بہترین عشق

محبت کے راستے کی ضرر رساں چیزوں میں سے ایک چیز عقیدے کے بارے میں اور اہلِ بیت ؑ سے اظہارِ محبت میں غلو (حد سے زیادہ بڑھ جانا) اور افراط ہےخود ائمہؑ اپنے زمانے میں غلو کی مشکل سے دوچار رہے تھے اور ان لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے جو ان کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور ایسے افراد سے بیزاری کا اظہار کرتے تھےاس حوالے سے بکثرت احادیث موجود ہیں، جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ حدیث کہ :

اِحْذَرُواعَلیٰ شَبابِکُم الغُلاۃَ لا یُفسِدونَھم، فاِنَّ الغُلاۃَ شرُّخلقِ اﷲ، یُصَغِّرونَ عَظَمَۃَ اﷲِ ویَدَّعُونَ الرّبُوبیّۃ لِعبادِاﷲ۔

اپنے جوانوں کو غالیوں سے بچا کے رکھوکہیں وہ انہیں خراب نہ کر دیںغالی لوگ خدا کی بد ترین مخلوق ہیں، وہ خدا کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور خدا کے بندوں کے لئے مقامِ ربوبیت کادعویٰ کرتے ہیں
(طوسیص ۶۵۰ (امالئ

مدح و ستائش میں افراط اور پیغمبرؐ اور ائمہؑ کو مقامِ الوہیت اور ربوبیت تک پہنچا دینا ”غلو“ ہےمحبت کو غلو سے آلودہ نہیں ہو نا چاہئےکیونکہ غلو باعثِ ہلاکت ہےامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

ھَلَکَ فِیَّ رَجُلانِ :مُحِبٌّغالٍ ومُبغِضٌ قالٍ۔

میرے بارے میں دوطرح کے لوگ برباد ہوئے ہیں: غلو کرنے والے دوست اور کینہ رکھنے والے دشمن(نہج البلاغہکلماتِ قصار۱۱۷)

پیغمبر اور ائمہ، نبی اور امام ہونے سے پہلے ”عبداﷲ“یعنی خدا کے بندے ہیں، جو پروردگار پر ایمان رکھتے ہیںخود انہوں نے فرمایا ہے کہ ہمیں حدِ ربوبیت سے نیچے رکھو، پھر ہمارے بارے میں جو چاہو کہوحضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے:

ایّاکُمْ وَالغُلُوَّفینا، قُولوا: اِنّاعَبیدٌمَربُوبُونَ وقولوافی فَضْلِنٰامٰا شِءْتُم۔

ہمارے بارے میں غلو سے پرہیز کرویہ عقیدہ رکھو کہ: ہم پروردگارِ عالم کے تحتِ اختیاربندے ہیںپھر اس کے بعد ہماری فضیلت میں جو چاہو کہو(اہل البیت فی الکتاب والسنۃص ۵۳۱)

اسلامی تاریخ میں غلو کی وجہ سے بہت سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہوئے ہیں اس غلو کا اظہار اکثر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کیا گیا ہےامیرالمومنین علیہ السلام نے اس گمراہی اور فکری انحراف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

مَثَلی فی ھٰذِہِ الأُمَّۃِ مَثَلُ عیسَی بنِ مریمَ، اَحَبَّہُ قَوْمٌ فَغٰالُوافی حُبِّہِ فَھَلکواوَاَبْغَضَہُ قومٌ فَھَلکوا۔۔۔

اس امت میں میری مثال عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کی سی ہےایک گروہ نے ان سے محبت کی اور اس محبت میں غلو اور افراط کی وجہ سے ہلاکت سے دوچار ہواجبکہ دوسرا گروہ ان سے بغض و عداوت کی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوا(بحارالانوارج ۳۵ص ۳۱۵)

محبت میں افراط، حق سے دوری کا باعث ہےحضرت علی علیہ السلام نے اپنے ایک کلام میں نہروان کے خوارج کو خطاب کر کے فرمایاہے:

میرے حوالے سے دو گروہ ہلاکت کا شکارہوں گے: ایک مجھ سے محبت میں حد سے بڑھ جانے والے، جنہیں ”محبت“ ناحق راہ کی طرف لے جائے گیاوردوسرے مجھ سے دشمنی میں حد سے گزر جانے والے(بحارالانوارج ۳۳ص ۳۷۳)

محبت میں غلو اور ائمہؑ کوخدا سے نسبت دینا، ایک قسم کی بدعت اور شرک ہے، جس کا ارتکاب تاریخِ اسلام میں نادان دوستوں یا کٹّر دشمنوں نے کیا ہے اور جو شیعوں اور ائمہؑ کے لئے دردِ سر بنے ہیں اورآج بھی ایسے عقائد و رجحانات شیعیت پر حملے اور اعتراض کے لئے دشمنوں کا ہتھیار ثابت ہوتے ہیںدشمنانِ اہلِ بیت خود اس قسم کے افکار و خیالات کی نشر و اشاعت میں مددگار رہے ہیں اور آج بھی اس سلسلے میں تعاون کرتے نظر آتے ہیںکیونکہ وہ اس طرح شیعیت کے چہرے کو مسخ کرکے سامنے لاتے ہیں(۱)

البتہ ایک دوسری جانب سے ایک اور خطرہ بھی موجود ہےبعض علاقوں اور محافل میں، غلو کے خطرے کے خوف سے اہلِ بیت ؑ کے اُن فضائل اور مناقب کا بیان بھی ترک کیا جا رہا ہے جو یقینی اور معتبر روایات کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں اور ہر اس فضیلت کو غلو کے نام سے مسترد کیا جارہا ہے جو عقلِ بشر سے معمولی سی بھی ہم آہنگ نہیںیہ طرزِ عمل بھی درست نہیں اور دشمن ہم سے یہی چاہتاہے۔

شیعیت کے مخالفین ہم پر غلو کا الزام لگاتے ہیںلہٰذا ہمیں چاہئے کہ غلو سے پرہیز کرنے کے ساتھ ساتھ اور عقیدے میں انحراف کا شکار ہوئے بغیراپنے مخالفین کے الزامات کی رد میں جواب بھی ہمارے پاس موجودہو اور ہم ”غلو“ اور ”فضائل“ کے بیان کے درمیان حد کوبھی جانتے ہوں، تاکہ ان کے شبہات کو دور کر سکیں۔

بہرحال ہمیں چاہئے کہ نوجوانوں اور بچوں کی فکری سطح اور ان کی ذہنی صلاحیت کو
پیش نظر رکھیں اور ان کے سامنے ایسی احادیث اور فضائل بیان کریں، جو ان کے لئے قابلِ فہم اور قابلِ ہضم ہوںصرف اس بنیاد پرکسی بات کو عام افراد کے سامنے بیان کرنے کا جواز فراہم نہیں ہوتا کہ یہ بات حدیث میں موجود ہےکبھی کبھی سننے اور پڑھنے والوں کے لئے فکری کشش نہ رکھنے کی وجہ سے کوئی بات ان کے ذہن میں شک و شبہ پیدا کر دیتی ہے اور وہ اصلِ دین اور عقائد کے منکر ہو جاتے ہیں۔

۱اس بارے میں تحقیق کے خواہشمند حضرات علامہ اسد حیدر کی تالیف ”امام جعفر الصادق والمذاھب الاربعہجلد۴صفحہ ۳۶۹“ پر مشکلۃ الغُلاۃ کے عنوان سے گفتگو ملاحظہ فرمائیں۔