ولایتِ غدیر

سوال نمبر ۱۔ ہم کس طرح ایک غیر شیعہ شخص کو اِس بات کا قائل کرسکتے ہیں کہ آیتِ قرآن: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا۔ (آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا ہے اورتمہارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا ہےسورۂ مائدہ ۵آیت۳) پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے امام علی ؑ کے لیے بیعت لینے کی قرآنی دلیل ہے؟

جواب: یہ آیۂ شریفہ عمومیت کی مالک ہے، لیکن جب ہم اِس بارے میں سنت، تفسیر اور مناظرے کی کتب میں تلاش کرتے ہیں، تواُن میں اور سیرتِ نبوی ؐمیں ایسی بکثرت احادیث پاتے ہیں جو کہتی ہیں کہ یہ آیت غدیر کے دن اُس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اسلامؐ نے ولایتِ علی ؑ کے بارے میں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاد یا۔

اِس بنیاد پر واقعۂ غدیر شیعہ یا غیر شیعہ سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ ایک علمی مسئلہ ہے جس کی حقیقت کو اِس کے بارے میں موجودمصادر(sources) پر تحقیق کے ذریعے واضح کرنا چاہیےہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اِس معاملے میں موجودمصادر کا اِس کے متضاد دوسرے مصادر سے موازنہ کیا جانا چاہیے، تاکہ ہر اُس علمی تحقیق کی مانند جو قطعی نتیجے تک پہنچنے کے لیے کی جاتی ہے، اِس تحقیق کے ذریعے سے بھی ہم ایک مفید اور قابلِ قبول نتیجے تک پہنچ سکیں۔

ہم اسلامی اور غیر اسلامی مسائل میں ہمیشہ دوسروں کو اِس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ (چاہے شیعہ ہوں چاہے سنّی)زیر بحث موضوع کا اُس خاص زاویے سے جائزہ نہ لیں جسے وہ پسند کرتے ہیں اور دوسروں کواُس کی تلقین کرتے ہیں، بلکہ موضوع کا صرف ایک ایسے مسلمان ہونے کے ناطے جائزہ لیں جو اِس بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر جاننا چاہتا ہے۔

شیعہ اورسنّی میں سے کسی کا بھی اپنے نظریات کو اپنی خاص فکرکی بنیاد پر ثابت کرناایک مکمل طورپرغلط بات ہے، بلکہ اُنھیں چاہیے کہ اپنی خاص فکر کو پیشِ نظر مسئلے کے بارے میں لچکدار بنائیں اور اس آیۂ قرآن کو سامنے رکھیں جو کہتی ہے: فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ۔ (اگرآپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے، تو اِس میں خدااور رسول کی طرف رجوع کرو۔ سورۂ نسا ۴آیت ۵۹) یعنی اسلام کو سمجھنے اور اسلام کو درست طریقے سے پہچاننے کے لیے ہمارے سامنے راستہ موجود ہے اور ہمیں چاہیے کہ اپنے مذہبی نقطۂ نظر کی تصدیق اور تائید کے لیے کتابِ خدا سے رجوع کریں۔

لیکن اگر ہم ایسے جاہل افراد کی طرح بحث و تکرار کریں جن میں سے ہر ایک دوسرے پراپنا نقطۂ نظر ٹھونسنے کی کوشش کرتاہے، تو یہ ایک غلط طرزِ عمل ہے۔ کیونکہ یہ روش تعصب پیدا کرتی ہے، جو انسان کو معاملات کے بارے میں بے بنیاد اور بے اساس سوچ بچار پر ابھارتا ہے۔

لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم اُس شخص کی مانند سوچ بچار کریں جو حقیقت کا متلاشی ہے، نہ کہ ایسے شخص کی طرح جو زبردستی اپنی بات منوانا چاہتا ہےہم دیکھتے ہیں کہ خدااپنے رسول کو اندازِ گفتگو کی تعلیم دیتا ہے اور فرماتا ہے: وَاِ نَّآ اَوْاِیَّا کُمْ لَعَلٰی ھُدًی اَوْفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(ہم یا تم (یا تو) ہدایت پرہیںیا کھلی گمراہی میںسورۂ سبا ۳۴آیت ۲۴) کیا پیغمبرکواپنے حق پر ہونے اور اپنے مخالفین کے باطل پر ہونے کے بارے میں کوئی شک تھا؟ ہرگز نہیں! پیغمبرتووہ تھے جن کے بارے میں خدا کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖٓ۔ (اورجو شخص سچی بات لے کر آیا اور جس نے اُس کی تصدیق کی۔ سورۂ زمر ۳۹ آیت ۳۳) دراصل یہاں خدا پیغمبر ؐسے چاہتا ہے کہ وہ اپنے دشمن یا اختلافِ رائے رکھنے والے ہر شخص سے اُس شخص کی مانند گفتگو کریں جسے زیر بحث مسئلے کے بارے میں شک ہے، اوراِس طرح مسئلے کو بحث اور تحقیق کا موضوع بنائیں۔ نیز مقابل فریق بھی آپ کے ساتھ مسئلے پر اِس طرح بحث و جدال کرے جیسے وہ اُس کے بارے میں شک و شبہے کا شکار ہے۔ اِس طرح تم دونوں ہی حقیقت کا کھوج لگانے کی راہ پر ایک ساتھ چلتے ہوئے نتیجے تک پہنچو گےایسا نہیں ہو گا کہ تم اپنی بات اُس پر مسلط کرنا چاہو اور و ہ اپنی بات تم پر مسلط کرنا چاہےکیونکہ اِس سے تعصب اور خود پسندی کا آغاز ہوتا ہے۔

