بہترین عشق

اہلِ بیت ؑ کے حقوق اور ہماری ذمے داریاں

بہترین عشق   •   حجت الاسلام جواد محدثی

متعدد روایات میں مودتِ اہلِ بیت ؑ کے علاوہ، ہم پر عائد ہونے والے اہلِ بیت ؑ کے حقوق اور خاندانِ پیغمبر ؑ کے مقابل ہماری ذمے داریوں کو بھی بیان کیا گیا ہےاہلِ بیت ؑ کی ولایت، محبت، مودت اور نصرت کے بارے میں احادیث کے کئی ابواب موجود ہیں ان حقوق اور ذمے داریوں کی فہرست کچھ یوں ہے:

۱مودت و محبت 

زیارتِ جامعہ میں ہے کہ:

بِمُوالاتِکم تُقْبَلُ الطّاعۃُ المُفتَرضۃ ولکم المودّۃُ الواجبۃ۔

آپ کی ولایت کے سبب سے (بارگاہِ الٰہی میں) واجب اطاعتیں قبول ہوتی ہیں اورآپ کی مودت واجب ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک مفصل حدیث میں سلمانؓ، ابوذرؓ اور مقدادؓ کو خطاب کر کے یہ بھی فرمایا ہے کہ :

اِنَّ مودّۃ اھلِ بیتی مفروضَۃٌ واجِبَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مؤمِنٍ ومؤ منۃٍ۔

میرے اہلِ بیت کی مودت ہر با ایمان مرد اور عورت پرفرض اور واجب ہے(بحار الانوارج ۲۲ص ۳۱۵)

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

علیکم بِحُبِّ آلِ نبیّکم فانّہ حقّ اﷲ علیکم۔

تمہیں چاہئے کہ اپنے نبی کی آل سے محبت کرو، کیونکہ یہ تم پر عائد ہونے والا خدا کا حق ہے(غرر الحکمحدیث ۶۱۶۹)

۲ان سے وابستہ رہنا 

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

مَن تَمسّکَ بِعِترتی مِن بَعدی کان من الفائزین۔

جو کوئی میرے بعد میرے اہلِ بیت سے وابستگی اختیار کرے گا وہ کامیاب لوگوں میں سے ہو گا(اہل البیت فی الکتاب والسنۃص ۳۶۹)

۳ان کی ولایت و رہبری قبول کرنا

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لنا عَلَی الناسِ حَقُ الطّاعۃ والوِلایۃ۔

لوگوں پر ہماری اطاعت و ولایت کا حق عائد ہوتا ہے(غرر الحکم)

۴انہیں دوسروں پر مقدم رکھنا

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

اھلُ بَیتیٖ نُجومٌلِأ ھلِ الارضِ، فلا تَتَقَدَّمُوھم وَقَدِّموھم فَھُمُ الوُلاۃُبعدی۔

میرے اہلِ بیت اہلِ زمین کے لئے ستارے ہیںپس ان سے آگے نہ بڑھنا بلکہ انہیں آگے رکھنا کہ یہ میرے بعد والی ہیں  (احتجاج طبرسیج ۱ص ۱۹۸)

۵دینی و دنیاوی امور میں ان کی اقتدا

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:

اَھلُ بیتی یُفرِّقون بین الحقِّ والباطلِ وَھُمُ الائمۃُ الّذینَ یُقتدیٰ بھم۔

میرے اہلِ بیت حق اور باطل کو جدا کرتے ہیں اور وہ ایسے پیشوا ہیں جن کی اقتدا کی جانی چاہئے(احتجاج طبرسیج ۱ص ۱۹۷)

۶ان کی تکریم و احترام

ایّھا الناس!عَظِّموااھلَ بیتی فی حیاتی ومِنْ بعدیٖ وَ اَکرِمُوھم وفَضِّلُوھم۔

اے لوگو! میرےاہلِ بیت کی تعظیم کرو، میری زندگی میں بھی اورمیرے بعد بھیاُن کااحترام و تکریم کرو اور انہیں دوسروں پر فوقیت دو  (احقاق الحق۔ ج۵۔ ص۴۲)

۷اپنے اموال اورآمد نیات میں سے خمس ادا کرو

سورۂ انفال کی آیت ۴۱ میں خمس کو خدا، رسول اور ذوی القربیٰ کے لئے قراردیا گیا ہے۔

۸ان سے اوران کی ذرّیت سے حسن سلوک اوران سے وابستہ رہنا

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ لَمْ یَقدِرْ عَلیٰ صِلَتِنا فَلْیَصِل صالِحیٖ مَوالینا یُکْتَبْ لہ ثوابُ صِلَتِنا۔

جو کوئی ہمارے ساتھ نیکی پر قادر نہ ہو، اُسے چاہئے کہ ہمارے دیندار محبوں سے نیکی کرے، تاکہ اسکے لئے ہم سے تعلق اور ہمارے ساتھ نیکی کا ثواب لکھا جائے(ثواب الاعمالص ۱۲۴)

