۱۱ولئ نعمت کا تعارف
بہترین عشق • حجت الاسلام جواد محدثی
جو کوئی ہم پر احسان کرتا ہے یا ہمارے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہے، ہمارے اندر اس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے (الانسان عبیدالأحسان)
اُن احسانات کا تذکرہ، اُن نیکیوں کا ذکر اور اُن نعمات و فوائد کا بیان جو ائمہ ؑ کی طرف سے ہمیں پہنچتے ہیں اُن سے محبت پیدا کرتا ہےیہ ہستیاں فیضِ الٰہی کا واسطہ ہیں، بارگاہِ الٰہی میں ہماری دعاؤں کی قبولیت کا وسیلہ ہیں، ہماری ہادی و رہنما اور دینی پیشوا ہیں ان ہی کے وسیلے سے ہم خالص توحید، راہِ راست اور صراطِ مستقیم پر ہیںیہی ہمارے ولئ نعمت اور محسن ہیں (بِیُمنِہ رُزِقَ الوریٰ) نعمت کی جانب متوجہ ہونا، اس کی طرف توجہ دلانا اور نعمت عطا کرنے والے کو جاننا اُس سے محبت پیدا کرتا ہے۔
خداوند عالم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ: مجھ سے محبت کرو اور لوگوں میں بھی میری محبت پیدا کروحضرت موسیٰ نے سوال کیا: بارِ الٰہا! میں خود تو تجھ سے محبت کرتا ہوں، لوگوں کے دل میں (تجھ سے محبت) کیسے پیدا کروں؟ خداوند عالم نے وحی فرمائی: انہیں میری نعمتیں یاد دلاؤ (فَذَکِّرْ ھُمِ نِعمتی وآلائی) (بحارالانوارج ۱۳ص ۳۵۱، ج ۶۷ص ۲۲)
بہت سی آیاتِ قرآنی اور احادیثِ معصومین ؑ میں انسانوں کو عطا کی گئی خدا کی نعمتوں اوراُن پر اس کے احسانات کا ذکر کیا گیا ہےیہ تذکرہ انسان میں خدا سے محبت اور اُس کی عبادت و پرستش کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ خدا نے حضرت داؤد علیہ السلام کو ایسی ہی وحی کیحضرت داؤد ؑ نے عرض کیا: میں خود تو تجھ سے محبت کرتا ہوںفَکَیفَ اُحَبِّبُکَ اِلیٰ خلقِک؟ (لوگوں کوتیرا محب کیسے بناؤں؟ ) خدا نے فرمایا: اُذکُرْاَیادِیَّ عِندَھُم فاِنّک اِذاذَکَرْتَ ذلک لَھُمْ اَحَبُّونیٖ (میری نعمتیں یاد دلا کے مجھے ان کا محبوب بناؤمیزان الحکمۃج ۲ص ۲۲۹، نقل از بحارالانوارج ۱۴ص ۳۸)
گھروں میں بھی کبھی کبھی بچوں میں خاندان کے کسی فرد سے محبت پیدا کرنے کے لئے اُس سے کہتے ہیں کہ: یہ وہی ہیں جنہوں نے تمہاے لئے فلاں چیز خریدی تھی، تمہیں فلاں جگہ گھمانے لے گئے تھے۔۔۔ وغیرہ وغیرہان کے دیئے گئے انعامات اور ان کے حسن سلوک کا تذکرہ بچوں میں اُن سے محبت اور انسیت پیدا کر دیتا ہے۔
ائمہ ؑ بھی ہمارے اوپر بہت سے حق رکھتے ہیں، اور ہمارے پاس جو کچھ ہے، بالخصوص معنوی اور دینی تعلیمات و عنایات اسی خاندان کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اور یہ ہستیاں بندوں پر خدا کے فیض کا واسطہ ہیں ان باتوں کا ذکر کیا جانا چاہئے تاکہ اس کے ذریعے اہلِ بیت ؑ سے محبت پیداہوزیارتِ جامعہ میں عالمِ تکوین میں ائمہ ؑ کے رحمت آفریں کردار کے بارے میں ہے کہ :
بِکُم فَتَحَ اﷲُ وبِکُمْ یَخْتِمُ وبِکُم یُنزِّلُ الغَیثَ وبِکُم یُمسِکُ السّماءَ اَن تَقَعَ عَلَی الأرضِ الّا بأذنہ۔
