علی ؑ مجسم حق
ولایتِ غدیر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
علی ؑ سر تا پا حق تھےجب ہم اُن کے فکر و شعور، احساسات، اخلاق، سیرت اور عبادت کا بغور مطالعہ کرتے ہیں، تو اُنھیں خداوندِ عالم کا شیفتہ اور عاشقِ الٰہی پاتے ہیں ایک ایسا عشق جس کی کوئی حد اور سرحد نہیں۔
علی ؑ اپنی مناجات میں یوں گویا ہوتے ہیں: فَھَبْنِیْ یٰآ اِلٰھِیْ وَسَیِّدِیْ وَمَوْلَایَ وَرَبِّیْ، صَبَرْتُ عَلٰی عَذَابِکَ، فَکَیْفَ اَصْبِرُ عَلٰی فِرَاقِکَ؟ (بارِالٰہا، میرے آقا، میرے مولا، میرے پروردگار! اگر میں نے تیرے عذاب پر صبر کربھی لیا، تو بھلاکس طرح تیری دوری اورتیرے فراق کو برداشت کرسکوں گا؟ )
عاشق اپنے معشوق کے فراق، اُس سے دوری اور اُس سے فاصلے کی تاب نہیں رکھتا۔
وَھَبْنِیْ صَبَرْتُ عَلٰی حَرِّنَارِکَ، فَکَیْفَ اَصْبِرُ عَنِ النَّظَرِاِلٰی کِرَامَتِکَ؟ (بارِالٰہا! مانا کہ میں تیرے جہنم کی تپش کو برداشت کر لوں گا، لیکن بھلاکس طرح برداشت کروں گا کہ تو مجھ سے اپنی نگاہِ لطف و کرم کو پھیر لے؟ )
جب ہم حضرت علی ؑ کے بارے میں غور و فکر کریں اور اُنھیں ”کون برتر ہے“ کی بے معنی اور فضول بحثوں سے باہر نکال لیں، تو اِس جانب متوجہ ہوتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ کے بعدکوئی علی ؑ سے موازنے کے قابل ہی نہیں اور فضائل میں کوئی علی ؑ کی نظیر ہی نہیں۔
ہم یہ باتیں اِن کی محبت، اِن کے عشق یا اِن کے بارے میں تعصب سے مغلوب ہوکر نہیں کر رہےبلکہ اِن باتوں پر ایک حقیقت کے طور پر ایمان رکھتے ہیںکیونکہ مسلمانوں کے درمیان بجز نبی ؐ کے علی ؑ کے سوا کوئی ایسا شخص تلاش نہیں کیا جا سکتا جس کے دل اور روح میں اسلام نے اِس طرح نفوذ کیا ہو اور عمل میں جہاد، معنویت، تواضع اور جو کچھ اسلام سے تعلق رکھتا ہے تمام معنی میں وہ اِس کا آئینہ دار ہوکیونکہ وہ تمام خوبیوں کے حامل ہیں اور اِس امر میں کوئی اُن کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکا۔
اِس سے پہلے اپنی گفتگو میں ہم نے اِس امر کا تذکرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ کیوں صرف علی ؑ یہ لیاقت رکھتے ہیں، کوئی اور اِس اہلیت کا حامل نہیں؟ اب یہاں ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ؐاپنی رسالت کے ابلاغ کے بعد اپنے تمام منصوبوں کو(جن میں بڑی تعداد میں لوگوں کو توحید کی دعوت، ساری دنیا میں اسلام کا فروغ اورخود مسلمانوں کے وجود میں ایمان کو راسخ کرنا شامل تھا) پور ی طرح جامۂ عمل نہیں پہنا سکے تھے۔ کیونکہ اِن منصوبوں کی تکمیل میں بکثرت جنگیں مانع رہیںنیز خود مدینہ میں منافقین اور یہودیوں کی طرف سے پیدا کردہ داخلی مشکلات اور اِسی طرح مکہ کی بے پناہ صعوبتیں پیغمبرؐکے بہت سے منصوبوں کے جامۂ عمل پہننے میں رکاوٹ بنیں۔ لہٰذالازم تھا کہ پیغمبرؐکے بعد علی ؑ جیسی کوئی شخصیت اُن کے ادھورے منصوبوں کو آگے بڑھائے۔