حضرت علی ؑ کے بارے میں غلو کامسئلہ
ولایتِ غدیر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
خودحضرت علی ؑ فرماتے ہیں: ھَلَکَ فِیَّ رَجُلَانِ:مُحِبٌّ غَالٍ وَمُبْغِضٌ قَالٍ۔ (میرے بارے میں دو طرح کے لوگ تباہ ہو ئے۔ ایک، ایسا محب جو محبت میں حد سے بڑھ جائے اوردوسرا، ایسا دشمن جومجھ پر گالم گلوچ پر اُترآئے نہج البلاغہ کلماتِ قصار ۱۱۷)
بے شک علی ؑ خدا اور اُس کے رسول ؐسے محبت کرتے تھے اِسی لیے آپ ؑ بارگاہِ الٰہی میں عاجزی اور انکساری کا پیکر تھےجیسا کہ آپ ؑ دعائے کمیلؓ میں فرماتے ہیں: وَاَنَا عَبْدُکَ الضَّعِیْفُ الذَّلِیْلُ الْحَقِیْرُالْمِسْکِیْنُ۔ (میں تیرا ضعیف، ذلیل، حقیر ومسکین بندہ ہوں)
علی ؑ کوخدا کی مخلصانہ عبادت میں عزت اور بزرگی محسوس ہوتی تھیآپ ؑ کی فکر، آپ ؑ کے قلب اور آپ ؑ کے عمل سے خدا کی بندگی اور اُس کی عظمت کا اظہار ہوتا تھاکیونکہ انسان جس قدر زیادہ خداکی عبادت کرتا ہے، اُتنا ہی زیادہ اُس سے نزدیک ہوتا چلا جاتا ہے اوراُس پرخدا کی عظمت زیادہ سے زیادہ آشکارا ہوتی جاتی ہے۔
ایسے لوگ جو حضرت علی ؑ اور اُن کی آل ؑ کے بارے میں غلو کرتے ہیں، اُنھیں اپنے بارے میں یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ وہ محبِ اہلِ بیت ؑ ہیںکیونکہ اہلِ بیت ؑ کی زندگی اسلام کے لیے تھیوہ خود فرماتے تھے کہ: مَنْ کَانَ وَلِیٌّ لِلّٰہِ فَھُوَلَنَا وَلِیٌّ، وَمَنْ کَانَ عَدُوٌّلِلّٰہِ فَھُوَلَنَا عَدُوٌّ، وَاللّٰہِ مَا تَنَالُ وِلَا یَتُنَا اِلَّا بِالْوَرَعِ۔ (جو کوئی خدا کا دوست ہے، وہ ہمیں بھی اپنا دوست پائے گا، اور جوکوئی خدا کا دشمن ہے، وہ ہمارا بھی دشمن ہےخدا کی قسم ہماری ولایت (محبت) پرہیز گاری کے بغیر حاصل نہیں ہوتی)
ہم نے بارہا کہا ہے کہ اہلِ بیت ؑ صرف اور صرف اسلام کے نمائندہ ہیں، وہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے۔ اِس بنیادپرجب ہم اپنی روح اور قلب کو اُن سے محبت پر آمادہ کرتے ہیں، تو ضروری ہے کہ اُن سے اِس طرح محبت کریں جس طرح محبت کرنے کا اُنھوں نے ہم سے تقاضا کیا ہےامام زین العابدین علیہ السلام کے کلام میں بھی ہے کہ : اَحِبُّوْنَا حُبَّ الْاِسْلَامِ(اسلام کی محبت میں ہم سے محبت کرو)۔ یعنی اسلام کے دائرے میں ہم سے محبت کرو اور دینی عقائد اور قرآن و سنت کی حدود سے باہر نہ نکلولہٰذا جو باتیں رسول اﷲ ؐاور اُن کے اہلِ بیت ؑ کے بارے میں ہم تک پہنچی ہیں، لازم ہے کہ ہم اُن پر غور و خوض کریں: ھَلَکَ فِیَّ رَجُلَانِ:مُحِبٌّ غَالٍ وَمُبْغِضٌ قَالٍ۔ (میرے بارے میں دو طرح کے لوگ تباہ ہو ئے۔ ایک، ایسا محب جو محبت میں حد سے بڑھ جائے اوردوسرا، ایسا دشمن جومجھ پر گالم گلوچ پر اُترآئےنہج البلاغہ کلماتِ قصار ۱۱۷) کیونکہ یہ دونوں ہی اعتدال کی حد سے خارج ہو جاتے ہیں۔
حضرت علی ؑ کے اِس قول کی بنیاد پر غلو کے مسئلے پر ہمارے زور دینے کی وجہ یہ ہے کہ دو رِ حاضر میں بھی ایک ایسا گروہ موجودہے جو حضرت علی ؑ اور اُن کی آل ؑ سے محبت کے نام پر غلوکا شکار ہوکر اعتدال سے خارج ہو گیا ہے۔