سوال نمبر ۲۔ وہ کیا عوامل تھے جو حدیثِ غدیر کو نظر انداز کرنے کا سبب بنے؟

جواب: اُس دور کے اسلامی معاشرے میں پائی جانے والی بہت سی خرابیاں غدیر جیسے اہم موضوع پرپردہ ڈالنے کا سبب بنیں۔ جب ہم خلیفۂ دوّم کا یہ کلام سنتے ہیں، جس میں اُن کا کہنا تھا کہ: لَوْوَلَّیھٰا عَلِیٌّ لَحَمَلَھُمْ عَلیٰ الْمُحَجَّۃِ الْبَیْضَاء۔ (اگر علی ؑ اسلامی معاشرے کے حکمراں ہوتے، تو وہ معاشرے کو سعادت اور خوش بختی کی جانب لیجاتے) نیز جب ہم یہ سنتے ہیں کہ کہا جاتا تھا کہ: علی ؑ نے اپنی جوانی میں قریش کے سرداروں کے سر قلم کیے ہیں، لہٰذا قریش علی ؑ کو قبول نہیں کریں گے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ توہماری سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح حدیثِ غدیر کو نظرانداز کیا گیااور کس طرح اِس مسئلے میں شبہ پیدا کیا گیا!

اگر ہم حدیثِ غدیر کے چھپائے جانے کی وجہ جاننا چاہتے ہیں، تو ہمیں اِس کے معاصر دور کے حالات و واقعات کا جائزہ لینا چاہیے، اور دیکھنا چاہیے کہ کس طرح اسلامی معاشرے میں یکلخت اور ہنگامی انداز میں بعض واضح اور آشکارامداخلتیں کی گئیں اور بعض مسائل پرپردہ ڈال دیا گیا۔

میں نے واقعۂ غدیر میں غور وفکر کے دوران، اُس دور کے جوانوں اور بزرگوں کے نزدیک حق کو باطل اور باطل کو حق میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے، بالخصوص جب میں نے یہ بات محسوس کی کہ حقیقی اہلِ مطالعہ، سوال کرنے والے اور تحقیق کرنے والے لوگ بہت کم ہیںلہٰذا غدیر کے مخفی رہ جانے کی وجہ بخوبی واضح ہے اور یہ بات بھی عیاں ہے کہ کس طرح بیچ آسماں میں چمکنے والے سورج کی مانند انتہائی واضح اور آشکارا امور و مسائل تھوڑے ہی عرصے بعد مکمل طور پر تبدیل ہو جاتے ہیں۔

سوال نمبر ۳۔ شہید سید محمد باقرالصدرعلیہ الرحمہ کا کہنا تھا کہ وہ اہم ترین اور نمایاں ترین بیماری جس میں امام علی ؑ کے دور کے مسلمان مبتلا تھے، وہ دودلی اور شک کی بیماری تھییہ شک اور شبہ کیسے پیدا ہوا؟ کس طرح اُس نے جڑ پکڑی؟ باوجود اِس کے کہ امام علی ؑ پیغمبر ؐکے بعد کامل ترین مسلمان کا مظہر تھے۔

جواب: تمام انسانوں میں اسلام یکساں طور پر سرایت نہیں کرتاکبھی اُن میں اسلام مکمل طور پر سرایت کر جاتا ہے، کبھی آدھا اور کبھی اِس سے بھی کماِس حوالے سے متعدد عوامل ہیں جو انسان پر منفی اثر ڈالتے ہیںمسلمانوں کے درمیان خود پیغمبر اسلام ؐکے زمانے میں شک و شبہ پایا جاتا تھامثلاً جس وقت جنگِ حنین کے بعد عباس بن مرداس، پیغمبر اسلام ؐکے ساتھ مجاہدین کومالِ غنیمت کی تقسیم میں مصرو ف تھے، باجود یہ کہ پیغمبرؐ مالِ غنیمت کی تقسیم سے اچھی طرح واقف تھے، عباس بن مرداس کا خیال تھا کہ وہ مالِ غنیمت میں سے دوسروں سے زیادہ حصے کے حقدار ہیں لہٰذا اُنھوں نے رسولِ مقبولؐ سے کہا: آپ ؐعدل سے کام لیجیے؟ پیغمبر ؐ نے فرمایا: وَیْحَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ اِذَا لَمْ اَعْدَلْ؟ (وائے ہو تم پر! اگر میں عدل سے کام نہیں لیتا تو کون عدالت سے کام لے گا؟ )

اِسی طرح منافقین اسلامی معاشرے میں موجود پیچیدگیوں کی بنا پر شک و شبہے کا شکار ہو جاتے تھےیہاں تک کہ ہم آنحضرت کی زندگی کے آخری ایام اور آپ کی رحلت کے بعد دیکھتے ہیں کہ لوگ کس طرح معاملات میں شکوک و شبہات پیداکرنے کی کوشش کیا کرتے اور اسلامی معاشرے میں شک و شبہے کا بیج بوتے تھےحدیثِ غدیر کا شمار پیغمبر اسلام ؐکے آشکارا ترین اور واضح ترین کلام میں ہوتا تھا، اِس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اُس کے بارے میں مختلف باتیں کی گئیں اور کیسے کیسے اظہارِ خیال کیے گئے، جن کی وجہ سے معاشرے میں اُس کے بارے میں شک و شبہ پیدا ہوااور مسئلے کو اُس کے اصل مقصد سے دور کر دیا گیایہاں تک کہ پیغمبر اسلامؐپر واضح ہوگیاکہ جس بات کو آپؐنے صراحتاًلوگوں کے سامنے بیان کیا ہے، لوگ اُسے ماننے پر تیار نہیں، اور ایسی باتیں کر رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

