ولایتِ غدیر

حضرت علی ؑ کی ولایت لوگوں پر حاکمیت نہیں ایک الٰہی فریضہ ہے

ولایتِ غدیر   •   آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ

آیۂ کریمہ: یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اِس مسئلے کا جائزہ بتاتا ہے کہ یہاں خداوندِ عالم دراصل حضرت علی ؑ کی ولایت کا اعلان چاہتا ہےیہ مسئلہ صرف کسی شخص کو حکومت اور مسلمانوں کے معاملات کا نظم و نسق سپرد کرنے تک محدود نہیں ہےلہٰذا یہ مشن ایک ایسے شخص کے سپر د کیا جانا چاہیے جس کا قلب و ذہن اور پوراوجوداِس مشن میں ڈوبا ہوا ہو۔ اور ایسی شخصیت سوائے علی ابن ابی طالب ؑ کے کوئی اور نہیں۔

لہٰذا تعین کے لحاظ سے اِس مسئلے کا جائزہ لینے پر یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ اِس منصب کے لیے حضرت علی ؑ کو معین کر دیا گیا تھا۔

لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد جس صورتحال نے اسلامی معاشرے میں جنم لیا، وہ اِس سے مختلف تھیسقیفہ میں امارت کا مسئلہ پیشِ نظر تھایعنی مہاجرین اور انصار دونوں اپنے اپنے لیے ایک امیر مقرر کرنا چاہتے تھےجذبات کو مشتعل کرنے والے اِن عوامل اور جزیات سے قطع نظر(جن کافی الحال ہم تذکرہ نہیں کرنا چاہتے) امارت کی منطق سے یہ سوال اُبھرتا ہے کہ کیا کوئی بھی مسلمان امیر بن سکتا ہے؟ کیا امارت کی ذمے داری قبول کرنے والے فرد کے بارے میں تمام اصحابِ پیغمبرؐکے درمیان گفتگو ہوئی تھی؟ واضح رہے کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہوئی تھیکیونکہ علی ؑ اور اُن کے ساتھی پیغمبر اسلامؐ کے غسل و کفن میں مصروف تھے، وہ سقیفہ کے اجلاس میں موجودہی نہ تھے، اُنھیں اُس وقت اِس کا علم ہوا جب بات ختم ہو چکی تھی۔

بالفرض اگر روزِ غدیر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے حضرت علی ؑ کا انتخاب نہ بھی ہوا ہوتا، تو کم از کم اُنھیں اُن لوگوں میں تو شمارکیا جانا چاہیے تھاجن کے نام خلافت کے لیے پیش کیے گئے تھے۔ کیونکہ پیغمبر اسلامؐ سے اپنی مصاحبت اور قرابت کے اعتبار سے اور اپنے علم و جہاد کے لحاظ سے علی ؑ عظیم المرتبت اصحابِ رسول ؐمیں تو شمار کیے ہی جاتے تھےاِس مقام و مرتبے کے باوجود، کیا یہ بات منطقی تھی کہ مسئلۂ خلافت اٹھے اور اُس کے بارے میں علی ؑ سے رائے نہ لی جائے؟ !

اور اگر اِس مسئلے کو شوریٰ کے پہلو سے دیکھا جائے، تو ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا سقیفہ میں جو کچھ پیش آیا، اُسے ایک حقیقی اور واقعی شوریٰ قرار دیا جا سکتا ہے؟

اگر آج کوئی اپنی سیاسی سرگرمی انتخابی (شورائی) طریقۂ کار کے مطابق استوار کرے اور ایسا کرے جیساسقیفہ میں ہواتھا، اورقوم کی قیادت کے لیے ایک فرد کو تجویز کرے، تو کیا دوسرے لوگ اِس قسم کے انتخاب کو قبول کریں گے، کیا اِس کے بارے میں مثبت رائے دیں گے؟

رسالت کی فکری تحریک کا جاری رہنا حکومت سے زیادہ اہم بات ہے؟

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہر صورت میں مسلمانوں کا ایک حاکم ہوناچاہیےنیز صرف اِن کے نظم و نسق اور معاملات و امور کی دیکھ بھال کے لیے ایک شخص کا ہونا بھی کافی نہیں بلکہ مسئلہ اسلامی مشن کا اُسی فکری وصف اور عمدگی کے ساتھ جاری رہنا ہے جس کے لیے رسولِ کریمؐ نے حضرت علی ؑ کی تربیت فرمائی تھی۔ تاریخ کی روشنی میں بھی معنویت، خدا کے ساتھ اپنے تعلق اورجہاد فی سبیل اﷲ کے لحاظ سے مسلمانوں کے درمیان کوئی ایک فرد بھی علی ؑ کی مانند نہ تھا۔