خدا نے آپ ہی سے کائنات کاآغاز کیا اور آپ ہی پرا ختتام کرے گاآپ ہی کے طفیل بارش برستی ہے اور آپ ہی کی وجہ سے آسمان اورزمین اپنی جگہ پر قائم ہیں۔
ہدایت و رہنمائی اور دین کی تعلیم و تشریح کے سلسلے میں ائمہ ؑ کے کردار کے بارے میں اس زیارت میں ہے کہ :
بِمُوالا تِکم عَلَّمَنَااﷲُ مَعالِمَ دینِناوَاَصْلَحَ ماکانَ فَسدَمِنْ دُنیانا وبِمُوالاتِکم تَمَّتِ الکلمۃُ وعَظُمَتِ النِّعمۃُ وَأتَلَفتِ الفُرْقَہُ و بمُوالاتِکُمْ تُقْبَلُ الطّاعَۃُ الْمُفْتَرَضَۃٌ۔
آپ کی ولایت ہی کے طفیل میں خدا سے میں نے دین کی روشن تعلیمات حاصل کیں اور میرے دنیا کے بگڑے ہوئے امور کی اصلاح ہوئیآپ ہی کی ولایت سے کلمہ مکمل ہوا، نعمت کو عظمت ملی اور اختلاف و انتشار الفت ومحبت میں بدلاآپ کی ولایت ہی کے تصدق میں بارگاہِ الٰہی میں واجب اطاعتیں قبول ہوتی ہیں۔
اہلِ بیت ہمارے معلمِ دین، مرشدِ ہدایت اور رہنمائے حیات ہیںہمیں توحید اور اسلام انہی کے ذریعے ملا ہے اور اس سلسلے میں ہم ان کے مقروض ہیںہمیں اس نعمت اور احسان پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس گھرانے سے محبت کرنی چاہئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اہلِ بیت ؑ کے بارے میں فرمایاہے :
لَولاھُم ماعُرِفَ اﷲُ عزّوجلّ۔
اگر وہ نہ ہوتے، تو خدا وند عالم کی شناخت نہ ہوتی۔
امام خمینی علیہ الرحمہ نے زور دے کر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ: ہمارا دین، ہمارا انقلاب، ہماری کامیابی اور ہماری قوم سب کے سب اباعبداﷲ الحسین ؑ اور عاشورا کے مقروض ہیں۔
امام خمینیؒ کے ایسے جملے کہ: یہ سید الشہداء کا لہو ہے جو تمام مسلمان اقوام کے لہو کو جوش میں لاتا ہے، محرم اور صفر نے اسلام کو محفوظ رکھا ہے، سید الشہداء کی جانثاری نے ہمارے لئے اسلام کو باقی رکھا ہے، اگر سید الشہداء کا قیام نہ ہوتا تو آج ہم بھی کامیابی حاصل نہ کر پاتے، سید الشہداء کی شہادت نے مکتب کو زندہ کیا، ایران کا اسلامی انقلاب عاشورااور عظیم الٰہی انقلاب کا ایک پرتو ہےان تمام جملوں کا مقصد قوم کو اہلِ بیت ؑ کی معنوی عنایات کی جانب متوجہ کرناہےاور یہ اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان احسانات کا ممنون اور مقروض سمجھتے ہیں اور ہمارے دلوں میں اولیائے دین کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ولایت و محبت کی نعمت عظیم ترین نعمتوں میں شمار ہوتی ہےنعمتوں کو یاد دلاتے اور ان کا تذکرہ کرتے وقت صرف مادّی نعمتوں کے ذکرپر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ معنوی نعمتوں کا ذکر بھی ہونا چاہئے جن میں سے بیشتر ہمیں سر کی آنکھوں سے نظر نہیں آتیں اورہم اُن سے غافل رہتے ہیں اس طرح ان نعمتوں کی قدر و قیمت بھی پتا چلے گی۔
ہمارا اس گھرانے کی معرفت رکھنا اور ہمارے دلوں کا ان کی محبت سے معمورہونا خود ایک عظیم بے مثل نعمت ہےخود ائمہؑ نے بھی مختلف مواقع پراپنے دوستوں کو اس معنوی نعمت کی عظمت اور قدر و قیمت کی جانب متوجہ کیا ہے اور اسے ایک عظیم ترین دولت قرار دیا ہے۔