بہترین عشق

۸تعظیم و تکریم اور تعریف

بہترین عشق   •   حجت الاسلام جواد محدثی

بچے اورجوان، اپنے اساتذہ کو قابلِ تقلید سمجھتے ہیں، اسی وجہ سے وہ ان کے انداز و اطوار کی بھی پیروی کرتے ہیں استاداورمربی کی حرکات وسکنات اور اُس کا طرزِ عمل بالواسطہ (indirect) تعلیم کی صورت میں شاگرد پر اثر انداز ہوتا ہےرہبرِ معظم حضرت آیت اﷲ خامنہ ای نے اساتذہ کے ساتھ ایک ملاقات میں فرمایا:

عزیزاساتذہ! کلاس میں صرف آپ کا درس دینا ہی نہیں بلکہ آپ کا مخصوص اندازسے دیکھنا، آپ کے اشارے کنائے، آپ کی مسکراہٹ، آپ کا تیوریوں پر بل ڈالنا، آپ کی حرکات وسکنات، آپ کا لباس، یہ سب چیزیں آپ کے شاگردوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

جب ہم اپنی طرف پلٹ کر دیکھتے ہیں (اپنا جائزہ لیتے ہیں) اگرہم اپنے گہرے جذبات و احساسات اور کیفیات کی جڑ تلاش کرتے ہیں تو بالآخر وہاں ہمیں اپنے کسی استاد کی رہنمائی دکھائی دیتی ہےاستاد ہے جو ہمیں بہادر یا بزدل، فیاض یا بخیل، فداکار یا خود پرست، اہلِ علم اور طالب علم، مودب وفہمیدہ، یا منجمد اور جامد تفکرات کا اسیر بناتا ہےاستاد ہے جو ہمیں متدین، متقی، پاکدامن یا خدانخواستہ بے لگام بناسکتا ہےیہ ہے استاد کا اہم کردار، یہ ہے استاد کی قدر و قیمت، یہ ہے استاد کی تاثیر۔

بچوں اور نوجوانوں کے سامنے اُن کے سرپرست، والدین اور اساتذہ اہلِ بیت ؑ کے بارے میں جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں بچے وہی اپناتے ہیں احترام و عقیدت کے ساتھ ائمہؑ کا نام لینا، ان کا نام لیتے ہوئے درود و سلام زبان پر جاری کرنا، امامِ زمانہ ؑ کا نام آنے پر کھڑے ہو جانا، اپنے سر پر ہاتھ رکھ لینا، ائمہ ؑ کے یومِ ولادت پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا، ان کے روزِ وفات پر حالتِ غم و اندوہ میں رہنا، ہنسی مذاق اور کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہ کرناوہ امور ہیں جو اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں اس قسم کے مسائل میں بچے اپنے بڑوں کے طرزِ عمل کا مشاہدہ کرتے ہیںیہ حالت ایک شیعہ کی خصوصیت ہے۔

شیعتناخُلِقوامن فاضِلِ طینتنا، یَفرحون لِفرَحناویَحزَنون لِخرننا۔

ہمارے شیعہ، ہماری بچی ہوئی مٹی سے خلق کئے گئے ہیں، وہ ہماری خوشی میں خوش اور ہمارے غم و اندوہ پر غمگین ہوتے ہیں۔

حد یہ ہے کہ ماں کا ان ہستیوں کے نام لینے کا انداز اور اس موقع پر اس کا لب و لہجہ بھی اپنا اثر رکھتا ہےایک دفعہ ہم کہتے ہیں امام رضا نے کہا اور ایک مرتبہ کہتے ہیں کہ: حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔

اگر ہم پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم یا کسی معصوم علیہ صلوات و سلام کا نام سن کر زیر لب ان پر صلوات بھیجیں، تو یہ بھی ایک قسم کی تعظیم ہے اور دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہےبڑوں، یعنی اساتذہ اور والدین کا ائمہؑ کے بارے میں اشتیاق اور عقیدت کے ساتھ گفتگو کرنا اور اہلِ بیت ؑ اور ان کی محبت کے بارے میں کوئی بات یا قصہ سنانا بھی اثر رکھتا ہےگفتگوکرنے والے اور مبلغ کا عقیدہ اسکی گفتار سے ہم آہنگ ہونا چاہئے اور اسے ایمان، یقین اور شوق و عقیدت کے ساتھ گفتگو کرنی چاہئےیہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہ حالت اس کے سامعین اور اس کے مخاطبین میں بھی منتقل ہوتی ہے۔