لہٰذا آپ ؐنے فرمایا: اَتُوْنِیْ بِدَوَاۃٍ وَکَتْفٍ اَکْتُبُ لَکُمْ کِتَابًالَنْ تَضِلُّوْ بَعْدِی اَبَدًا۔ (مجھے قلم اور کاغذ دے دو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی تحریرلکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو )

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس درخواست کے بعدایک شخص نے کہا :اِنَّ النَّبِیَ لَیَھْجُرْ(پیغمبرؐ }نعوذباﷲ{ ہذیان بول رہے ہیں)

اِس طرزِ عمل کامظاہرہ اِس لیے کیا گیا تاکہ جو چیزپیغمبر تحریر کرنا چاہتے ہیں اُس کے بارے میں شک و شبہے کا بیج بو دیا جائے روایات بتاتی ہیں کہ اِس کے بعد پیغمبرؐ سے کہا گیا کہ: کیا ہم آپ کے لیے قلم و کاغذ لے آئیں؟ اِس پرپیغمبرؐ نے فرمایا: کیا جو کچھ تم کہہ چکے ہو اُس کے بعد بھی؟ }یعنی تمہاری طرف سے میری ذہنی صحت کے بارے میں شک و شبہے کا بیج بو دینے کے بعد اب میرا کچھ تحریر کرنا فضول ہو گیا ہے{ اِسی دوران ایک شخص آیا اور اُس نے کہا کہ پیغمبر ؐبے ہوش ہیں اور ہذیان بول رہے ہیں۔ (نعوذ باللہ) اِس طرح مسلمان ایسی بکثرت مشکلات اور پیچیدگیوں کا شکار تھے جو واضح اور آشکارا حق و حقیقت کے چھپ جانے کا سبب بنیںیہی وجہ تھی کہ حضرت علی ؑ کے دورِ حکومت میں ایسے شکوک و شبہات وجود میں آئے جو پیغمبر اسلام ؐکے دورِ حیات میں موجود شکوک و شبہات سے کہیں زیادہ اور شدید تر تھےاِس مقام پر شک و شبہ کرنے اور نہ کرنے کا مسئلہ انسان کی طبیعت کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ اِس کا تعلق اُن اجتماعی پیچیدگیوں اور مشکلات سے ہے جو شواہد اور اسنادکو خلط ملط کر دیتی ہیں اور آخر کار مسئلے کو اپنے اصل راستے سے دور کرنے کا سبب بنتی ہیں۔

ہم اِس مشکوک صورتحال کو بہت سی مسلمان انقلابی شخصیات میں دیکھتے ہیں اِسی حسد، دشمنی، عداوت اور چغل خوری کی بنا پر حق اپنی شفافیت سے محروم ہو جاتا ہے اور لوگ تصور کرنے لگتے ہیں کہ حق باطل ہے اور باطل حق، اور باطل کے خلاف جنگ اور جدو جہد کے نام پر حق پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ یا حق کی طرفداری کے نام پرباطل کے پشت پناہ بن جاتے ہیں اِس طرح کی مثالیں معاصر دور میں بھی بکثرت پائی جاتی ہیں۔

سوال نمبر ۴۔ آپ حضرت علی ؑ کی شرعی اور سیاسی امامت ثابت کرنے کے لیے حدیثِ غدیر سے استدلال کرتے ہیں۔ اگر اِس حدیث کا پیغمبرؐ سے صادر ہوناثابت ہو بھی جائے، تب بھی اِس حدیث سے یہ معنی نہیں نکلتے؟

جواب: حدیثِ غدیر ایک ایسی حدیث ہے جو شیعہ اورسنّی دونوں کے نزدیک متواتر ہےاگر کوئی شخص دلیل اور برہان کے ساتھ بحث کرنا چاہتا ہے، تو اِس سلسلے میں صاف اور واضح دلائل موجود ہیںکیونکہ پیغمبراسلامؐ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادکے ہمراہ حجۃ الوداع سے واپس لوٹ رہے تھے۔ جب مسلمانوں کے مختلف قافلوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جانے کا مقام آیا، تو اِس موقع پر رسول اﷲؐ نے ظہرکے وقت لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا اور حضرت علی ؑ کا ہاتھ تھام کر اُسے اتنا بلند کیا کہ آپ ؑ کی بغل کے نیچے کی سفیدی نمایاں نظر آنے لگیاِس کے بعد فرمایا: أَلَسْتُ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ؟ (کیا میں مؤمنین پر خود اُن سے زیادہ حق نہیں رکھتا) سب نے کہا: اَللَّھُمَّ بَلٰی۔ (بارِ الٰہا! ایسا ہی ہے) اِس کے بعد آنحضرتؐ نے فرمایا: اَللَّھُمَّ اشْھَدْ۔ ( بارِ الٰہا! گواہ رہنا) اور پھر فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ فَھٰذا عَلیٌّ مَولاٰہُ۔ (جس کسی کا میں مولا ہوں یہ علی بھی اُس کے مولا ہیں)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہاں مولا سے پیغمبر کی مراد یہ ہے کہ جس طرح تم مجھ سے محبت کرتے ہو اُسی طرح علی ؑ سے بھی محبت کروکیونکہ مولا کے معنی محبت ہیں۔

