علی ؑ فرزندِ ایمان
ولایتِ غدیر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
اِس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ علم و معرفت سے لبریز علی ؑ کا بچپن اور اُن کی شخصیت پیغمبر اسلام ؐ ہی کی تعمیرکی ہوئی تھیجب پیغمبر ؐنے اُنھیں اسلام کی دعوت دی، تووہ اِس دعوت پر ایک بچے کی مانند ایمان نہیں لائے تھےکیونکہ بعض مؤرخین کوشش کرتے ہیں کہ یہ باور کرایا جائے کہ علی ؑ کا ایمان اُن کاایک بچکانہ عمل تھا(نہیں، قطعاً ایسا نہیں تھا) علی ؑ اُس دور میں ایک ایسے بچے تھے جن کی ذہنیت ایک جوان کی سطح کی ذہنیت تھیکیونکہ جب ہم کسی انسان کو بچہ کہتے ہیں، تو اِس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ وہ کم عمر ہے، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ وہ نادان ہے، کم علم ہے۔
ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو عقل وآگہی کے لحاظ سے باشعور(mature)ہوتے ہیں اور ایسے بوڑھے بھی ملتے ہیں جو عقل و آگہی کے لحاظ سے بے شعور بچوں کی طرح ہوتے ہیںلہٰذا سِن و سال کے لحاظ سے بچہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ ایسا انسان لازماً عقل و شعور کے اعتبار سے بھی بچہ ہی ہو گااور پھر اگر کسی کے معلم اور استاد رسول اﷲؐ ہوں، توکیا اُس کی کم سنی کے باوجود اُس کے فکروشعور کے بارے میں کسی اندیشے اور خدشے کی گنجائش رہے گی؟
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے علی ؑ کو اسلام کی دعوت پیش کرنے سے پہلے ہی، اسلام علی ؑ کی روح میں بسا ہوا تھاکیونکہ اسلام رسالت پر مبعوث ہونے سے قبل ہی پیغمبر ؐ کی عقل، روح، احساس اور شعور میں موجود تھااِس لیے کہ خداوندِ عالم نے آپ کو پیغمبری کے لیے تیار کیا تھالہٰذا یہ کہنے سے پہلے ہی کہ: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْخَلَقَ(پڑھو اُس پروردگار کا نام لے کر جس نے پیدا کیا ہےسورۂ علق ۹۶ آیت ۱) خداوندِ عالم نے اپنی رسالت پیغمبرؐکے وجود اور اُن کے شعور میں مکمل طور پر بٹھا دی تھی۔
سیرت کے بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی ؑ سے پوچھا گیا: ھَلْ اِسْتَشَرْتَ اَبَاکَ عِنْدَمَا آمَنْتَ بِرَسُوْلِ ا للّٰہِ؟ (کیا تم نے رسول اﷲ ؐپر ایمان لاتے وقت اپنے والدسے مشورہ کیا تھا؟ ) آپ ؑ نے جواب دیا: اِنَّ اللّٰہَ یَسْتَشِرُاَبِیْ عِنْدَماَخَلَقَنِیْ(جب خدا مجھے خلق کررہا تھا، تو اُس نے میرے والد سے تومشورہ نہیں کیا تھا)، لہٰذا میں خدا، اُس کے پیغمبرؐ اور اُس کی رسالت پر ایمان لاتے وقت کیوں اپنے والد سے مشورہ کرتا؟ اگریہ روایت صحیح ہو توجنابِ امیر ؑ کا یہ قول اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اِس مسئلے کے تمام فکری اور معنوی پہلوؤں کا علم رکھتے تھے۔
رسالت کے آغاز کے بعد حضرت علی ؑ ہمیشہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ رہےاور ایک فرض شناس مسلمان کی مانند رسولِ کریمؐ کی مدد و نصرت کرتے رہےآپ ؑ نے خود اِس بارے میں فرمایا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت اور تیاری کے مرحلے میں آپ ؑ مسلسل اُن کے ہمراہ تھےرسول اﷲؐ پر جو بھی آیت نازل ہوتی سب سے پہلے حضرت علیؑ ؑ اُسے سنتے اور آنحضرتؐ سے اُس کے معنی اوراُس کے مختلف گوشوں کی تعلیم حاصل کرتےنہج البلاغہ میں اِس نکتے کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ؑ رسول اﷲ ؐ کے پاس وحی کی صدائیں سنتے، جیسا کہ رسول اﷲ ؐنے فرمایاہے کہ: اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ، وَتَرَیٰ مَاأَرَیٰ(بے شک جو میں سنتا ہوں، تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں وہ تمہیں بھی نظر آتا ہے۔ نہج البلاغہ۔ خطبہ۱۹۰)