احادیث میں بار بار یہ بات کہی گئی ہے کہ جب کبھی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ مبارک سنو، ان پر درود بھیجوخود ائمہ ؑ اسی طرح کیا کرتے تھے اور انتہائی عقیدت اور احترام کے ساتھ آنحضرت ؐاور اُن کے اہلِ بیت ؑ کا ذکر کرتے تھے، اور ان کا یہ احساس ان کے مخاطبین میں بھی منتقل ہوتا تھاجب شاعرِ اہلِ بیت ”دعبل“ نے خراسان میں امام رضا ؑ کی خدمت میں اپنامعروف قصیدہ پیش کیا اور وہ اس مقام پر پہنچے جہاں مستقبل میں امامِ زمانہ ؑ کے ظہوراور قیام کا تذکرہ ہواہے، تو حضرت ؑ نے اپناہاتھ سر پر رکھا اور امام مہدی ؑ کاذکر سن کران کے احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور امام ؑ کے فرج کے لئے دعا کی(الغدیرج۲ص ۳۶۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام سے امام مہدی ؑ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کی ولادت ہوچکی ہے؟ امام ؑ نے فرمایا: نہیں، لیکن اگر میں نے انہیں پایا تو اپنی پوری زندگی ان کی خدمت میں گزاردوں گا(بحارالانوارج ۵۱ص ۱۴۸)

امام محمد باقر علیہ السلام نے جب امام مہدی ؑ کا ذکر کیا، تو راوی (ام ہانی ثقفیّہ) سے فرمایا: اگر تم انہیں پاؤ تو یہ تمہاری خوش نصیبی ہوگی(طوبیٰ لکِ ان ادرکتِہِ ویا طوبیٰ من ادرکہ) خوش نصیب ہے جو انہیں پائے اور ان کا دیدار کرے(بحارالانوارج ۵۱ص ۱۳۷)

ہمارے ائمہ علیہم السلام، حضرت رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت فاطمہ علیہا السلام کے اسمائے گرامی انتہائی احترام اورعقیدت کے ساتھ لیا کرتے تھےرسولِ کریمؐ حضرت فاطمہ ؑ کے ہاتھ کا بوسہ لیتے، اُن کے احترام میں کھڑے ہوجاتے، اُ نہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اُن کے ہاتھوں اور دَہان پر بوسے لیتے اور بار بار فرماتے کہ تمہارا باپ تم پر فدا ہو، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں(العوالم ج ۱۱ص ۱۳۶)

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں: جس گھر میں محمد، احمد، علی، حسن، حسین اور فاطمہ کے نام ہوں، اُس گھر میں فقر داخل نہیں ہو تا(العوالمج۱۱ص ۵۵۲)

”سکونی“ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملاقات کے دوران جب اُنہیں یہ بات بتائی کہ خدا نے اسے ایک بیٹی عطا کی ہے، تو حضرت ؑ نے ان سے پوچھا: تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ اُنہوں نے کہا: فاطمہامام ؑ نے فرمایا: واہ واہپھر اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ اور اسے تلقین کی کہ اب جب کہ تم نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھاہے، تو اسے برا بھلا نہ کہنا اور نہ اسے مارنا پیٹنا(العوالمج ۷ص۵۵۲ نقل از تہذیبج ۸ص ۱۱۲)

اہلِ بیت ؑ کے اسمائے گرامی پر اپنے بچوں کے نام رکھنا، ان ناموں کے دنیوی اثرات و برکات اور اُخروی ثواب پر توجہ دلانا، اس قسم کے نام رکھنے پر اہلِ بیت ؑ کی تلقین اور یہ نام بچوں کی شخصیت کی تشکیل اور صورت گری پر جو اثرات مرتب کرتے ہیں وہ ان ہستیوں کے ساتھ محبت و مودت کا تعلق پیدا ہونے میں موثر ہیں۔