اِس مقام پر بعض وضاحتوں کا ذکر لازم ہے :

اوّلاً یہ کہ: جب ہم اِس واقعے کے ظہور پذیر ہونے کی صورت اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے لوگوں کو اُس شدید گرمی اور تپتے صحرا میں جمع کرنے کی طرف توجہ دیتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پیغمبر ؐنے اِن حالات میں لوگوں کو فقط یہ کہنے کے لیے روکا تھا کہ : ”جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے، اُسے چاہیے کہ وہ علی ؑ سے بھی محبت کرے؟“ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ لہٰذا جن حالات میں یہ عمل انجام دیا گیا اُنھیں دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ رسولِ مقبول کوئی انتہائی اہم بات بیان کرنا چاہتے تھے۔

ثانیاً یہ کہ: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرماناکہ: أَلَسْتُ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ؟ (کیا میں مؤمنین پر خود اُن سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ ) ولایت اور حاکمیت کا مفہوم دیتا ہے، بالخصوص جبکہ لفظ ”مولا“ سے مؤمنین پر خود اُن سے زیادہ حقدار ہونے کے معنی حاصل ہوتے ہیں۔ یعنی لوگوں کا ولی اور سرپرست ہونااور یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے حدیثِ غدیر سے حضرت علی ؑ کی امامت پر استدلال کیا جاتا ہے۔

سوال نمبر ۵۔ حدیثِ غدیر سے تعلق رکھنے والی روایات کے تواتر سے شک و شبہ ختم ہو جاتا ہے اور اِس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ روزِ غدیر حضرت علی ؑ کی جانشینی کا اعلان کیا گیا۔ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ آخر کیوں حضرت علی ؑ نے خلافت کے اپنے اِس حق کے حصول کے لیے کھل کر اِس حدیث سے استفادہ نہیں کیا؟ اِس بارے میں آپ کی رائے کیاہے؟

جواب: حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: أَمَاوَاللّٰہِ لَقَدْ تَّقَمَّصَھَا فُلانٌ وَاِنَّہٗ لَیَعْلَمُ اَنَّ مَحَلِّیْ مِنْھَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَحْیَیَنْحَدِرُ عَنِّی السَّیْلُ وَلاَ یَرْقَی اِلَّی الطَّیْرُ۔ (خداکی قسم!فلاں نے خلافت کے لباس کو اپنے بدن پرچڑھا لیاحالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میراخلافت میں وہی مقام ہے جوچکّی کے اندر اُس کی کیلی کاہوتا ہےمیں وہ (کوہِ بلندہوں) جس پر سے سیلاب کاپانی گزر کر نیچے گرجاتاہے اور مجھ تک پرندہ پَر نہیں مار سکتا۔ نہج البلاغہ۔ خطبہ۳)

یہ کلام ایک طرف تو اِس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ حضرت علی ؑ نے خلافت کے بارے میں اشارتاً کنایتاً گفتگو فرمائی ہے، اوردوسری طرف تاریخ اِس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حضرت علی ؑ نے (اپنے دورِ خلافت میں) اُن اصحابِ رسول کو جنہوں نے غدیر کے دن پیغمبر کی گفتگو سُنی تھی، اِس کی گواہی دینے کے لیے جمع کیا اوربکثرت اصحاب نے گواہی دی کہ اُنھوں نے اﷲ کے رسول ؐ سے یہ حدیث سُنی ہےصرف ایک صحابی نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور حضرت علی ؑ کے حق میں گواہی نہیں دی، جو بعد میں جُذام کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ : ”میں خدا کے ایک پرہیز گار بندے کی دعوت قبول نہ کرنے کی وجہ سے اِس بیماری میں مبتلا ہوا ہوں۔“ کیونکہ حضرت علی ؑ نے دعا فرمائی تھی کہ جو کوئی شہادت نہ دے وہ جُذام کی بیماری میں مبتلا ہو جائے۔

امام ؑ نے اِس بارے میں بسا اوقات اشارتاً اور بعض اوقات کھلے الفاظ میں گفتگو فرمائی ہے، کیونکہ آپ ؑ علم و دانش اورحکمت و دانائی کی بنیاد پراور اسلام و مسلمین کی مصلحت اور مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسائل سے نمٹتے تھے۔

سوال نمبر ۶۔ اگرآج حضرت علی ؑ ہمارے درمیان ہوتے، تو کیا اُن مسلمان جوانوں سے خوش ہوتے جو دنیا کے مختلف گوشوں میں استکبار کے آتشیں ہتھیاروں کے مقابل برسرِ پیکار ہیں؟ اوراگر آپ ؑ ہمارے درمیان ہوتے، تو آپ ؑ کا اگلا قدم کیا ہوتا اوروہ مسلمان جوانوں کے ہمراہ کون سی راہ پر گامزن ہوتے؟