۹ان پر درود و سلام بھیجنا

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ صَلّیٰ صَلوۃً لَمْ یُصَلِّ فیھا عَلَیَّ وَلا عَلیٰ اھلِ بیتی لَمْ یُقْبَلْ مِنہ۔

جو کوئی نماز پڑھے اور اُس میں مجھ پراور میرے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجے، تو ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کی جائے گی(احقاق الحقج ۱۸ص ۳۱۰)

۱۰ان کا اور ان کے فضائل کا تذکرہ کرنا

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

خیرُالناس مِن بعدِنا مَن ذاکراَمرَناودعاالی ذِکرِنا۔

ہمارے بعد لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو ہمارے کام اور ہماری تعلیمات کا ذکر کرے اور لوگوں کو ہمارے ذکر کی دعوت دے  (امالئ طوسیص ۲۲۹)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے :

اِنّ ذِکرَنا مِنْ ذِکراﷲوذِکرُعدوّنامِن ذِکر الشیطان۔

ہمارا ذکر خدا کا ذکر ہے اور ہمارے دشمن کا ذکر شیطان کا ذکر ہے  (کافیج ۲ص ۴۹۶)

۱۱ان کے مصائب اور مظلومیت کا ذکر کرنا

امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجالسِ عزائے اہلِ بیت ؑ کے بارے میں فرمایا ہے:

اِنَّ تِلکَ المَجالسَ اُحِبُّھافَاَحْیُوااَمرَنا، اِنّہ مَن ذَکَرَنا اوذُکِرْنا عِندَہ فَخَرجَ مِن عَینَیہِ مثلُ جَناحِ الذّبابِ غَفراﷲ لہ ذُنوبَہ۔

ہم اِن مجالس کو پسند کرتے ہیںپس ہمارے امر اور ہماری فکر کو زندہ رکھوبے شک جو کوئی ہمارا ذکر کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اسکی آنکھ سے پرِ مگس کے برابر بھی آنسون کل آئے، تو ایسے شخص کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں(ثواب الاعمالص ۲۲۳)

۱۲ان کی قبور مطہر کی زیارت کو جانا

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِنَّ لِکُلٍ اِمامٍ عھداً فی عُنُقِ اولیاۂ وشیعتِہِ، وانّ مِن تمامِ الوفاءِ بالعھدِ زیارۃُ قبورھم۔

ہر امام کی طرف سے اس کے چاہنے والوں اور پیروکاروں کے ذمے ایک عہد و پیمان ہے اور اس عہد و پیمان سے مکمل وفاداری کی علامت قبورِائمہ کی زیارت ہے(من لا یحضر الفقیہج ۲ص ۵۷۷)

قبورِ ائمہ ؑ کی زیارت اس قدر زیادہ اجتماعی اور تربیتی اثرات کی حامل ہے کہ اسے حج اور خانۂ خدا کی زیارت کے کمال کی علامت شمار کیا گیا ہےبکثرت احادیث میں اہلِ بیت ؑ اور ائمۂ معصومین ؑ کی حیات اور ان کی وفات کے بعد بھی اُن کی زیارت کی تاکید کی گئی ہے (۱)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے: لوگوں کو اِن پتھروں (خانۂ کعبہ) کی طرف آنے، ان کا طواف کرنے، اس کے بعد ہمارے پاس آنے، ہم سے اپنی ولایت اور وابستگی کی اطلاع دینے اور ہمارے لئے اپنی نصرت کے اعلان کا حکم دیا گیا ہے(وسائل الشیعہج ۱۰میزان الحکمۃج ۴وغیرہ)

حج کایہ اجتماعی اور سیاسی پہلو، ائمۂ حق کی نصرت اوراُن سے محبت کے تعلق کی نشاندہی کرتا ہےزیارت کا وہ عظیم ثواب جس کا ذکر روایات میں کیا گیا ہے، بالخصوص کربلااور خراسان کی زیارت، زیارتِ اربعین و عاشورا اور دور و نزدیک سے زیارت، وہ اس مسئلے کی اہمیت کی علامت ہےقبورِ ائمہ ؑ کی زیارت، ائمہ ؑ کے حوالے سے ہماری ذمےداری ہونے کے ساتھ ساتھ، ہمارے دلوں میں اُن کی محبت پیدا ہونے کا باعث بھی بنتی ہے(اس بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے)

رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاہے:

الزّیارۃُ تُنْبِتُ المَوَدَّۃَ۔

زیارت و دیدار، مودت اور دوستی پیدا کرتا ہے  (بحارالانوارج ۷۱ص ۳۵۵)

۱زیارت سے متعلق روایات کے لئے اِن کتب سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہےبحار الانوارج ۹۷ تا ۹۹، من لا یحضر الفقیہج ۲، کامل الزیارات، عیون اخبار الرضا۔