حالیہ چند برسوں میں، بعض مناسبتوں، مثلاً ایامِ فاطمیہ، یا یومِ خواتین کے مواقع پر حضرت فاطمہ ؑ کے حوالے سے پہلے کی نسبت زیادہ مجالس و محافل کا انعقاد ہوتا ہے اور ان ایام کو زیادہ اہتمام کے ساتھ منایا جانے لگا ہے، یہی صورت امامِ زمانہؑ کے حوالے سے بھی ہےیہی وجہ ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ کی نسبت اب حضرت فاطمہؑ اور امام مہدی ؑ سے محبت اور ان کی جانب توجہ میں اضافہ ہوا ہےبالخصوص جوانوں میں امام حسین ؑ کی عزاداری کی جانب رجحان اور ایامِ عزا کی روز افزوں بڑھتی ہوئی رونق کی بنیاد یہی تکریم و ترویج ہے۔

ایسے لوگ جو کسی بھی اعتبار سے افرادِ معاشرہ بالخصوص جوانوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں اور جن کی باتیں، جن کی طرفداریاں، جن کے موقف اور جن کا اندازِ بیان دوسروں کے لئے قابلِ تقلید ہوا کرتا ہے اورجولوگوں کے لئے رُخ کا تعین کرتے ہیں، اگر ایسے لوگ اہلِ بیت ؑ  کا تذکرہ کریں اور انتہائی شوق و اشتیاق اور تعظیم و احترام کے ساتھ ان کا نام لیں، تو ان کا یہ عمل دوسروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

مثلاً ایک ایسا شخص جو علمی، ادبی، سیاسی اوردینی میدانوں میں شہرت رکھتا ہو، یا آرٹ اور اسپورٹس کی نامور شخصیت شمار ہوتا ہو اور جسے عام لوگوں اور جوانوں کی توجہ حاصل ہو، اگر وہ دین، نماز، شہید، اسلام، قرآن اور اہلِ بیت ؑ کا تذکرہ کرے اور اُن کے لئے احترام کا اظہار کرے، تو اس شخص کا یہ عمل ان لوگوں میں بھی اہلِ بیت ؑ سے محبت پیدا کرتاہے جو اُسے قابلِ تقلید اور محبوب سمجھتے ہیں اور اُس کی پیروی کرتے ہیں۔

اسی طرح ایسے لوگوں کی منفی باتیں بھی تخریبی اثر رکھتی ہیںمثلاً ایسے لوگوں میں سے اگر کوئی فرد مغرب اور یورپ کی کسی پروڈکٹ، کسی مکتب و طرزِ فکر، کسی رسم، کسی کتاب، کسی شاعر، کسی ٹی وی پروگرام یاکسی فلم وغیرہ کی تعریف کرتا ہے یا خود کو اس کا طرفدار ظاہر کرتا ہے، تواس طرح اس چیز کی تبلیغ اور اسکی جانب لوگوں کی رغبت کا سبب بنتا ہےپس بچوں اور نوجوانوں میں پائی جانے والی تقلید اور پیروی کی اس حس سے (جس کے تحت وہ اپنی محبوب شخصیات کی باتوں اور طرزِ عمل کو دیکھ کرانہیں اپناتے ہیں) ہمیں اہلِ بیت ؑ  اور معصومین ؑ کی جانب انہیں لانے کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔

مثلاً امام خمینیؒ کی ایسی تصویر جس میں وہ حرم اور ضریح کا بوسہ لے رہے ہیں اُن کے محبوں میں صاحبِ حرم کے لئے محبت پیدا کرتی ہےکیونکہ امام خمینیؒ کا عمل اُن کے چاہنے والوں کے لئے قابلِ تقلید ہے اور وہ اس سے اثرلیتے ہیںیا اس نکتے کا ذکرکرنا کہ تفسیر میزان کے مؤلف علامہ محمد حسین طباطبائی ؒ حضرت معصومۂ قم کی ضریح کا بوسہ لے کر اپنا روزہ افطار کرتے تھے اور جب کبھی گرمیوں میں مشہد تشریف لے جاتے اور آپ سے تقاضا کیا جاتا کہ مشہد کے نواح میں واقع پر فضا مقام پرٹھہریئے، تو آپ قبول نہ کرتے اور فرماتے: ہم امام ہشتم کے سائے سے دور کسی اور جگہ نہیں جائیں گے۔

اس بات کاذکر کہ حضرت امام خمینیؒ جب قم میں رہا کرتے تھے، تو روزانہ غروبِ آفتاب کے وقت حضرت معصومۂ قم کی زیارت کرتے تھے اور نجف اشرف میں اپنی اقامت کے دنوں میں ہر شب امیر المومنین ؑ کے حرم کی زیارت سے مشرف ہوتے تھے۔

