ولایتِ غدیر

۱۔ حق کے بارے میں غیر جانبداری کی مذمت

امام ؑ کا قول ہے: خَذَلُوالْحَقَّ وَلَمْ یَنْصُرُواالْبَاطِلَ۔ (اِن لوگوں نے حق کو چھوڑ دیا اور باطل کی بھی مدد نہ کینہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار ۱۷) آپ ؑ کا یہ قول سعدبن ابی وقاص اور عبداﷲ ابن عمر کے بارے میں ہے۔ اور اِس میں آپ ؑ نے اُن لوگوں کی غیر جانبداری کی مذمت کی ہے۔ اِس لیے کہ غیر جانبدار لوگ حق کے محاذکا ساتھ نہ دے کرباطل کی اعانت کرتے ہیںکیونکہ حق سے اُن کے کنارہ کش رہنے کی وجہ سے حق کا محاذ کمزور پڑ جاتا ہے اور باطل کامیابی حاصل کر لیتا ہےیقیناً ایسا شخص جو نماز علی ؑ کی امامت میں پڑھنا پسند کرتا ہے، اورجسے دسترخوان معاویہ کا بھاتا ہے اور جسے غیر جانبداری میں راحت و عافیت نظر آتی ہے، اُسے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ایسی حالت میں علی ؑ کی اقتدا میں نماز اُس کے کسی کام نہ آئے گی۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص علی ؑ کے ساتھ ہو، اُن کی اقتدا میں نماز ادا کرتا ہو، اور عین اُسی وقت شیطان کا ساتھی بھی ہو؟ ! غیر جانبدار ہونا انسان کو شیطان کے خطرے سے دوچار کر دیتا ہے: اَلسَّاکِتُ عَنِ الْحَقِّ شَیْطَانٌ اَخْرَسٌ۔ (حق کے بارے میں خاموش رہنے والا گونگا شیطان ہے)

دورِ حاضر میں اکثر مسلمانوں کی مشکل اُن کی خاموشی اور سکوت ہےوہ اپنے آپ کو غیر جانبدار ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بارِالٰہا! ہمیں آج کے بُرے وقت سے محفوظ رکھ اور اشرار کے شر سے نجات دے۔ جو شخص بدی کا مخالف اور خیر کا حامی و طرفدار نہ ہو، وہ بدی سے کیسے نجات پا سکتا ہے؟

جنگِ جمل میں امام علی ؑ کی فوج سے تعلق رکھنے والا ایک شخص( حارث بن حوط) امام ؑ پر اعتراض کرتے ہوئے بولا: کیا آپ ؑ سمجھتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور اصحابِ جمل گمراہجبکہ وہ ہم سے تعداد میں زیادہ ہیں؟ امام ؑ نے اُس شخص کے جواب میں فرمایا: یَا حَارِثُ! اِنَّکَ نَظَرْتَ تَحْتَکَ وَلَمْ تَنْظُرْ فَوْقَکَ فَحِرْتَ! اِنَّکَ لَمْ تَعْرِفِ الْحَقَّ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاہُ، وَلَمْ تَعْرِفِ الْبَاطِلَ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاہُ۔ (اے حارث! تم نے نیچے کی طرف دیکھا اوپر کی طرف نگاہ نہیں ڈالی، جس کے نتیجے میں تم حیران و سرگرداں ہو گئے ہوتم حق ہی کو نہیں جانتے کہ اہلِ حق کو جانو اور باطل ہی کو نہیں پہچانتے کہ باطل کے پیروکاروں کو پہچانونہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار۲۶۲) اِعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرِفْ اَھْلَہٗ وَاِعْرِفِ الْبَاطِلَ تَعْرِفْ اَ ھْلَہٗ۔ (حق کو پہچانو، اہلِ حق کو پہچان لو گے اور باطل کو پہچانو، اہلِ باطل کی شناخت ہوجائے گی)نیز اِس بارے میں آپ ؑ کا ارشاد ہے:

وَلَا یُعْرَفِ الْحَقُّ بِالرِّجَالِ وَلٰکِنْ یُعْرَفِ الرِّجَالُ بِالْحَقِّ۔

حق لوگوں کی کثرت اور اشخاص سے نہیں پہچانا جاتا، بلکہ افراد کی شناخت حق کے ذریعے ہوتی ہے

