حضرت علی ؑ کے بارے میں احادیثِ رسول ؐ
ولایتِ غدیر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کی ایک اور تصویر ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین میں تلاش کرتے ہیںجس طرح رسول اﷲؐ نے حضرت علی ؑ کے بارے میں کلمات ارشاد فرمائے ہیں، اُس طرح اپنے کسی اور صحابی کے بارے میں نہیں فرمائے۔
اِس حوالے سے کیا مسئلہ صرف جذباتی نوعیت کا تھا، اور آپ ؐ کے اِن اقوال کی بنیاد محض یہ تھی کہ آپ ؐنے علی ؑ کی پرورش فرمائی تھی؟
یا وجہ یہ تھی کہ علی ؑ آپ ؐ کے چچا زاد بھائی تھے؟
اِس صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ آپ ؐکے تواوربھی بہت سے چچا زاد بھائی تھے۔
یااِن فرامین کا سبب یہ تھا کہ علی ؑ، آپ ؐکے داماد تھے؟
لیکن اِس بات کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اسلاؐم کی تواور بھی بیٹیاں تھیں، یوں علی ؑ پیغمبرؐ کے واحد داماد تو نہ تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذاتی خواہش سے کچھ بھی نہیں کرتے، اوراِس نکتے کی جانب قرآنِ کریم میں اشارہ کیا گیا ہے: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّاوَحْیٌ یُّوْحٰی(وہ اپنی خواہشِ نفسانی سے کلام نہیں فرماتے، سوائے اُس وحی کے جو اُن پر اتاری جاتی ہےسورۂ نجم ۵۳آیت ۳، ۴) لہٰذا پیغمبر اسلاؐم کی واحد خواہش اپنی رسالت کی انجام دہی تھی اور آپ ؐاخلاص اور اشتیاق کے ساتھ رضائے الٰہی کے طالب تھے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر کیوں حضرت علی ؑ کے بارے میں بارہا کلام فرمایاآپ ؐکافرمان ہے کہ: أَنَامَدِیْنَۃُالْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بٰابُھٰا(میں علم کا شہر ہوں اور علی ؑ اس کا دروازہ ہیںبحار الانوار ج ۲۴ص ۱۰۷) اور: اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مؤؤمِنٍ وَ مُؤْمِنَۃٍ۔ (تم ہر مؤمن اور مؤمنہ کے ولی و سرپرست ہو) اور: عَلِیُّ مَعَ الْحَقِّ وَالْحَقُّ مَعَ عَلِیٍ(علی ؑ حق کے ساتھ ہے اور حق علی ؑ کے ساتھبحارالانوار۔ ج ۲ص ۲۲۶) نیز آپ ؐنے فرمایا تھا: أَمٰا تَرضیٰ أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ھٰارُونَ مِنْ مُوسیٰ اِلَّا أَنَّہُ لاٰ نَبِیَّ بَعْدِی۔ (کیا آپ یہ بات پسند نہیں کریں گے کہ میرے نزدیک آپ کا مقام ویساہی ہو جیسا موسیٰ ؑ کے نزدیک ہارون ؑ کا مقام تھا، بس اِس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہےبحارالانوار ج ۱۰ص ۴۸۴) قرآنِ کریم نے حضرت موسیٰ ؑ کے نزدیک حضرت ہارون ؑ کے مقام کو یوں بیان کیا ہے: وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًامِّنْ اَھْلِیْ ھٰرُوْنَ اَخِی اشْدُدْ بِہٖٓ اَزْرِیْ وَاَشْرِکْہُ فِیْٓ اَمْرِیْ کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْرًا وَّ نَذْکُرَکَ کَثِیْرًا۔ (اور میرے خاندان سے میرے لیے ایک وزیر مقرر فرما میرے بھائی ہارون کو اوراِس کے ذریعے میری پشت کو مضبوط فرما اور اِسے میرے کام میں شریک فرما، تاکہ ہم کثرت کے ساتھ تیری تسبیح کریں اور بہت زیادہ تجھے یاد کریںسورۂ طہ ۲۰آیت ۲۹)