زیارت کے دوران عظیم تالیف الغدیر کے مؤلف علامہ امینیؒ کی خاص حالتوں کا تذکرہ اور شوق کی اُس کیفیت کا بیان جس کا ا ظہار وہ اہلِ بیت ؑ اور حضرت علی ؑ کے بارے میں کیاکرتے تھے اور اشکبار آنکھوں اور قابلِ دید عقیدت و محبت کے ساتھ حضرت امیر ؑ کی زیارت کرتے تھے۔

یا اس بات کی جانب اشارہ کہ آیت اﷲ بروجردیؒ نے آستانۂ حضرت معصومۂ قم کو تاکید کی کہ حضرت معصومہ ؑ کے اعزازی خدام میں اُن کا نام بھی تحریر کریں (اب بھی قم میں بعض مراجع تقلید، اس آستانے کے اعزازی خدمت گار ہیں اور اعزازی خدام کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں)

یا یہ کہ شیخ انصاریؒ کہا کرتے تھے کہ آپ لوگ حضرت ابوالفضل العباس ؑ کی چوکھٹ کا بوسہ لیا کیجئے تاکہ لوگ آپ کا یہ طرزِعمل دیکھ کر حضرت ابوالفضل ؑ کا اور زیادہ احترام کریں اور ان میں شوق پیدا ہوشیخ انصاریؒ نے کہا تھا کہ: میں ابوالفضل العباس ؑ کی چوکھٹ کا بوسہ صرف اسلئے نہیں لیتا کہ یہ ان کی چوکھٹ ہے، بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ اُن کے زائرین کی گزرگاہ ہےاورمجھے اپنے اس عمل پر فخرہے۔۔۔ اس قسم کی مثالوں کا ذکر دوسروں کے دلوں کو بھی متاثرکرتا ہے اور ان میں محبت پیدا کرتا ہے۔

حضرت امام خمینیؒ جو لاکھوں دلوں کے محبوب اور ان کے آئیڈیل ہیں، اپنے وصیت نامے میں بارباریہ کہہ کر کہ ”ہمیں افتخار ہے۔۔۔“ مذہبِ شیعہ کی پیروی، نہج البلاغہ، ائمہ کی حیات بخش دعاؤں، مناجاتِ شعبانیہ، دعائے عرفہ، صحیفۂ سجادیہ، صحیفۂ فاطمیہ کے حامل ہونے، ائمۂ اثنا عشرکی امامت، امام محمدباقر کے وجود اور اپنے مذہب کے جعفری ہونے۔۔۔ پر فخر و ناز کرتے ہیں۔

جب امام خمینیؒ جیسی عظیم شخصیت ائمہ، مذہب، دعاؤں اورمکتبِ تشیع جیسی باتوں پر فخر و ناز کااظہار کرتی ہے، تو یہ چیز ان کے عقیدت مندوں پر بھی اثر ڈالتی ہے اور یہ محبت ان کے دلوں میں بھی سرایت کرتی ہے (ہمیں فخر ہے کہ باقر العلوم، تاریخ کی چوٹی کی شخصیت۔۔۔ ہم میں سے ہے، ہمیں افتخار ہے کہ ائمۂ معصومین ؑ۔۔۔ ہمارے امام ہیں، ہمیں فخر ہے کہ ہمارا مذہب جعفری ہے۔۔۔ ۔ )

اپنی محبوب ہستیوں کی زبان سے بزرگانِ دین اور اہلِ بیتِ اطہار ؑ کا تذکرہ اس انداز سے سننا، سننے والوں میں ان سے محبت پیدا کرتا ہے۔

قدرتی بات ہے کہ گفتگو کے پروگراموں اور تحریروں میں نوجوانوں سے تعلق رکھنے والی خاص زبان اور اندازِ بیان کا لحاظ رکھنا چاہئے اور بچوں کی علمی ا ورذہنی سطح کو پیش نظر رکھنا چاہئےخواہ وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں ہونے والی گفتگو ہو، خواہ گھروں، اسکولوں، مساجد اور امام بارگاہوں میں منعقد ہونے والی میلاد و مجالس کی تقریبات میں ہونے والی گفتگو۔