ولایتِ غدیر

ولایت کے لیے حضرت علی ؑ کے انتخاب کی وجہ

ولایتِ غدیر   •   آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ

ہمیں اِس بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے کہ اِس منصب کے لیے حضرت علی ؑ کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ مقامِ ولایت کے لیے حضرت علی ؑ کے انتخاب کی وجہ کیا تھی؟ حالانکہ آپ ؑ جوان تھے اور آپ ؑ سے زیادہ عمر کے مسلمان موجود تھے؟ اور ہم جانتے ہیں کہ عرب سرداری کے لیے عام طور پر سن رسیدہ فرد کو ترجیح دیتے ہیں۔

در حقیقت مسئلہ کسی قبیلے کی سرداری کا نہ تھااور نہ ایک عام حکمراں کے تقرر کا معاملہ تھابلکہ مسئلہ اسلام کے لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت کا تھا جو پیغمبر کی رسالت اور اُن کے مشن کو آگے بڑھاسکےایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو علمِ پیغمبر ؐکا حامل ہوتاکہ اسلامی فکر اور تعلیمات کو مسلمانوں کے ا ذہان میں اِس طرح بٹھا سکے جیسے پیغمبرؐاس کی تعلیم دیا کرتے تھےیہ ایک ایسے فرد کی ضرورت کا مسئلہ تھا جس نے راہِ اسلام میں بھرپور جہاد اور کوشش کی ہواور اسلام جس کی نس نس میں بساہوا ہواور اُس کے نزدیک اسلام کے سامنے دنیا کی اور فریضے کی انجامدہی کے سامنے قدرت و حکومت کی کوئی حیثیت نہ ہو۔ اِسی طرح ایک ایسے شخص کی ضرورت کا مسئلہ تھا جس سے لوگ سوال کریں اور اُسے کسی اور سے سوال کرنے کی ضرورت نہ ہو۔

ایسا شخص کون تھا؟

اگر ہم ہر قسم کی فرقہ پرستی، قبیلہ پرستی اور تعصب سے دور ہو کر اُس دور کے ایک ایک مسلمان کی حالت کا جائزہ لیں، تو حضرت علی ؑ کے سوا کسی اور کو اِن خصوصیات کا مالک نہیں پائیں گے۔

کیونکہ تمام ہی مسلمان اسلام لانے سے پہلے بت پرستی کیا کرتے تھے، صرف علی ؑ وہ واحد فرد تھے جو کبھی بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئےکیونکہ پیغمبر اسلامؐ نے اُن کی سرپرستی اور تربیت اپنے ذمے لے لی تھی، لہٰذا رسولِ خدا ؐکی شخصیت اُن کے وجود میں رچ بس گئی تھیاِ س بارے میں حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: کُنْتُ اَ تَّبِعُہٗ اِتِّبَاع الْفَصِیْلِ اَ ثَرَاُمِّہٖ(جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے اُسی طرح میں اُن (رسول اﷲؐ) کے پیچھے پیچھے چلا کرتا تھا۔ نہج البلاغہ۔ خطبہ ۱۹۰)۔ علی ؑ عبادت وبندگی، دعا ومناجات، فکرو شعور اور صداقت و امانت میں پیغمبرکی مانند تھے۔

علی ؑ نے مکہ میں اپنی زندگی کا آغازراہِ خدامیں جد و جہد کے ساتھ کیامشرکین، رسولِ کریم کو اذیت و آزار پہنچانے کے لیے بچوں کو آنحضرتؐ کے پیچھے لگا دیا کرتے تھےحضرت علی ؑ، حضوؐر کو اِن بچوں سے بچاتےاِس کے بعد شبِ ہجرت پیغمبر کی حفاظت کے لیے انتہائی ہولناک خطرے کے باوجود آنحضرت ؐکے بستر پر سوئےہجرت کے وقت پیغمبر ؐ نے لوگوں کی وہ امانتیں لوٹانے کے لیے جوآپ ؐ کے پاس موجود تھیں آپ ؑ ہی کو مقرر کیالہٰذا پیغمبر ؐکے مدینہ تشریف لیجانے کے بعد آپ ؑ مکہ ہی میں رہے، تاکہ لوگوں کی امانتیں اُنھیں واپس کریں اورآپ ؑ یہ ذمے داری ادا کرنے کے بعد مدینہ میں پیغمبرؐسے جا ملے۔

علی ؑ شب و روز پیغمبر ؐکے ساتھ رہا کرتے تھےیہی وجہ ہے کہ وحی کے بارے میں پیغمبر ؐنے آپ ؑ سے فرمایا: اِنَّکَ تَسْمَعُ مَااَسْمَعُ وَتَرٰی مَااَرٰی(جو چیز میں سنتا ہوں، وہی تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں، وہ تمہیں بھی نظر آتا ہےنہج البلاغہ۔ خطبہ ۱۹۰)

آپ ؑ پیغمبرؐکے ساتھ ایک ایسے طالبِ علم کی مانند رہا کرتے تھے جو سب کچھ آپ ؑ ہی سے سیکھتا تھا۔ پیغمبر ؐنے آپ ؑ کو علم و دانش کے ایسے ہز ارابواب کی تعلیم دی جن میں سے ہر دروازے سے مزید ہزار در وازے کھولے جا سکتے تھےاِسی بنا پر آپ ؑ کو پیغمبر ؐکے تمام علم پرعبور حاصل تھا۔

پیغمبرؐ کے دورِ حیات اور آنحضرت کی وفات کے بعدبھی حضرت علی ؑ کے بارے میں کسی سے یہ بات نقل نہیں ہوئی کہ آپ ؑ کو پیغمبر ؐکے سوا کسی اور کی ضرورت محسوس ہوئی ہو اور اُس سے آپ ؑ نے کوئی سوال کیا ہوآپ ؑ وہ واحدشخص تھے جو اسلامی تعلیمات کی چلتی پھرتی درسگاہ تھے، جس سے سب علم حاصل کرتے تھے اور اُنھیں کسی سے حصولِ علم کی ضرورت نہ تھی۔

جہاں تک رہی راہِ خدا میں آپ ؑ کے جنگ و جہاد کی بات، تو آپ ؑ بدر، احد، احزاب، خیبر اور حنین کی جنگوں کے سورما تھے۔ آپ ؑ کی شمشیر نے پوری قوت اور اخلاص کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کیا۔