جب ہم خلفا کے دور میں اسلام کے بارے میں احساسِ ذمے داری سے بھرپور حضرت علی ؑ ؑ ؑ کے مؤقف اور طرزِ عمل کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو اُن کی شخصیت کی عظمت اور نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے۔ اُنھوں نے اپنے مُسَلَّم حق سے محرومی کے باوجود کوئی منفی مؤقف اختیار نہیں کیاکیونکہ اُن کی نظر میں اسلام کا مفاد سب سے زیادہ عزیز تھااوراُنھوں نے ہر دور اور تمام حالات میں، خواہ وہ اُن کا اپنا دورِ خلافت ہو یا اُس سے پہلے کا زمانہ، اپنے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کا ذمے دار سمجھایہ نکتہ حضرت ؑ کی طرف سے مصر کے لوگوں کے نام لکھے گئے مکتوب سے بھی ظاہر ہےآپ ؑ نے اِس خط میں تحریر فرمایا:

فَمَارَاعَنِیْ اِلَّا انْثِیَالُ النَّاسِ عَلٰی فَلاَنٍ یُبَایِعُوْنَہٗ، وَأَمْسَکْتُ یَدِیْ حَتَّی رَأَ یْتُ رَاجِعَۃَ النَّاسِ قَدْرَجَعَتْ عَنِ الْاِسْلَامِ یَدْعُونَ اِلٰیَ محْقِ دِیْنِ مُحَمَّدٍ (صَلَّیٰ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّم) فَخَشِیْتُ اِنْ لَّمْ أَ نْصُرِالْاِسْلَامَ وَأَھْلَہُ أَنْ أَرَی فِیْہِ ثَلْماً أَھَدْماً تَکُونُ الْمُصِیْبَۃُ بِہِ عَلَیَّ أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَا یَتِکُمُ الَّتِی اِنَّمَا ھِیَ مَتَاعُ أَیَّامٍ قَلاَ ءِلَ، یَزُوْلُ مِنْھَا مَ کَانَ، کَمَا یَزُوْلُ السَّرَابُ، أَوْکَمَا یَتَقَشَّعُ السَّحَابُ، فَنَھَضْتُ فِی تِلْکَ الْأَحْدَاثِ حَتَّی زَاحَ الْبَا طِلُ وَزَھَقَ، وَ أَطْمَأَنَّ الذِّیْنُ وَتَنَھْنَہَ۔

مگر ایک دم میرے سامنے یہ منظر آیا کہ لوگ فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کے لیے دوڑ پڑے ہیں اِن حالات میں، میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھایہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے منھ موڑ کر دین محمدکو مٹا دینے پرتُل گیاہےمجھے اِس بات کا خو ف ہوا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکھنے کے باوجود اگرمیں اسلام اور اہلِ اسلام کی مدد نہ کروں، تو یہ میرے لیے اِس سے بڑی مصیبت ہو گی جتنی تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے چلی جانے کی مصیبت، جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے، اِس میں کی ہر چیز سراب اور اُن بدلیوں کی مانند جو ابھی جمع نہ ہوئی ہو ں زائل ہو جانے والی ہےچنانچہ اِن حالات میں، میں اٹھ کھڑا ہواتاکہ باطل نیست و نابود ہو جائے اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ جائے۔ (۱)

اِسی طرح آپ ؑ نے فرمایا:

وَوَاللّٰہِ لَاُ سْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُوْرِالْمُسْلِمِیْنَ، وَلَمْ یَکُنْ فِیْھَا جَوْرُاِلَّاعَلَیَّ خَاصَّۃٌ۔

خدا کی قسم! جب تک مسلمانوں کے امور کانظم ونسق برقراررہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی، میں خاموشی اختیار کیے رہوں گا۔ ۔ (۲)

ایک ایسا انسان جو ایثار و درگزر کی اِس حد تک پہنچا ہوا ہو، اُسے اِس کے حق (جو دراصل اُس کا ذاتی اور شخصی حق نہ تھا بلکہ اُمت کا حق تھا) سے دور رکھا گیالیکن اِس کے باوجود وہ اسلامی معاشرے سے متعلق مسائل اور اسلام کی حفظ و سلامتی کے لیے اُن لوگوں کے شانہ بشانہ مصروفِ کار رہا جنہوں نے اُسے خلافت سے محروم کیااور اُن کی ضروری رہنمائی بھی کرتا رہا، اُن کے سوالات کے جواب دیتا رہا، یہاں تک کہ حضرت عمر نے اعتراف کیا کہ: لَوْلَا عَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَرُ(اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا)۔ نیز یہ بھی کہا کہ: لَااَبْقَانِیْ اللّٰہُ لِمُعْضَلَۃٍ لَیْسَ لَھَا اَبُوْالْحَسَنِ۔ (خدانے مجھے کسی ایسی مشکل میں نہیں ڈالا جس کے حل کے لیے علی موجود نہ ہوں)

