِ عزائے حسین ؑ میں شرکت کرنا اور وہاں ابا عبداﷲ الحسین ؑ کے سوگ میں اشک بہانا، ائمہؑ اور اہلِ بیت ؑ کے اقوال و احادیث سننا، ہمارے اُن بچوں پر گہرے اثرات مرتب کرتاہے جو ہماری آغوش میں ہوتے ہیں یا شکمِ مادر میں پرورش پا رہے ہوتے ہیںمحبتِ اہلِ بیت ؑ کی جڑیں بچپنے اور شیر خوارگی کے زمانے ہی سے مضبوط ہونے لگتی ہیں اور جوانی اور بزرگسالی میں اس سے کلیاں، پھول اور پھل ظاہر ہونے لگتے ہیں اس نتیجے کا حصول بچوں کی شیر خوارگی اور نوزائیدگی کے زمانے ہی سے اس جانب والدین کی توجہ اوران کے طرزِ عمل سے تعلق رکھتا ہےلہٰذا ہمیں معاشرے میں قدم رکھنے والے اپنے بچوں اور جوانوں کی دینی تربیت اور اُن میں خدا کے محبوب بندوں سے محبت و الفت کی نشو ونماکی اہمیت اور ضرورت کی جانب متوجہ رہنا چاہئے۔

ہمارے پاس اپنے بچوں اور جوانوں کو محب آلِ محمد ؑ اور دوستدارِ اہلِ بیت ؑ بنا نے کے مختلف طریقے موجود ہیں ان میں سے کچھ طریقے ذہنی اور نظری (theoretical) پہلو کے حامل ہیںیعنی ایسے موضوعات پر گفتگو کرناجن کے نتیجے میں خاندانِ پیغمبر ؑ کی جانب کشش اور میلان پیدا ہواس حوالے سے نمایاں طریقوں میں ان ہستیوں کے فضائل و مناقب، بارگاہِ الٰہی میں ان کے بلند مقام، ان اولیائے الٰہی کی سیرت و سوانح کا بیان اور حتیٰ ان کی شکل وصورت اور ظاہری اوصاف کا تذکرہ شامل ہےانبیاؑ اور ائمہؑ سے منسوب تصاویر کے ذریعے بھی بعض لوگوں میں اُن سے محبت و عقیدت پیدا ہوتی ہے۔

دوسرا پہلو عملی طریقوں پر مشتمل ہےیعنی ایسے پروگراموں کا انعقاد اور مفید نکات پر توجہ جن کے نتیجے میں بچوں اور جوانوں کے دلوں میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا ہویہ کام والدین، اساتذہ، تربیتی امور کے ذمے دار علما و دانشور اور نسلِ جواں کے پسندیدہ افراد اچھے طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

اب ہم ان میں سے کچھ راستے اور طریقے پیش کرتے ہیں