اِس بنیاد پر ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم حق کو نہیں پہچانتے، تاکہ اُسے معیار اور کسوٹی قرار دے کر افراد کو اُس کے ذریعے سے پرکھیں اور اُن کی قدروقیمت کا فیصلہ کریں۔

۲علم حجت ہے

امام ؑ نے اخلاقی مفاہیم بیان کرنے والے اپنے ایک کلام میں فرمایا ہے:

اَیُّھَا النَّاسُ، مَنْ عَرَفَ مِنْ اَخِیْہِ وَثِیْقَۃَ دِیْنٍ وَّسَدَادَ طَرِیْقٍ، فَلاَ یَسْمَعَنَّ فِیْہِ اَقَاوِیْلَ الرِّجَالِ۔

اے لوگو! اگر تمہیں اپنے کسی بھائی کی دینداری کی پختگی اور اُس کے طور طریقوں کی درستگی کا علم ہو، تو پھر اُس کے بارے میں لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرو

یعنی جب آپ کا اپنے کسی مؤمن بھائی کے ساتھ ربط و تعلق ہو اورآپ نے دین میں اُس کی استقامت اور اخلاق میں اُس کی درستگی کا عملاً مشاہدہ کیا ہو، تو اگر ایسی صورت میں کوئی شخص آپ کے پاس آئے اور آپ کے اِس برادرِ مؤمن کی لادینیت اور گمراہی کے بارے میں کوئی بات کرے، تو اِس شخص کی بات پر دھیان نہ دیں، کیونکہ:

أَمَا اِنَّہٗ قَدْ یَرْمِی الرَّامِیْ وَ تُخْطِیءُ السِّھَامُ، وَیُحِیْلُ الْکَلَامُ وَبَاطِلُ ذٰ لِکَ یَبُوْرُ، وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ وَّشَھِیْدٌ۔

دیکھوکبھی تیر چلانے والا تیر چلاتا ہے اور اتفاق سے تیر خطا کر جاتا ہے اور بات ذرا میں اِدھر سے اُدھر ہو جاتی ہےاور جوبات غلط ہوگی وہ خود ہی نیست و نابود ہو جائے گیاور خدا ہرچیز کا سننے والا اور ہر شئے کی خبر رکھنے والا ہے

مزید فرماتے ہیں کہ:

اَمَا اِنَّہٗ لَیْسَ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ اِلَّا أَرْبَعُ أَصَابِعَ۔

معلوم ہونا چاہیے کہ حق اور باطل کے درمیان صرف چار انگلیوں کا فاصلہ ہے

فَسُءِلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ عَنْ مَّعْنٰی قَوْلِہٖ ھٰذَا۔ جب آپ ؑ سے اِس کا مطلب پوچھا گیا تو فرمایا: فَجَمَعَ اَصَابِعَہُ وَوَضَعَھَا بَیْنَ اُذُنِہٖ وَعَیْنِہٖ ثُمَّ قَالَ۔

آپ ؑ نے اپنی انگلیوں کو ملا کر اپنے کان اور آنکھ کے درمیان رکھا اور فرمایا:

اَلْبَاطِلُ أَنْ تَقُوْلَ سَمِعْتُ، وَالْحَقُّ اَنْ تَقُوْلَ رَأََ یْتُ۔

باطل وہ ہے جسے تم کہو کہ میں نے سُنا ہے اور حق وہ ہے جسے تم کہو کہ میں نے دیکھا ہے۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۳۹

انتہائی تھوڑے لوگ ہوں گے جو کسی شخص کے دین و اخلاق کے بار ے میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہوںاِس کے برخلاف انتہائی کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو کسی کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت صرف سُنی سُنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔

۳دوسروں سے پہلے خود کو نصیحت کیجیے

حضرت علی ؑ کی یہ سفارش اور تاکید اُن لوگوں کے بارے میں ہے جو اصلاحِ معاشرہ، لوگوں کو وعظ و نصیحت اور تبلیغ و ترویجِ دین کے عظیم کام میں مشغول ہوتے ہیں آپ ؑ ایسے لوگوں سے فرماتے ہیں:

مَنْ نَصَبَ نَفْسَہٗ لِلنَّاسِ اِمَامًا فَلْیَبْدَأُ بِتَعْلِیْمِ نَفْسِہٖ قَبْلَ تَعْلِیْمِ غَیْرِہٖ۔

جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے، اُسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے آپ کو تعلیم دینی چاہیے

یعنی پہلے خود اپنے آپ کو تعلیم دے، تاکہ وہ گفتار سے زیادہ اپنے کردار سے لوگوں کی ہدایت کر سکے، اوراُس کی کہی ہوئی بات اُس کے دل کی گہرائیوں سے نکلے (دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے) ایسا نہ ہو کہ اُس کی بات صرف نوکِ زباں سے جاری ہوکیونکہ زبان سے کوئی بات کہہ دیناانتہائی آسان کام ہےلیکن دل کی گہرائیوں سے بات نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ کہنے والے نے اِسے صدقِ دل سے قبول کیا ہواہواور اِس بات پر خود عمل پیرابھی ہویہاں تک کہ اُس کا کلام اُس کے وجود سے خارج اور علیحدہ نہ ہو، بلکہ اُس کے وجود میں اُس کی جڑموجود ہو۔

وَلْیَکُنْ تَأْدِیْبُہٗ بِسِیْرَتِہٖ قَبْلَ تَأْدِیْبِہٖ بِلِسَانِہٖ، وَمُعَلِّمُ نَفْسِہٖ وَمُؤَدِّبُھَاأَحَقُّ بِالْاِجْلَالِ مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ وَ مُؤَدِّبِھِمْ۔

اور زبان سے درسِ اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دیناچاہیےاور جو اپنے نفس کی تعلیم و تادیب کر لے، وہ دوسروں کی تعلیم و تادیب کرنے والے سے زیادہ احترام کا مستحق ہے۔ نہج البلاغہ کلماتِ قصار ۷۳

اگر ایک انسان لوگوں سے کوئی بات کہے اور خود اِس بات پر عمل پیرا نہ ہو، تو خداوندِ عالم کا یہ قول اُس پر بھی صادق آئے گا کہ:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَٰامَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَتَفْعَلُوْنَکَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اﷲِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْن

اے ایمان والو! آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتےاﷲ کے نزدیک یہ سخت ناراضگی کا سبب ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہیں کرتے ہوسورۂ صف ۶۱آیت۲، ۳

۴حقیقت کی تلاش

انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی پوری زندگی حق وحقیقت کا متلاشی رہےجب آپ حصولِ علم میں مشغول ہوں، تو آپ کو چاہیے کہ مفید علم و دانش حاصل کریں اور مدرّسین ومعلّمین کے بار ے میں کوئی فرق نہ رکھیں، اور یہ نہ کہیں کہ ہم صرف مؤمن سے علم حاصل کریں گے منافق سے نہیںبلکہ ہمیں چاہیے کہ پوری دنیا میں پھریں اور ہر صاحبِ علم سے علم حاصل کریںخواہ وہ کافر ہو، خواہ مؤمن اور خواہ منافق کیونکہ کسی کافر یا منافق سے حکمت و دانائی کی باتیں سیکھنے والا کافر یامنافق نہیں ہو جاتا۔ اِس لیے کہ وہ اُس سے علم و حکمت سیکھ رہا ہے نہ کہ اُس کے عقائدحکمت کافر اور مؤمن دونوں کے دلوں میں ہوسکتی ہےپس حصولِ علم کے دوران اپنے آپ کو کسی تنگ دائرے میں قید نہیں کرنا چاہیے۔

امام علی ؑ یہ نہیں چاہتے کہ آپ جس چیز کو سُنیں، بغیر کسی غور و فکر کے اُسے قبول کر لیںجو کچھ ہم سنتے ہیں اور جس چیز پر کان لگاتے ہیں، اُن دونوں کے درمیان فرق ہےکیونکہ سننا، بغیر غور و فکر کے لا شعوری طور پر آوازوں کا کان میں پڑنا ہے، جبکہ کان لگا کے سننا، باتوں کودھیان سے سننا ہےاِس میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ ایسی سُنی ہوئی بات عقل و فکر کے فعال و متحرک ہونے کا باعث بنتی ہے۔

