۱محبت کو عمل کے ساتھ جوڑنا
بہترین عشق • حجت الاسلام جواد محدثی
بچوں اور نوجوانوں کے دل میں محبتِ اہلِ بیت ؑ پیدا کرتے ہوئے یک طرفہ پن سے بھی اجتناب کرنا چاہئے اور اُنہیں بھی اس سے پرہیز کی تلقین کرنی چاہئےہمارا اصل کام محبت کو عمل کے ساتھ مخلوط کرناہےتاکہ (عمل، تقویٰ اور پیروی کے بغیر) صرف محبت اور عشقِ اہلِ بیت ؑ ان کے محبوں کی گمراہی اور غفلت کا باعث نہ بن جائےاگر محبت اور عمل ساتھ ساتھ نہ ہو ں تو یا تو محبت سچی نہیں ہے، یا اس میں عشق اور عقیدت کی تاثیر کو ختم کر دینے والے عوامل کی ملاوٹ ہے۔
اگر محبت سچی اور صدقِ دل کے ساتھ ہو، تو محبوب اور محب کو ہم رنگ اور ہمراہ بنا دیتی ہےمحبت چاہے خدا کے ساتھ ہو، پیغمبرؐ کے ساتھ ہو، ائمہ ؑ کے ساتھ ہویا کسی بھی دوسرے شخص کے ساتھ، اگرسچی اورحقیقی ہو، تومحب کو محبوب کی مخالفت، اسکی ناراضگی اور اسکی خواہش، رضا اور رغبت کے منافی عمل سے باز رکھتی ہےاگر ہم کسی سے عشق اور محبت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے عمل انجام دیں جوہمارے محبوب کے لئے تکلیف اور دکھ کا باعث ہوں، توہم عاشق اور محب نہیں بلکہ اس عشق اور محبت کے جھوٹے دعویدارہیں۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے (اپنے ایک صحابی) مفضل سے گفتگو کے دوران محبتِ اہلِ بیت ؑ کے حوالے سے شیعوں کی گروہ بندی کرتے ہوئے اور یہ بتاتے ہوئے کہ محبتِ اہلِ بیت ؑ کے سلسلے میں لوگوں کے محرکات بھی مختلف ہوتے ہیں، اہلِ بیت ؑ کے حقیقی محب گروہ کا تعارف کرایا ہے، فرماتے ہیں:
۔۔۔ وَفِرقَۃٌ اَحَبُّوناوحَفِظُواقولَنٰا وَاطاعُوااَمْرَناوَلَمْ یُخالِفوا فِعْلَنا، فَاولئک منّاونَحْنُ منھم۔
۔ ۔ ایک گروہ ہم سے محبت کرتا ہے، ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے، ہمارے فرمان کی پیروی کرتا ہے، اپنے عمل سے ہماری مخالفت نہیں کرتایہی لوگ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں(تحف العقولص ۵۱۴)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے محبتِ خدا کے دعوے کے بارے میں فرمایاہے:
تَعْصِی الالٰہَ وَاَنْتَ تُظھِرُحُبَّہُ ھذا مَحالٌ فی الفِعالِ بَدیعٌ
لَوْکانَ حُبُّکَ صادِقاً لَأَ طَعْتَہُ اِنَّ المُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ مُطیعٌ
خدا کی نافرمانی کرتے ہواور اس سے اظہارِ محبت بھی کرتے ہویہ محال ہے اورایک نئی بات ہےاگر تمہاری محبت سچی ہوتی، تو اُس کی اطاعت کرتےکیونکہ عاشق اپنے معشوق کا اطاعت گزار ہوتا ہے
(بحارالانوارج ۷۰ص ۱۵)
خدا سے اظہارِ محبت اسکی اطاعت اور اسکے احکام کی پیروی کے ساتھ ہونا چاہئے نہ کہ اس کی نافرمانی اور اس کے فرامین کی مخالفت کے ساتھکیونکہ سچی محبت کا نتیجہ محبوب کی اطاعت ہوا کرتا ہےاہلِ بیت ؑ سے محبت کا دعویٰ اور گناہوں اور نا فرمانیوں کا ارتکاب ایک دوسرے سے متضاد باتیں ہیںلہٰذایہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ ہمارا دین حب اور محبت کا دین ہے لیکن سچی محبت ہمرنگی اور ہم آہنگی کا باعث ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے جب دو افراد میں محبت ہوتی ہے، تو اس محبت کی بنیاد پر وہ دونوں ایک دوسرے کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں، ایک دوسرے کو رنجیدہ کرنے اور ایک دوسرے کی مخالفت سے پرہیز کرتے ہیں تا کہ ان کے درمیان قائم محبت اور دوستی کا رشتہ ٹوٹنے نہ پائے۔
امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث، اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ محبتِ اہلِ بیت ؑ کے بھروسے پر عملِ صالح کو ترک نہیں کرنا چاہئےایسا نہ ہو کہ ہم ”جب علی ہیں تو کیا غم“جیسے الفاظ منھ سے نکالنے لگیں۔
لا تَدَعُواالعَمَلَ الصّالحَ والأجتھادَ فی العبادۃِ اِتّکالاً عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ولا تَدَعُواحُبَّ آلِ محمّدٍ والتسلیمَ لِأ مرِھِمْ اِتّکالاً عَلَی العبادۃ، فاِنّہُ لایُقْبَلُ أحَدُ ھُمادونَ الآخَرِ۔