امام ؑ کے اِس طرزِ عمل کی معراج وہ موقع ہے جب حضرت عمرنے خود فارس کی جنگ کی قیادت کا فیصلہ کیا اور اِس بارے میں حضرت علی ؑ سے مشورہ طلب کیاامام ؑ نے اِس عمل کی مخالفت کی اور اُنھیں جنگ کے لیے جانے سے منع کیاکیونکہ اِس طرح اُنھیں ایک بڑے خطرے کا سامنا ہوتایعنی اگر وہ مارے جاتے تو لشکر شکست کھا جاتاامام ؑ نے اُن سے فرمایا: اِنَّکَ مَتٰی تَسِرْ اِلٰی ھٰذَاالْعَدُوِّبِنَفْسِکَ فَتَلْقَھُمْ فَتُنْکَبْ لَا تَکُنْ لِّلْمُسلِمِیْنَ کَانِفَۃٌ دُوْنَ اَقْصٰی بِلاَدِ ھِمْلَیْسَ بَعْدَکَ مَرْجِعٌ یَّرْجِعُوْنَ اِلَیْہِفَابْعَثْ اِلَیْھِمْ رَجُلاً مُجَرَّبًا۔ (تم اگر خود اُن دشمنوں کی طرف بڑھے اور اُن سے ٹکرائے اور کسی مصیبت میں پڑ گئے، تو اِس صورت میں مسلمانوں کے لیے دور کے شہروں سے پہلے کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا اور نہ تمہارے بعد پلٹنے کی کوئی ایسی جگہ ہو گی کہ اُس کی طرف پلٹ کر آ سکیںتم (اپنے بجائے) اُن کی طرف کوئی تجربہ کار آدمی بھیجونہج البلاغہ خطبہ ۱۳۲)لہٰذا حضرت عمر نے ایسا ہی کیا۔

ہم نے اِن باتوں کا تذکرہ اِس لیے کیا ہے تاکہ ہم حضرت علی ؑ کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔ کیونکہ ہمارے خیال میں حضرت علی ؑ کی ولایت پر عقیدہ رکھنے والے بہت سے لوگوں نے اُن کی زندگی سے کوئی سبق نہیں لیا ہے، اُن سے کوئی چیز نہیں سیکھی ہےبلکہ وہ دور سے، فاصلے سے علی ؑ کی زندگی کا نظارہ کرتے ہیں اِن کی سوچ، علی ؑ کی فکر سے نزدیک نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ زبان سے اُن کا نام لینے کے باوجود ہمارے اندرفکر ی پسماندگی موجود ہےلہٰذا ہم تنگ نظر ی اور سطحی نعرے بازی کا شکار ہیں اور روز بروز پیچھے ہی پیچھے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

لہٰذااِس دور، بالخصوص اِس زمانے میں ہماری مشکل صرف وہ لوگ نہیں ہیں جو اسلام کے خلاف برسرِپیکار ہیں، بلکہ وہ لوگ بھی کوئی کم مشکل ساز نہیں جوقدامت پرستی کے مسلک پر گامزن ہیں اور اِسی کو اسلام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، اِسی طرح وہ لوگ بھی جو اسلام کا بگڑا ہوا چہرہ پیش کرتے ہیں اوراُس کا تعارف ایک وسیع اوربے کنار مکتب کے طور پر کرانے کی بجائے اُس کادائرہ کسی انتہائی چھوٹی اورمعمولی چیز تک محدودکیے ہوئے ہیں۔

لہٰذا ہمیں آگے بڑھ کر اسلامی فکر اور اسلامی تمدن کا علم حاصل کرناچاہیے، تاکہ ہم زمانے کے تقاضوں کے تحت اسلام کا تعارف کرانے کی اہلیت حاصل کر سکیںنیز یہ بات ہمارے علم میں آئے کہ زندگی کے لیے جس راہ و روش کو اسلام نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے اُسے کس طرح حاصل کیا جا سکتا ے۔

پس ہمیں علی ؑ کی شخصیت کا مطالعہ صرف ایک تاریخی شخصیت کے مطالعے تک محدود نہیں رکھنا چاہیےبلکہ اُن کی زندگی کا مطالعہ اِس انداز سے کرنا چاہیے کہ علی ؑ کی زندگی فکری اور معنوی اعتبار سے آج کے انسان کی مددگار بن سکے۔

ہماری ترقی اور ارتقا کا راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی فکر، اپنی سیاست، اپنے اقتصاد، اپنے سماج کے انتظام و انصرام، اپنے روابط و تعلقات اور معاشرے کے تمام میدانوں میں نہج البلاغہ کے فرمودات اور اُس کی تعلیمات کو بروئے کار لائیں۔

۱۔ نہج البلاغہ مکتوب ۶۲

۲نہج البلاغہ خطبہ ۷۲