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی کثیر تعداد تھی، اورہم اکابر اصحاب کو انتہائی تکریم اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، اِ س کے باوجود آخر حضرت علی ؑ کے بارے میں رسولِ خداؐ کے اِس قدرارشادات کی کیاوجہ ہے؟ اور اِس معاملے کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے؟
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں سے فقط یہ چاہتے تھے کہ وہ قلبی طور پر علی ؑ سے محبت کریں؟ اِس مقصدکے لیے اِس قدرجدوجہداور کوشش کی قطعاً ضرورت نہ تھیعلی ؑ ہر اُس شخص کواپنی محبت میں گرفتارکرسکتے ہیں جو اُنھیں جانتا اور پہچانتا ہےکیونکہ اُن میں جو روحانی، علمی، جہادی اور انقلابی خصوصیات پائی جاتی ہیں، اُن کی موجودگی میں کسی کے پاس اُن سے محبت کرنے کے سوا کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں، مگر یہ کہ اُس کا دل بیمار ہو۔
علی ؑ ایک لائقِ محبت انسان
ہمارے پاس علی ؑ سے محبت کے سوا کوئی اور راستہ ہی نہیںانسان کوئی بھی ہو، چاہے شیعہ ہو، سنّی ہو یا عیسائی، اگر حضرت علی ؑ کی تمام معنوی خصوصیات، اخلاص، جہاد اور علم سے واقف ہو، تو اِس عظیم شخصیت کے سامنے سرِ تعظیم جھکانے پر مجبور ہو جائے گانبی کریم ؐ کے سوا انتہائی مشکل ہے کہ علی ؑ کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت مل سکے جس میں یہ تمام خصوصیات یکجا ہوںاِسی بنا پر عیسائی شاعر پولس سلامہ یوں قصیدہ خواں ہے کہ :
یا سماء اشھدی و یا ارض قرّی
واخشعی انی ذکرت علیا
اے آسماں شہادت دینا اور اے زمین گواہ رہنا اور سرجھکالینا کہ میں علی ؑ کا ذکر چھیڑ رہا ہوں۔ (۱)
ایسا شخص جو صاحبِ شعور ہو، جو وسیع القلب ہو اور جو ایک انسان کی طرح سوچتا ہو، وہ از خود علی ؑ سے محبت کرے گااُسے اِس محبت کے لیے قرآنِ کریم اور پیغمبر اسلاؐم کی تاکید اور نصیحت کی ضرورت نہیں ہوگیبلکہ وہ لاشعوری طور پر اپنی روح، اپنے قلب اور اپنے احساسات کو علی ؑ کی جانب مائل محسوس کرے گا، اور انتہائی عشق اور محبت کے ساتھ اُن کے لیے اپنے دل کے دروازے کھول دے گا۔
لہٰذا غدیر کے دن حضرت علی ؑ کی ولایت کااعلان مکمل طور پرایک قدرتی بات ہےاِسی بنا پر خداوندِ عالم نے اِس موقع پر فرمایا: یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ (اے رسول ! آپ اُس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہےسورۂ مائدہ ۵آیت ۶۷)
اے پیغمبرؐ! آپ پر آپ کے پروردگار کی جانب سے نازل ہونے والا پیغام یہ ہے کہ علی ؑ کی ولایت کو قائم کر دیجیےکیونکہ ولایت کا مسئلہ صرف ایک قانونی حکم نہیں ہے، جس میں تاخیر و التوا اور سستی کی گنجائش ہو۔ بلکہ یہ اسلام کے مستقبل اور اُس کی آئندہ پیشرفت سے تعلق رکھنے والا مسئلہ ہےوہ اسلام جس کے لیے ایک ایسے رہنما کی قیادت ضروری ہے جو تمام میدانوں اور ہر پہلو میں رسولِ مقبول کی قیادت کا تسلسل ہو، تاکہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے۔
۱مرزا اسد اللہ خاں غالب بھی اسی اندازمیں کہتے ہیں:
کس سے ہوسکتی ہے مدّاحئ ممدُوحِ خدا کس سے ہوسکتی ہے آرائشِ فردوسِ بریں