امام ؑ فرماتے ہیں کہ:

ذِالْحِکْمَۃَ أَنّٰی کَانَتْ فَاِنَّ الْحِکْمَۃَ تَکُوْنُ فِی صَدْرِالْمُنَافِقِ فَتَلَجْلَجُ فِیْ صَدْرِہٖ، حَتیّٰ تَخْرُجَ فَتَسْکُنَ اِلٰی صَوَا حِبِھَا فِیْ صَدْرِالْمُؤْمِنِ۔

حکمت کی بات جہاں کہیں ہو اُسے حاصل کروکیونکہ اگر وہ منافق کے سینے میں ہو، تو وہاں اُس وقت تک بیتاب رہتی ہے جب تک مؤمن کے دل میں آکر دوسری حکمتوں کے ساتھ بہل نہ جائےنہج البلاغہ کلماتِ قصار ۷۹

حکمت اگر منافق کے سینے میں ہو، تو وہاں بے قراررہتی ہے اور وہاں سے نکلناچاہتی ہےپس اُسے حاصل کرو اور دوسرے علوم کے ساتھ اپنے دل میں رکھو۔

ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ فَخُذِالْحِکْمَۃَ وَلَوْ مِنْ أَھْلِ ا لنِّفَاقِ۔

حکمت مؤمن ہی کی گمشدہ شئے ہے، اُسے حاصل کرو، اگرچہ منافق سے حاصل کرنا پڑےنہج البلاغہ کلماتِ قصار ۸۰

۵حقیقی فقیہ

ایک ایسا شخص جو لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا چاہتا ہے، اُسے کس انداز سے یہ عمل انجام دینا چاہیے؟ کیا اُسے جنت کا تذکرہ اِس اندازسے کرنا چاہیے کہ سننے والا یہ محسوس کرے کہ جنت کے حصول میں اُس کے سامنے کوئی رکاوٹ حائل نہیں؟ اور اگروہ دوزخ کے بارے میں گفتگو کرے، توکیااُسے یہ گفتگوایسے کرنی چاہیے کہ سننے والے سب لوگ اپنے آپ کو دوزخ کے دَہانے پرکھڑا محسوس کریں؟

اِس بارے میں امام ؑ فرماتے ہیں:

اَلْفَقِیْہُ کُلُّ الْفَقِیْہِ مَنْ لَّمْ یُقْنِّطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ

فقیہِ کامل وہ ہے جو لوگوں کو خدا کی رحمت سے نا امید نہ کرے

لوگوں کے گناہوں اور اُن کی لغزشوں کے بارے میں اِس انداز سے گفتگو نہ کرے کہ اگر اُن لوگوں کا شمار رحمتِ خدا سے دور لوگوں میں ہوتا ہو، تو وہ مکمل طورپرنا امید ہو جائیں اور اپنے سامنے رحمت کے تمام دروازے بند محسوس کریںجبکہ خداوندِ عالم فرماتا ہے:

وَلاَ تَایْءَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اﷲِ اِنَّہٗ لاَ یَایْءَسُ مِنْ رَّوْحِ اﷲِ اِلَّا الْقَوْمُ الکٰفِرُوْنَ۔

اور رحمتِ خدا سے مایوس نہ ہونا کہ اُس کی رحمت سے کافر قوم کے سوا کوئی مایوس نہیں ہوتاسورۂ یوسف ۱۲آیت ۸۷

اِسی طرح پروردگارِعالم کاارشادہے: وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ءٍ۔ (اور میری رحمت ہر شئے پر چھائی ہوئی ہےسورۂ اعراف ۷ آیت ۱۵۶)

آگے چل کر امام ؑ فرماتے ہیں:

وَلَمْ یُؤْیِسْھُمْ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ۔

اوراللہ کی رحمت سے مایوس نہ کر دے

خداوندِ عالم نے ہر حال میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت اور امید کے دروازے کھلے رکھے ہیں، وہ کبھی یہ دروازے بند نہیں کرتامزید فرمایا کہ:

