ولایتِ غدیر

خداوندِ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے: یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس۔ (اے رسول! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اِس کے پیغام کوپہنچایا ہی نہیں اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گاسورۂ مائدہ ۵آیت ۶۷) نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا(آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا ہے، اور اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا ہے، اورتمہارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا ہےسورۂ مائدہ ۵آیت۳)

مفسرین کہتے ہیں کہ پہلی آیت پیغمبرؐکے حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر نازل ہوئیسورج آسمان کے بیچوں بیچ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا کہ خدا کی طرف سے پیغمبرؐ پر وحی نازل ہوئی کہ: یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ(اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ پر خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ہے)

یہ حکم کیا تھا؟

یہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان تھاکیونکہ نزدیک ہے کہ اﷲاپنے رسول کو اپنے پاس بلا لے اور آنحضرت ؐاِس دنیا سے کوچ کر جائیں۔ ایسی صورت میں آپ ؐ اُمت کو اُس کے معاملات سنبھالنے اور اُسکی رہنمائی کرنے والے رہبر و رہنما کے بغیر چھوڑ کے نہیں جا سکتےیہ ”ولی“ یہ ”رہبر“ آپ کا نفس اور آپ کا بھائی ہے۔ یہ ایسا فرد ہے جس نے ابتدائے عمر ہی سے آپ کے ہمراہ زندگی بسر کی ہے اور جو اخلاق، شخصیت اور علم میں آپ کی تصویر ہے، اِس کا جہاد ایسا جہاد ہے جس کے اعتبار اور قدر و قیمت کی کوئی ایک مسلمان بھی برابری نہیں کر سکتا، اِس پر برتری تو دور کی بات ہے۔

وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ

اور اگر آپ نے یہ حکم نہیں پہنچایا، تو گویا خدا کی رسالت کو پہنچایا ہی نہیں

اِس پیغام کو نہ پہنچانا، اِس حکم کا اعلان نہ کرنا، پیغمبرکی رسالت کے لیے خطرہ پیدا کردے گا۔ اور یہ اِس حد تک خطرناک ہو گا کہ گویا پیغمبر ؐنے اپنی ذمے داری ادا ہی نہیں کیکیونکہ اگر وہ اسلامی معاشرے کو، اُس مشن کو جس کا آپ ؐنے آغاز کیا ہے کسی سرپرست، رہبر اور رہنما کے بغیرچھوڑ جائیں، تو اسلام ختم ہو جائے گا، آپ کا مشن مٹ جائے گا۔

اے پیغمبرؐ!اگر آپ کو اِس بات کا خوف ہے کہ لوگ کہیں گے کہ آپؐ نے اُمت کی زمامِ اقتدار اپنے چچا زاد بھائی اور داماد کے سپرد کر دی، تویہ بات ذہن نشین رکھئے کہ: وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس(اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا)

اے پیغمبرؐ ! جس طرح خدا نے آپ کو دعوت کے ابتدائی ایام میں مشرکین اور منافقین کے حملوں سے بچائے رکھا، اب اِس دعوت کے اختتامی مرحلے میں بھی آپ کی اُسی طرح حفاظت کرے گا۔

بزرگ صحاب ئرسول ابو سعید خدریؓ کے بقول: غدیر کے دن آنحضرت ؐنے حکم دیا کہ لوگ اپنی سواریوں سے اتر جائیں۔ یہ حکم سُن کرلوگوں کو تعجب ہوا، کیونکہ یہ قافلے کے پڑاؤ کا وقت نہ تھا، اِس مقام پر کوئی سایہ دار جگہ بھی نہ تھی۔
لوگ اپنی سواریوں سے اتر گئے، اونٹ کی کاٹھیوں سے ایک منبر تیار کیا گیاپیغمبرؐاِس پرکھڑے ہوئے اور حضرت علی ؑ کا ہاتھ بلند کیا، یہاں تک کہ اِن دونوں حضرات کی بغلوں کی سفیدی نمایاں ہو گئیپھر آنحضرت ؐنے فرمایا:

’اَیُّھَا النَّاسُ! یُوْشَکُ اَنْ اُدْعٰی فَاُجِیْبُ، أَلَسْتُ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ؟ قَالُوْا:اَللَّھُمَّ بَلٰی، فَقَالَ:اَللَّھُمَّ اَشْھَدْ، ثُمَّ قَالَ:اَلاَمَنْ کُنْتُ مَوْلٰاہُ فَھٰذا عَلیٌّ مَوْلٰاہُ، اللَّھمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ، وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَ لَہُ، وَأَدْرِالْحَقَّ مَعَہُ حَیْثُ دَارٍ، أَلاَھَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوْا:بَلٰی، قَالَ:اَللَّھُمَّ اَشْھَدْ۔“

’اے لوگو! وہ وقت قریب ہے جب میرا بلاوہ آ جائے اور میں خدا کی دعوت قبول کروںکیا میں مؤمنین پر خود اُن سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاںپس آپ ؐ نے فرمایا: بارِالٰہا گواہ رہناپھر فرمایا: آگاہ رہو کہ جس کسی کا میں مولا ہوں، یہ علی ؑ اُس کے مولا ہیں۔ بارِ الٰہا جو اِنھیں (علی ؑ کو) دوست رکھے، تو اُسے دوست رکھاور جو کوئی اِن سے دشمنی رکھے، تو بھی اُس سے دشمنی رکھ۔ اور جو کوئی اِن کی مدد کرے، تو اُس کی مددفرمااور جو کوئی اِن کوچھوڑ دے، تو اُسے چھوڑدےاور حق کو وہاں قرار دے جہاں یہ ہوںپھر (آپ ؐنے لوگوں سے) فرمایا: کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاںفرمایا: بارِ الٰہا گواہ رہنا۔“
(بحار الانوارج ۴ص ۲۰۳)

بعد میں بعض لوگوں نے: مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ۔۔۔ ۔ کی وضاحتیں شروع کر دیں اور اِس کے یہ معنی کیے کہ: جو کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے، وہ علی ؑ سے محبت کرے، جو کوئی میرا مدد گار ہے، وہ علی ؑ کا مددگار بنے۔ اور زور دینے لگے کہ یہی ولایت کے معنی ہیں۔

جب کسی کلمے کے متعدد معنی ہوں، تو پہلا جملہ دوسرے جملے کی وضاحت کرتا ہےپیغمبر اسلامؐ کے تمہیدی کلمات، جن میں آپ ؐنے فرمایا کہ: أَلَسْتُ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ؟ (کیا میں مؤمنین پر خود اُن سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ ) سے ظا ہر ہوتا ہے کہ پیغمبر کہنا چاہتے ہیں کہ خداوندِ عالم نے مجھے ولایت عطا کی ہے، جس کی بنیاد پر میں مؤمنین پر خود اُن سے زیادہ حق رکھتا ہوں، پس جس کسی پر میں اُس سے زیادہ حق رکھتا ہوں، یہ علی ؑ بھی اُس پر اُس سے زیادہ حق رکھتے ہیںوہ ولایت جو خداوندِ عالم نے مجھے عنایت فرمائی ہے، میں خدا کے حکم سے اپنے بعد وہ ولایت علی ؑ کے سپرد کر رہا ہوںجب آنحضرتؐ یہ پیغام پہنچاچکے، تو اِس کے بعد جبرئیل خدا کی طرف سے یہ خبر لے کر نازل ہوئے کہ : اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ(آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا ہے)یعنی اِس سے پہلے دین ناقص تھا، اب جب ولایت کا اعلان ہو گیا ہے، تو ولایت کی برکت سے دین کامل ہوگیا: وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا(اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کر دیا ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا ہے۔ سورۂ مائدہ۵آیت۳) لہٰذا اب اِس سچی ولایت کے ہمقدم ہوجاؤ جو خداوندِ عالم کی جانب مسلمانوں کی رہبری کرتی ہے۔