جواب: اگرآج حضرت علی ؑ ہمارے درمیان ہوتے، تو خود اُنھوں نے جس راہ کا آغاز کیا تھا اُسی پر گامزن ہوتےکیونکہ علی ؑ نے جس وقت لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دی اور جب راہِ خدامیں برسرِپیکارہوئے اورجب خداکی خاطراذیت و آزارپرصبر کیا اورجب امتِ اسلامیہ کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانے والوں کے ساتھ حکمت و دانائی پر مبنی طرزِ عمل اختیار کیا، تو آپ ؑ ؑ نے یہ سب کچھ اسلام کے وسیع مفاد اور عظیم مصلحتوں کی خاطر کیا تھا۔

اگر حضرت علی علیہ السلام اِس دور میں زندگی بسر کر رہے ہوتے، تو بے شک جہادو مبارزے میں مصروف یہ جوان علی ؑ کے اصحاب اور مجاہدین میں سے ہوتے اور یقیناًیہ جوان امام ؑ کے منصوبے اور پلان کو سامنے رکھتے ہوئے عمل کرتے۔

سوال نمبر ۷۔ خلفا کی حکومت کے پچیس سالہ دور میں حضرت علی ؑ کا کیا کردار تھا؟

جواب: حضرت علی علیہ السلام نے اُس دور میں عظیم ترین کردار ادا کیاکیونکہ وہ اِس بات پر یقین رکھتے تھے کہ وہ خلیفہ ہوں یا نہ ہوں امیر المومنین ہیں، وہ منصبِ خلافت پر ہوں یا نہ ہوں اسلا م کے حوالے سے اُن پر ذمے داری عائد ہوتی ہےاِسی بنیاد پر اُنھوں نے اُن خلفا کے ساتھ بھی تعاون کیاجنہوں نے اُنھیں خلافت سے دور رکھا، اورآپ ؑ نے بغیرکسی توقع اور مفاد کے اُنھیں اپنے مشوروں اور ضروری نصیحتوں کے ذریعے مشکلات سے نکالا۔

کیونکہ حضرت علی ؑ اور دوسروں کے درمیان فرق یہ ہے کہ علی ؑ نے اپنا پورا وجود اسلام کے لیے وقف کر دیا تھا، اور آپ ؑ کی ذمے داری وہی تھی جو پیغمبرکی ذمے داری تھی (البتہ آپ ؑ پیغمبرؐنہ تھے) اِسی لیے آپ ؑ نے فرمایاتھا کہ: وَاللّٰہِ لَاُ سْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُوْرِالْمُسْلِمِیْنَ، وَلَمْ یَکُنْ فِیْھَا جَوْرُاِلَّاعَلَیَّ خَاصَّۃٌ۔ (خدا کی قسم! جب تک مسلمانوں کے امور کانظم ونسق برقراررہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی میں خاموشی اختیار کیے رہوں گا۔ نہج البلاغہ۔ خطبہ۷۲)

اِس طرح پتا چلتا ہے کہ حضرت علی ؑ اپنے ماقبل کے تمام خلفا کو نصیحت کیا کرتے تھے۔ نقل کیا جاتا ہے کہ امیر المومنین ؑ نے حضرت عثمان کا دفاع کیا، حتیٰ اُن کے تحفظ کے لیے امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو روانہ کیا۔ آپ ؑ کے اِس عمل کا مقصد یہ نہیں کہ آپ ؑ اپنے حق سے کنارہ کش ہو گئے تھے، یا آپ ؑ نے اُسے بھلادیا تھا، بلکہ آپ ؑ نے اسلام اور امتِ اسلامیہ کی مصلحت کا خیال رکھالہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم حضرت علی ؑ سے وسیع القلبی اور عقیدے کی راہ میں ثابت قدمی کاسبق حاصل کریں، حضرت علی ؑ نے اپنی خلافت سے قبل اور اُس کے بعد جو طرزِ عمل اختیارکیا اُس سے ہمیںیہی سبق ملتاہے۔

سوال نمبر ۸۔ بعض محققین حضرت علی ؑ کی امامت کے بارے میں نقل ہونے والی روایات کی تفسیر اِس طرح کرتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی ؑ صرف ایک فکری اور نظریاتی رہنما ہیں، مسلمانوں کے سیاسی معاملات اورخلافت سے اُن کا کوئی تعلق نہیں اِس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

جواب: حضرت علی ؑ کو محض ایک نظریاتی اور فکری رہنما قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ آپ ؑ فقط ایک عالم اور دانشور کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ ؑ کی امامت اور رہبری ایک سیاسی رہبری ہےاِ س کی دلیل حدیثِ غدیر ہے، جس کا آغازپیغمبرؐ نے اِس جملے سے کیا تھا کہ: أَلَسْتُ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ؟ (کیا میں مؤمنین پر خود اُن سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ ) آنحضرت کا یہ ارشاد، مسلمانوں کی جانوں پر آپ کی حاکمیت کی دلیل ہے، وہ مؤمنین پر خود اُن (مؤمنین) سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوقرآن میں دعوت دینے والا، شہادت دینے والا اور پیغمبر ؑ قراردیاگیاہے: فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌلَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ۔ (آپ اُنھیں نصیحت کیجیے کہ بے شک آپ کا کام نصیحت ہے، آپ اُن پر مسلط نہیں ہیں۔ سورۂ غاشیہ۸۸آیت۲۱) اِسی طرح قرآنِ کریم میں پیغمبرکو اور بھی عناوین کامالک قرار دیا گیا ہے: اِنَّآاَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًاوَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاوَّدَاعِیًااِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًامُّنِیْرًا۔ (اے رسول! ہم نے آپ کوگواہ، بشارت دینے والا، عذابِ الٰہی سے ڈرانے والا، نیز خدا کی طرف اُس کی اجازت سے دعوت دینے والا او رروشن چراغ بناکربھیجا ہے۔ سورۂ احزاب۳۳آیت۴۵، ۴۶) ”سِرَاجاً مُّنِیْرًا“سے مراد ایک فکری اور روحانی بصیرت کی مالک شخصیت ہے، جولوگوں کاتزکیۂ نفس کرتی اور اُنھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتی ہے: یُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔

ایک دوسرے مقام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کاعنوان حکومتی ہے، جو پیغمبر کی سیاسی شخصیت کی جانب بھی اشارہ ہےآپ کا یہ عنوان خداوندِ عالم کے اِس کلام میں نمایاں ہے کہ: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ۔ (رسول، مؤمنین پر خود اُن سے زیادہ حق رکھتا ہے۔ سورۂ احزاب۳۳۔ آیت۶) اِسی وجہ سے پیغمبرؐ نے اِن حالات میں فرمایا کہ: کیا میں مؤمنین پر خود اُن سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا: اَللَّھُمَّ اشْھَدْ(بارِالٰہا گواہ رہنا) اِ س کے بعد رسولِ مقبول ؐنے فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ فَھٰذا عَلیٌّ مَولاٰہُ۔ (جس کسی کا میں مولا ہوں، یہ علی بھی اُس کے مولا ہیں) باالفاظِ دیگر ہر وہ شخص جس پر میں خود اُس سے زیادہ حق رکھتا ہوں، یہ علی ؑ بھی اُس پر خود اُس سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اِس کے بعد فرمایا: اللَّھمَّ والِ مَن والاہُ۔ (بارِ الٰہا! جو کوئی علی ؑ سے محبت کرے، تو بھی اُس سے محبت فرما)

یہ کلمات شیعہ اورسنّی کتب میں مختلف طریقوں سے نقل کیے گئے ہیںلہٰذا سب پرلازم ہے کہ وہ اِس موضوع کا جائزہ لیں، کیونکہ وہ بات جس کے ہم شیعہ معتقد ہیں، وہ کلامِ الٰہی میں بھی موجود ہے : یٰٓاَ یُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُ نْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۔ (اے پیغمبر! آپ اُس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیاگیاہے، اوراگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا آپ نے اس کے پیغام کو پہنچایا ہی نہیں۔ سورۂ مائدہ۵۔ آیت ۶۷) اِس آیت کی تفسیر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ فرمان امیر المومنین حضرت علی ؑ کی ولایت کے اعلان کے بارے میں تھااورجب پیغمبر اسلامؐ نے خداوندِ متعال کے فرمان کے مطابق حضرت علی ؑ کی خلافت کا اعلان کر دیا، تو ایک اور آیت نازل ہوئی: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا۔ (آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا ہے اورتمہارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا ہےسورۂ مائدہ ۵آیت۳)

لہٰذا وہ امامت و رہبری جس کے ہم لوگ معتقد ہیں، وہ تمام میدانوں میں ایک روحانی، فکری، معنوی اور سیاسی رہبری ہےگناہوں سے حضرت علی ؑ کی عصمت اِس بات کی دلیل ہے کہ آپ ؑ کی فکر اور ولایت حق ہےخود آپ ؑ کا قول ہے کہ: مَا تَرَکَ لِیٰ الْحَقُّ مِنْ صَدِیْقٍ۔ (حق بات کہنے کی وجہ سے میرا کوئی دوست نہیں رہا) اِسی طرح پیغمبر اسلام ؐنے حق سے اُن کی وابستگی کے بارے میں فرمایا ہے کہ: عَلِیٌّ مَعَ الْحَقِّ وَالْحَقُ مَعَ عَلِیٍّ یَدُوْرُ مَعَہٗ حَیْثُمَا دَارٍ۔ (علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ اور حق ہمیشہ اُسی راہ پر گامزن ہوتا ہے جس راہ پر علی چلتے ہیں)

سوال نمبر ۹شیعہ اپنی تاریخی کتب میں ذکر کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ نے ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں کے سامنے حضرت علی ؑ کو اپنا جانشین منصوب کیا، جبکہ کُل چار یا پانچ افراد اِس موضوع پر علی ؑ کے ساتھ رہے۔ کیا شیعوں کی یہ بات عقل و منطق کی نگاہ میں قابلِ قبول ہے؟