عملِ صالح اور بندگئ رب میں کوشش کو اہلِ بیت کی محبت کے بھروسے پر ترک نہ کرنا اور اہلِ بیت کی محبت اور ان کی اطاعت کو عبادت کے بھروسے پر نہ چھوڑناکیونکہ ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے کے بغیر قبول نہیں کیا جائے گا(بحارالانوارج ۷۵ص ۳۴۷)
جی ہاں، محبتِ اہلِ بیت ؑ کے موثر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عملِ صالح اور خدا کی بندگی کے ہمراہ ہو(۱)
اہلِ بیت ؑ سے عشق نیکیوں اور نیکوکار افراد، عملِ صالح اور صالحین کے ساتھ محبت کے ہمراہ ہونا چاہئےیہ سچی محبت کی نشانی ہےامام علی ابن الحسین زین العابدین علیہ السلام، مناجاتِ محبین میں خداوند عالم سے خدا کی محبت، خدا کے محبوں کی محبت اور ہر اس عمل سے محبت کی درخواست کرتے ہیں جو بندے کے لئے قربِ الٰہی کا باعث ہو۔
اَسْءَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ کلّ عَمَلٍ یُوصِلُنی اِلیٰ قُرْبِکَ(مناجاتِ خمس عشرہمفاتیح الجنان)
میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری محبت کا اورجو تجھ سے محبت کرتا ہے اُسکی محبت کا اور ہر اُس عمل سے محبت کاجو مجھے تیرے قرب سے ملادے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
مَنْ اَحَبّنافَلْیَعْمَلْ بِعَمَلِناوَلْیَتَجَلْبَبِ الوَرَع۔
جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے، اُسے چاہئے کہ ہماری طرح عمل کرے اور پرہیز گاری کواپنا لباس قرار دے(تنبیہ الخواطرج ۲ص ۱۷۶)
محبت اور شیعیت کے ثبوت کے لئے عملی اتباع اور پیروی ضروری ہے اور شیعہ کے تو معنی ہی ہیں پیروکار اور نقشِ قدم پر چلنے والا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ:
اِنَّ شیعَتَنامَنْ شَیَّعَناوتَبِعَنٰا فی اَعْمالِنا۔
یقیناًہمارے شیعہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے اعمال میں ہماری اتبا ع اور پیروی کرتے ہیں(میزان الحکمۃج ۵ص ۲۳۲)
امامِ زمانہ علیہ السلام سے بھی روایت ہے کہ :
فَلْیَعْمَلْ کُلُّ امْرِءٍ مِنکم مایَقْرُبُ بہ مِنْ مَحبّتِناوَلْیَتَجَنَّبْ مٰا یُدْنیٖہ مِنْ کَراھَتِناوسَخَطِنا۔۔۔
تم میں سے ہر ایک وہ عمل انجام دے جو اسے ہماری محبت سے نزدیک کرے، اور ہر اس چیز سے گریز کرے جو ہماری ناراضگی اور غضب کا موجب ہو۔ ۔ (احتجاجِ طبرسیج۲ص ۵۹۹)
پس یہ ہمارے اچھے یا برے اعمال ہوتے ہیں جو ہمیں اہلِ بیت ؑ سے نزدیک یا اُن سے دور کرتے ہیں اورہم اُن کی نظروں میں محبوب یا قابلِ نفرت بنتے ہیںمحبت دل میں بھی ہوتی ہے اور زبان پر بھی جاری ہوتی ہے اور انسان کے عمل سے بھی اس کا اظہار ہوتا ہےوہ حدیث جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا ہے کہ: بعض لوگ تمہیں صرف دل سے چاہتے ہیں، بعض تمہارے قلبی اور زبانی محب ہیں اور بعض دل سے بھی تم سے محبت کرتے ہیں اور زبان سے بھی تمہاری مدد کرتے ہیں اور اپنی تلواروں سے بھی تمہاری نصرت کو بڑھتے ہیں ایسے لوگوں کی جزااس (پوری) امت کی جزا کے برابر ہے(بحار الانوارج ۳۹ص ۲۸۸) یہ حدیث اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ محبت عملی پہلو بھی رکھتی ہے اور یہی محبت کی سچائی جاننے کا پیمانہ ہے۔
ائمۂ معصومین علیہم السلام کااس بات پر زور دینا کہ شیعوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اچھے عمل اور کردار کے ذریعے ان کے لئے زیب و زینت کا سبب بنیں، اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان کے لئے شرمندگی کا باعث اور ان کے نام پر دھبہ نہ بنیں خاندانِ عصمت و طہارت سے اسی عملی محبت کی جانب اشارہ ہےاس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
معاشرالشیعہ! کونوالنازَ یناًوَلاٰ تکُونواعلینا شیناً۔
اے گروہِ شیعہ ! ہمارے لئے زینت بنو، بدنامی اورشرمندگی کا باعث نہ بنو(بحارالانوارج ۶۵ص ۱۵۱)
اس سے پتا چلتا ہے کہ شیعوں کا نیک عمل اوراُن کااچھا کردارلوگوں کو اہلِ بیت ؑ کی جانب مائل کرتا ہے۔
۱محبتِ اہلِ بیت ؑ سے متعلق احادیث کے مطالعے کے لئے کتاب میزان الحکمۃج ۳ص ۲۳۵ ملاحظہ فرمائیںاسکے علاوہ محمد محمدی ری شہری ہی کی تالیف ”اہل البیت فی الکتاب والسنۃ“بھی اس سلسلے میں ایک عمدہ ماخذ ہے۔