۲محبت کی نشانیاں
بہترین عشق • حجت الاسلام جواد محدثی
کبھی کبھی انسان خود بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہےوہ اپنے آپ کو شیعہ اور محبِ اہلِ بیت ؑ تصور کرتا ہے، جبکہ اس کا یہ خیال ایک بے بنیاد نعرے اورکھوکھلے دعوے سے زیادہ نہیں ہوتاجو شخص محبتِ اہلِ بیت ؑ کادعویدار ہواس میں محبت کی نشانیاں اور علامات تلاش کرنی چاہئیںاہلِ بیت ؑ سے سچے عشق کی علامات درجِ ذیل ہیں:
عمل اور تقویٰ
پہلے نکتے (محبت کو عمل کے ساتھ جوڑنا) کے ذیل میں، اس بارے میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جا چکی ہے۔
محبانِ اہلِ بیت سے محبت
اگر ہم اہلِ بیت ؑ سے عقیدت رکھتے ہیں، ان کے محب اور شیدائی ہیں، تو ہمیں اُن کے محبوں اور دوستوں سے بھی محبت کرنی چاہئےاگر ہم کسی کو پسند کرتے ہیں، تو قدرتی بات ہے کہ وہ جن امور اور جن افراد کو پسند کرتا اور ان سے محبت کرتا ہے، وہ ہمیں بھی پسند ہوں، ہم بھی ان سے خوش ہوتے ہوںعشق و محبت کے اس سلسلے کو اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے:
خدا سے محبت
↓
رسول اﷲ سے محبت
↓
اہلِ بیتِ رسول سے محبت
↓
شیعیانِ اہلِ بیت سے محبت۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے
مَنْ اَحَبَّ اﷲَ اَحَبَّ النَّبیَّ، وَمَنْ اَحبَّ النّبیَّ اَحَبَّنٰاوَمَنْ اَحَبَّنا اَحَبَّ شیعَتَنا(اہل البیت فی الکتاب والسنۃص ۴۳۱)
جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے، وہ پیغمبر سے بھی محبت کرتا ہےجو پیغمبر سے محبت کرتا ہے، وہ ہم (اہلِ بیت) سے بھی محبت کرتا ہے اور جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے، وہ ہمارے شیعوں سے بھی محبت کرے گا۔
امام علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے :
مَنْ سَرَّہُ اَنْ یَعْلَمَ اَمُحِبٌّ لَنااَم مُبْغِضٌ فَلْیَمْتَحِنْ قَلبَہ، فاِنْ کانَ یُحِبُّ وَلیّاً لَنا فَلَیْسَ بِمُبْغِضٍ لَناوَاِنْ کانَ یُبْغِضُ وَلیَّنٰافَلَیْسَ بِمُحِبٍّ لَنا۔
جو کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ ہمارا دوست ہے یا دشمن، اسے چاہئے کہ اپنے دل کا امتحان لے (اور اپنے قلب سے معلوم کرے) اگر وہ ہمارے محب سے محبت کرتا ہے، تو ہمارا دشمن نہیں اور اگر ہمارے محب سے دشمنی رکھتا ہے، تو پھر ہمارا دوست نہیں(حوالۂ سابق)
امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے:
مَنْ تَوَلّیٰ مُحِبَّنافَقَداَحَبَّنا۔
جو کوئی ہمارے محب سے محبت کرتا ہے، وہ ہم سے محبت کرتا ہے
(بحارالانوارج۱۰۰ص ۱۲۴، ج ۳۵ص ۱۹۹)
دشمنوں سے بیزاری
جو شخص اہلِ بیت ؑ سے محبت کرتاہے، اُسکے دل میں اُن کے دشمنوں سے محبت نہیں ہو سکتیایک دل میں دو محبتیں اکھٹی نہیں ہوتیںمحبتِ اہلِ بیت ؑ کے ساتھ اُن کے دشمنوں کی محبت نہیں چل سکتیتولیٰ اورتبریٰ کی اہم بحث اسی مقام پر پیش آتی ہےشیعہ اور اہلِ بیت ؑ کا محب کسی نظریئے اورموقف کے بغیر نہیں رہتاوہ اہلِ بیت ؑ کے مخالفین سے محبت اور دوستی کا تعلق قائم نہیں کرتا۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے آیتِ قرآن: مَاجَعَلَ اﷲُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْ فِہٖ (خدا نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیںسورۂ احزاب ۳۳آیت ۴) کے ذیل میں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:
لایَجْتَمِعُ حُبُّناوحُبُّ عَدُوَّنافی جَوْفِ انسانٍ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ایک انسان کے دل میں ہماری اور ہمارے دشمن کی محبت یکجا نہیں ہو سکتیکیونکہ خداوند عالم نے انسان کے دو دل نہیں رکھے ہیں کہ ایک میں اس سے دوستی ہو اور ایک میں اس سے دشمنیہمارے دوست کو چاہئے کہ اپنی محبت کو ہمارے لئے خالص کرے، اسی طرح جیسے سونا آگ میں پڑ کرخالص اور بے آلائش ہو جاتا ہےپس جو کوئی (اپنے دل میں) ہماری محبت کو جاننا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ اپنے دل کا امتحان کرےاگر اس کے دل میں ہماری محبت کے ساتھ ہمارے دشمن کی محبت بھی ہو، تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں اور ہم بھی اس سے نہیں(نہ اس کا ہم سے تعلق ہے اور نہ ہمارا اس سے تعلق) (اہل البیت فی الکتاب والسنۃص ۴۲۳)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک شخص کے جواب میں، جو یہ کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص آپ ؑ کی ولایت و محبت رکھتا ہے لیکن آپ ؑ کے دشمنوں سے بیزاری کے معاملے میں سست ہے، فرمایا:
ھَیھات! کَذِبَ مَنِ ادّعیٰ مَحَبَّتناوَلَمْ یَتَبرَّءْ مِن عَدُوِّنا۔
افسوس !ایسا شخص جھوٹ بولتا ہے جو ہماری محبت اور ولایت کا دعویدار ہے لیکن ہمارے دشمن سے بیزارنہیں(حوالۂسابق)
مصائب و مشکلات کے لئے تیار رہنا
محبانِ اہلِ بیت ؑ کو مصائب و مشکلات کے لئے تیار رہنا چاہئےیہ اس بات کی ایک اوردلیل ہے کہ محبت اور ولایت اُس وقت تک قابلِ قبول نہیں جب تک اس کا دعویدار مشکلات اٹھانے اور صعوبتیں جھیلنے کے لئے تیار نہ ہوحضرت علی علیہ السلام کے بقول:
مَنْ اَحَبَّنااھلَ البیتِ فَلْیَسْتَعِدَّ عُدّۃً لِلبَلاءِ۔
جو شخص ہم سے محبت کرتا ہے، اُسے چاہئے کہ مشکلات جھیلنے کے لئے تیار رہے(حوالۂسابقص ۴۳۵)
عشق و محبت کا راستہ دشوار، پر خطر اور بلاؤں سے بھراراستہ ہےسچا عاشق کبھی ان مشکلات، دشواریوں اور بلاؤں سے راہِ فراراختیار نہیں کرتا، بلکہ بڑھ بڑھ کر ان کا استقبال کرتا ہے اور راہِ محبت میں تکلیف اُسکے لئے لذت و سرور بخش ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خونِ دل پینا اور مصیبتیں جھیلنا عشق کی ایک علامت ہےہمیشہ ولااور بَلا، عشق اور سختی ساتھ ساتھ رہتے ہیں البلاء للوِلاء۔