جواب:اگر ہم حالات اور لوگوں کے افکار وخیالات کے بدل جانے اور اِس بات کا جائزہ لیں کہ کس طرح اسناد کو تبدیل کیا جاتا ہے، توہمیں اِس قسم کی بہت سی مثالیں خود اپنے زمانے میں نظر آئیں گی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی حقائق پراثرانداز ہونے والے بہت سے عوامل لوگوں کی پسند، ذوق اور رجحان سے تعلق رکھتے ہیںبہت سے ذرائع اور طرز ہائے عمل ( چاہے صرف زبانی باتوں کی حد تک ہی ہوں) مسئلے کو اپنے اصل راستے سے دور کرنے میں مؤثرثابت ہوتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ فَھٰذا عَلیٌّ مَوْلاٰہُ۔ (جس کسی کا میں مولا ہوں، یہ علی بھی اُس کے مولا ہیں) کیا اِس جملے کے معنی یہ ہیں کہ جوکوئی مجھ سے محبت کرتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ علی ؑ سے بھی محبت کرےیاجس کسی کا میں مددگار ہوں، علی ؑ بھی اُس کے مددگار ہیں؟ یا اِس کے معنی یہ ہیں کہ:جس کسی پر میں اُس سے زیادہ حق رکھتا ہوں، یہ علی ؑ بھی اُس پر خود اُس سے زیادہ حق رکھتے ہیں؟ اور اِس آخر ی جملے کے معنی حاکمیت ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ حدیثِ غدیر کا شمار اُن احادیث میں ہوتا ہے جنہیں شیعوں اور اہلِ سنت نے وسیع پیمانے پرنقل کیا ہے اور اِسی وجہ سے اہلِ سنت کی ایک بڑی تعداد اِس کی دلالت اور برہان کے بارے میں تو بحث کرتی ہے، لیکن اِس کی سند اور مدرک کے بارے میں تحقیق نہیں کرتی۔ جبکہ اِس مسئلے پر اِس حوالے سے بھی غور و خوض اور تحقیق کرنی چاہیے۔

جب ہم امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں، تو وہاں اِس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں میں اِن دونوں محترم ہستیوں کا عشق اور اُن سے قلبی محبت پیدا کی ہےاِن دونوں حضرات ؑ نے بھی اپنی سیرت اور عمل کے ذریعے اِس عشق کو گہرائی بخشی ہےمثلاً جب امام حسین ؑ اہلِ کوفہ کے بیعت کر لینے کے بعد اُن کی طرف روانہ ہوئے تو اثنائے راہ میں آپ ؑ کی ملاقات فرزدق سے ہوئیفرزدق نے امام ؑ کے سامنے اہلِ کوفہ کی حالت بیان کرتے ہوئے کہا کہ: قُلُوْبُھُمْ مَعَکَ وَسُیُوْفُھُمْ عَلَیَکَ۔ (اُن کے دل آپ ؑ کی طرف ہیں لیکن اُن کی تلواریں آپ ؑ کے خلاف)

اِس طرح کی صورتحال سے مشابہ صورتحال کا عراق، لبنان اور دنیا کے دوسرے مقامات پر بہت زیادہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہےکیونکہ عوام الناس زبردست جذبات واحساسات کے ساتھ کسی تحریک کا آغاز کرتے ہیں لیکن بہت زیادہ دیر تک اِن پُرجوش جذبات واحساسات کے ساتھ اُسے جاری نہیں رکھ پاتے۔ اِن باتوں سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کس طرح رسولِ خداؐ کے بعد واقعۂ غدیر کو نظر انداز کر دیا گیا۔

سوال نمبر ۱۰حضرت علی علیہ السلام اہلِ علم و دانش، اہلِ فہم و معرفت کے دوست اور نادان اور جاہل افراد کے دشمن ہیں آپ ؑ نے اِن جہلا کے خلاف تلوار بھی اُٹھائی، لیکن آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے ہیں کہ نادان اور نابلد دشمن کے ساتھ گفتگو اور مکالمہ کیجیے اور: اِدْفَعْ بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔ (تم بُرائی کاجواب ایسے طریقے سے دو جو بہت اچھاہے۔ سورۂ فصلت ۴۱آیت۳۴)

جواب :بھلا کون ہے جو حضرت علی ؑ کی طرح گفتگو اور مکالمے کا قائل ہو؟ امام ؑ نے خوارج کی جہالت کی وجہ سے اُن کے خلاف جنگ نہیں کی، بلکہ خباب اور اُن کی اہلیہ کے قتل اور مسلمانوں کے لیے راستے بند کرنے جیسے اُن کے حکومت مخالف اقدامات اُن کے خلاف جنگ کا سبب بنے جیسے کہ خود آپ ؑ نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے: لَا تَقْتُلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِیْ، فَلَیْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَاَخْطَأَہُ کَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَاَدْرَکَہُ(میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا۔ اِس لیے کہ جو حق کاطالب ہو اوراُسے نہ پاسکے، وہ اُس شخص کی مانند نہیں جو باطل ہی کی طلب میں ہواور پھراُسے پابھی لےنہج البلاغہ۔ خطبہ۵۹)

حضرت علی علیہ السلام نے خوارج کے ساتھ گفت وشنید کی اور اُن کے تمام نقطہ ہائے نظر کو سُنا اور اُن سے کہا کہ اگر میں گمراہ ہوں (جبکہ حضرت علی ؑ سے گمراہی اور غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) تو تم لوگ میری گمراہی کا بہانہ بنا کرکیوں اُمتِ محمدی کو گمراہ کر رہے ہو؟ آخر کیوں تم تمام لوگوں کے ساتھ برسرِ پیکار ہو؟

گفتگو اور مکالمہ کرنے والا کون شخص اِ س سطح پر گفتگو کرے گا؟

حضرت علی علیہ السلام کی بڑائی اور عظمت اِس میں ہے کہ آپ ؑ پیغمبر ؐکے بعدوہ ہستی ہیں جنہوں نے گفتگو کو مقدّم رکھا۔ آپ ؑ وہ ہستی ہیں جس نے دل و جاں سے اسلام کی خدمت کی : وَاللّٰہِ لَاُ سْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُوْرِالْمُسْلِمِیْنَ، وَلَمْ یَکُنْ فِیْھَا جَوْرُاِلَّاعَلَیَّ خَاصَّۃٌ(خدا کی قسم! جب تک مسلمانوں کے امور کانظم ونسق برقراررہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی میں خاموشی اختیار کیے رہوں گا۔ نہج البلاغہ۔ خطبہ۷۲)

