بہترین عشق

دین میں محبت کا مقام

بہترین عشق   •   حجت الاسلام جواد محدثی

اگرچہ طاقت اور قوت سے کام لے کر ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس مقصد کے لئے محبت اور عشق سے استفادہ اور دل میں جاذبہ اور کشش پیدا کرنا ایک زیادہ موثر عامل ہے، جو زیادہ دیر پا محرکات پیدا کرتا ہےروایات میں بھی آیا ہے کہ: الحُبُّ افضَلُ مِنَ الخوف (محبت خوف سے بہتر ہےبحار الانوارج ۷۵ص ۲۲۶)  

اہلِ بیت ؑ سے ہمارے تعلق کی بنیاد کیا ہے اور اس تعلق کو کس بنیاد پر قائم ہونا چاہئے؟
کیا یہ حاکم ومحکوم اور حکمراں ور عیت کا سا تعلق ہے؟
یا استاد اور شاگرد کے درمیان قائم تعلیم و تعلم کے تعلق کی مانند ہے؟
یا یہ تعلق محبت و مودت اور قلبی اور باطنی رشتہ ہے؟ جو کارآمد بھی ہوتا ہے، دیرپا بھی اور گہرا بھی۔

قرآنِ کریم اس تعلق کی تاکید کرتا ہے اور مودتِ اہلِ بیت ؑ کو اجرِ رسالت قرار دیتا ہے:

قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغِ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا، سوائے اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کروسورۂ شوریٰ ۴۲آیت ۲۳

متعدد روایات میں ”مودۃ فی القربیٰ“ کی تفسیر کرتے ہوئے اسے اہلِ بیت ؑ اور خاندانِ رسول ؑ سے محبت و الفت قرار دیا گیا ہےافضل ترین محبت بھی وہی محبت ہے جس کی تاکید خداوند عالم کرتا ہے اور جو لوگ یہ محبت رکھتے ہیں اُنہیں بھی محبوب رکھتا ہے۔

 روایات میں مودت اور ولایت کو خدا کی طرف سے عائد کیا جانے والا ایک فریضہ اور اعمال و عبادات کی قبولیت کا پیمانہ قرار دیا گیا ہے (۱)

اپنی احادیث کی رو سے اہلِ سنت بھی اس نکتے کو قبول کرتے ہیں امام شافعی کاشعر ہے کہ:

یا اھلَ بیتِ رسولِ اﷲ حُبُّکُمُ
فرضٌ من اﷲ فی القرآنِ اَنزَلہُ

کَفاکُمُ مِن عظیم القدراَنّکُمُ
مَن لم یُصَلِّ علیکمْ لاصَلاۃ لہ

اے خاندانِ رسول اﷲ! آپ کی محبت وہ الٰہی فریضہ ہے جس کا ذکر اس نے قرآن میں کیا ہےآپ کے عظیم افتخار کے لئے یہی کافی ہے کہ جو بھی (نماز میں) آپ پر درود نہ بھیجے اسکی نماز درست نہیں(الغدیرج ۲ص ۳۰۳)

کیونکہ اس باطنی تعلق کے نتیجے میں محبانِ اہلِ بیت ؑ گمراہیوں اور لغزشوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں اوریہ دین کے اصل اور خالص سر چشمے کی جانب امت کی رہنمائی کا ذریعہ بھی ہے، اسلئے رسولِ کریم ؐنے فرمایا ہے کہ لوگوں میں اہلِ بیت ؑ کی محبت کو فروغ دو اور اس محبت کی بنیاد پر ان کی تربیت کرو:

اَدِّبُوااَولادَکُمْ عَلیٰ حُبّی وَحبِّ اہل بیتی وَالقرآنِ۔

اپنے بچوں کی تربیت میری، میرے خاندان کی اور قرآن کی محبت پر کرو(احقاق الحقج ۱۸ص ۴۹۸)

۱پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے: لوانّ عبداًجاء یوم القیامۃِبعمل سبعینَ نبیّاً ما قَبِلَ اﷲ ذلک منہ حتی یلقاہُ بولا یتی وولایۃِ اھل بیتی(کشف الغمہج ۲ص ۱۰)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے:

رَحِمَ اﷲُ عبداً حبَّبَنا اِلَی النّاس وَلَم یُبَغَّضْنااِلَیھم

خدا اس شخص پر رحمت کرے جولوگوں میں ہمیں محبوب بنائے، ان کی نظر میں ہمیں مبغوض اورمنفور نہ بنائے(بحار الانوارج ۷۵ص ۳۴۸)

نیز آپ ؑ ہی نے شیعوں پر زور دیا ہے کہ:

اَحِبّونااِلیَ النّاس وَلا تُبَغِّضونااِلَیھِم، جُرُّوااِلَیْنا کُلَّ مَوَدَّۃٍ وَادفَعُواعنّا کُلَّ قبیحٍ

لوگوں کی نظر میں ہمیں محبوب بناؤ، ان کی نظر میں ہمیں منفور (قابلِ نفرت) نہ بناؤہر مودت اور الفت کو ہماری طرف کھینچو اور ہر برائی کو ہم سے دور کرو(بشارۃ المصطفیٰص ۲۲۲)