لیکن ہمیشہ ہی سے زیادہ تر لوگوں کی مشکل یہ رہی ہے کہ وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ حضرت علی ؑ فقط تیر و تلوار سے کام لینے والے شخص تھے، اورآپ ؑ اپنے ہر دشمن کے ٹکڑے کر دیا کرتے تھے۔ یہ لوگ اِس بات سے غافل ہیں کہ خود حضرت علی ؑ نے اپنے ایک کلام میں فرمایا ہے کہ:

فَوَاللّٰہِ مَادَفَعْتُ الْحَرْبَ یَوْمًااِلَّاوَاَنَااَطْمَعُ اَنْ تَلْحَقٌ بِیْ طَآءِفَۃٌ فَتَھْتَدِیَ بِیْ وَتَعْشُوُا اِلَی ضَوْ ءِیْ وَ ذٰلِکَ اَحَبُّ اِلِیَّ مِنْ اَنْ اَقْتُلَھَا عَلٰی ضَلَا لِھَا وَ اِنْ کَانَتْ تَبُوْٓ ءُ بِٰاثَامِھَا۔

خداکی قسم ! میں نے جنگ کو ایک دن کے لیے بھی التوا میں نہیں ڈالا، مگر اِس خیال سے کہ شاید اِن میں سے کوئی گروہ میرے ساتھ آملے اور اِس طرح میرے ذریعے ہدایت تک پہنچ جائے اور اپنی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے میری روشنی کوبھی دیکھ لےاورمجھے یہ چیز اُنھیں گمراہی کی حالت میں قتل کر دینے سے زیادہ پسندہے۔ اگرچہ اپنے گناہوں کے ذمے دار بہرحال یہ لوگ خود ہی ہیں۔ (نہج البلاغہ۔ خطبہ۵۵)

امام علی علیہ السلام جنگ کے خواہش مند نہ تھے، بلکہ اُن کا مقصد گمراہ لوگوں کی ہدایت کرنا اور اُنھیں راہِ راست پر لانا تھالہٰذا اُن کی جنگیں دشمن پر دباؤ ڈالنے کے لیے تھیں کہ شاید اِس ذریعے سے لوگ ہدایت پا جائیں، اسلام کا رُخ کر لیں، وہ اسلام جس کا خود علی ؑ ایک جیتا جاگتا نمونہ تھےہمیں چاہیے کہ ہم اچھی طرح علی ؑ کو پہچانیں، لیکن اکثر لوگ علی ؑ کو اچھی طرح نہیں پہچانتے۔

سوال نمبر ۱۱۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بہت سے وہ لوگ جو حضرت علی ؑ کی ولایت کو مانتے ہیں اور اُن کی پیروی کا دَم بھرتے ہیں، وہ علی ؑ شناس نہیں ہیںوہ علی ؑ کی تعلیمات سے ذرّہ برابر واقف نہیں ہیں اِس کلام سے آپ کی کیا مراد ہے؟

جواب : یہ بات ہم اُن لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں جن کے لیے لازم ہے کہ وہ وسیع سطح پرعلی ؑ کی زندگی اور اُن کی تعلیمات سے آگاہ ہوں، لیکن وہ اِن باتوں میں سے کچھ بھی نہیں جانتےمعاشرے میں لوگ اپنے گرد ایسے دائرے کھینچ لیتے ہیں جن میںیہ لوگ اپنے تعصب، نفسیاتی وجوہات اورسماجی وابستگیوں کی وجہ سے محصور ہوجاتے ہیںجبکہ علی ابن ابی طالب ؑ اُن لوگوں سے بھی گفتگو کرتے ہیں جو واقعاً گمراہی کا شکار تھے۔ آپ ؑ نے کثرت کے ساتھ خوارج اور طلحہ وزبیر جیسے افراد سے بھی گفتگو کی۔ علی ؑ جب کسی سے فکری اختلاف رکھتے تھے، تو یہ جاننے کے باوجود کہ وہ باطل فکر پر ہے، آپ ؑ اُس سے مکالمہ کرتے اورمتنازعہ مسائل میں لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے تھےلہٰذا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کے ساتھ محض اختلاف ہونے پر اُسے زندیق، گمراہ اور کافر کہیں، کیونکہ اِس طرح کا طرزِ عمل کمزور اور متعصب اورنفسیاتی مریض لوگوں کاطرزِ عمل ہواکرتا ہے۔

ہم میں سے کس کا خوارج جیسی مشکل سے سامنا ہوا ہے؟ یا ہم میں سے کس کا علی ؑ کی طرح خلفائے ثلاثہ، طلحہ وزبیر اور معاویہ جیسے حضرات سے سامنا ہوا ہے؟ اِس سب کے باوجود ہم علی ؑ کو دیکھتے ہیں کہ وہ سکون اور وقار کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں اور عقل و منطق کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔

آج ہم علی ؑ کی اِس سیرت کے پیرو کتنے افرادتلاش کر سکتے ہیں؟

کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کسی کو محض اِس بنا پرکہ اُس سے ہمارا بعض باتوں پر اختلاف ہے، دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیتے ہیں؟

اِس گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم علی ؑ سے اسلام کو اُس کی تمام قدرت اور وسعت کے ساتھ سیکھیں۔