جس قدر محبت اور قلبی تعلق زیادہ ہو گا اتنی ہی پیروی، ہم آہنگی، ہمراہی اور ہمدلی زیادہ ہو جائے گیہمفکری، ہمراہی اور یکجہتی کے سلسلے میں عشق اور محبت عظیم اثرات مرتب کرتے ہیںلوگ جن ہستیوں سے محبت کرتے ہیں اُنہی کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں۔

اپنے قائد و رہنماسے جذباتی عقیدت سیاسی اور اجتماعی میدانوں میں اسکی اطاعت پر اثر انداز ہوتی ہے اور صرف رسماً اور تنظیمی ضوابط کی پابندی کے لئے ہی نہیں بلکہ عشق وعقیدت کی بنیاد پر پیروی کا باعث بنتی ہے۔

لہٰذا اہلِ بیت ؑ کے ساتھ شیعہ کا تعلق دینی مصادر (قرآن و حدیث) کی بنیاد پر صرف اعتقادی پہلوکا حامل ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ جذباتی، معنوی اور احساسی بھی ہونا چاہئےہمیں چاہئے کہ فکر وشعور کوجذبات واحساسات کے ساتھ مخلوط کریں اور عقل اورعشق کو ایک دوسرے سے جوڑ دیںبالکل اسی طرح جیسے دورانِ تعلیم ہوتا ہے کہ اگر استاد کا اپنے شاگرد سے تعلق علمی سے زیادہ جذباتی اور محبت و مودت کی بنیاد پر قائم ہو، توشاگرد شوق کے ساتھ علم حاصل کرتا ہے۔

ائمہ ؑ کے ساتھ محبت کے تعلق میں بھی دراصل ہونا یہ چاہئے کہ دل پر اُن کی حکمرانی ہواس صورت میں معرفت، عشق اور اطاعت کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم ہو جاتا ہےمعرفت، محبت پیدا کرتی ہے اور محبت ولایت واتباع کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

پیغمبر اسلام کی ایک حدیث میں ان تین عناصر اور انسان کی سعادت و کامیابی میں ان کے کردار کی جانب اشارہ کیا گیا ہے:

مَعْرِفَۃُ آلِ محمّّدٍ بَراءَۃٌ مِنَ النّاروَحُبُّ آلِ محمّدٍ جَوازٌ عَلَی الصِّراطِ وَالولایۃُ لآل محمّدٍ امانٌ من العذاب۔

آلِ محمد کی معرفت دوزخ سے برائت اور نجات کا پروانہ ہےآلِ محمد کی محبت پلِ صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ (passport) ہے اور آلِ محمد کی ولایت عذاب سے امان ہے(ینابیع المودۃج ۱ص ۸۷)

اس رابطے کی تصویر کشی اس طرح کی جا سکتی ہے کہ:

معرفت  →  محبت  →  اطاعت

امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ:

الحُبُّ فرعُ المَعرفۃ

محبت معرفت کی شاخ ہے(بحار الانوارج ۶۸ص ۲۲)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مطالعے سے بھی پتاچلتا ہے کہ جو کوئی معرفت اور شناخت کی بنیاد پر آپ کی رفاقت اور صحبت اختیار کرتا تھا اُس کے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو جاتی تھی(بحار الانوارج ۱۶ص ۱۹۰) یہ بات محبت ایجاد کرنے کے سلسلے میں معرفت کے اثر کی نشاندہی کرتی ہے۔

عشق و محبت پیدا کرنے کے لئے سادہ مراحل سے آغاز کرنا چاہئے اور بعد کے مراحل میں مزید بصیرت اور زیادہ معرفت کے ذریعے اسے گہرا کرنا چاہئےیہاں تک کہ

”حب“ انسانی سرشت کا حصہ بن جائے اور ”محبتِ اہلِ بیت“ ایک مسلمان اور شیعہ کے دین کا جزہو جائے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

ھل الدّینُ الاّ الحُبّ

کیا دین محبت کے سوا کچھ اور ہے(میزان الحکمۃج ۲ص ۲۱۵)

امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اَلدّینُ ھوالحُبُّ وَالحُبُّ ھُوالدّین۔

دین ہی محبت ہے اور محبت ہی دین ہے(بحارالانوارج ۶۶ص ۲۳۸)

واضح ہے کہ سچی محبت عمل اور پیروی کا باعث بنتی ہے اور نافرمانی اورمخالفت سے باز رکھتی ہے (۱) یہ محبت پیدا کرنے کے لئے لوگوں کی نفسیاتی حالت اور قلبی آمادگی کوپیش نظر رکھنا چاہئےکیونکہ محبتِ اہلِ بیت ؑ غیر مستعد (نالائق) اور غیر آمادہ دلوں میں جگہ نہیں بناتیجیسے سخت چکنے پتھر پر پانی نہیں ٹھہرتا اور پتھریلی زمین قابلِ کاشت نہیں ہوتی۔

۱اس بارے میں مزید جاننے کے لئے بحارالانوارکی جلد ۶۶  میں صفحہ نمبر ۲۳۶ تا ۲۵۳پر ”راہِ خدا میں حب اور بغض“ سے متعلق احادیث کا مطالعہ کیجئے۔