وَلَمْ یُؤْمِنْھُمْ مِنْ مَکْرِاللّٰہِ۔

اور نہ ہی اُنھیں اﷲ کے عذاب سے بالکل مطمئن کر دےنہج البلاغہکلماتِ ِ قصار ۹۰

بلکہ اُنھیں عذابِ الٰہی سے خبردار اور متنبہ کرےکیونکہ ممکن ہے خداوندِ عالم کسی کو مہلت دے، لیکن یوں ہی چھوڑ ے گا کسی کو نہیں۔

جیسا کہ آپ ؑ فرماتے ہیں: وَقَدْ عَلِمْتُ اَنَّہٗ لَیْسَ فِیْ حُکْمِکَ ظُلْمٌ وَلَا فِیْ نَقْمَتِکَ عَجَلَۃٌ اِنَّمَا یُعَجَّلُ مَنْ یَخَافُ الْفَوْتَ وَ یَحْتَاجُ اِلٰی الظُّلْمِ الضَّعِیْفُ۔ (میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تیرے فیصلے میں ظلم و ستم کی کوئی گنجاش نہیں اور تو عذاب کرنے میں جلدی نہیں کرتاکیونکہ ایسا شخص جلدی کرتا ہے جو ڈرتا ہے کہ موقع اُس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور جو کمزور پر ظلم کرنا چاہتا ہے )

۶علم و دانش خیر ہے

کسی شخص نے امام ؑ سے خیر کے بارے میں سوال کیا۔ آپ ؑ نے اُس کے جواب میں فرمایا:

لَیْسَ الْخَیْرُاَنْ یَکْثُرَ مَالُکَ وَوَلَدُکَ، وَلٰکِنَّ الْخَیْرَ أَنْ یَکْثُرَ عِلْمُکَ وَ یَعْظُمَ حِلْمُکَ۔

مال اور اولاد کی کثرت خیر نہیں ہے، بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارے پاس علم زیادہ ہو اور تمہاراحلم بڑھا ہوا ہو۔

کیونکہ مال انسان کی ذات سے باہر ایک علیحدہ وجود کا حامل ہوتا ہے، جو قانون کے فیصلے کی رو سے اُس کا بنتا ہےجب کسی کی ملکیت بڑھتی ہے تو ایساشخص انسانی اعتبار سے ترقی و کمال کے درجات طے نہیں کرتا۔ یہی معاملہ آل اولاد کا ہے، اُن کا وجودبھی علیحدہ اور مستقل حیثیت کا مالک ہواکرتا ہےممکن ہے انسان اُن سے مانوس ہو اور اُن پر فخر و ناز کرے، لیکن وہ خود اِس انسان کی ذات میں کسی چیزکا اضافہ نہیں کرتے۔ اب اگر کسی کے پاس کروڑ ہا روپے ہوں اور کثیر تعداد میں آل اولادہو، تو یہ چیزیں اُس کی انسانیت کا مظہرنہیں ہو سکتیں اور اُسے کوئی حقیقی فائدہ نہیں پہنچاسکتیں۔

وَلٰکِنَّ الْخَیْرَ أَنْ یَکْثُرَ عِلْمُکَ۔ (لیکن خیر یہ ہے کہ تمہارے پاس علم زیادہ ہو) تمہیں ایک ایسا انسان ہونا چاہیے جو بے پایاں عقل کی بنیاد پر سعہ صدر کا مالک ہوتاکہ تم ایک متحمل مزاج انسان بنو، جو بے چین اور غصہ ور نہیں ہوتا، بلکہ ناگوار باتوں اور مشکل حالات کو سکون اورمطمئن ذہن کے ساتھ گزار دیتا ہےجب عفو ودر گزر کی ضرورت ہوتی ہے، تو لوگوں کو معاف کر دیتا ہے، اُن کے ساتھ درگزر سے پیش آتا ہے اور جب معاف کرنا مناسب نہیں سمجھتا، تو معاف نہیں کرتا۔

اور آپ ؑ نے فرمایا: وَأَنْ تُبَاھِیَ النَّاسَ بِعِبَادَۃِ رَبِّکَ (اور تم اپنے پروردگار کی عبادت پر لوگوں کے سامنے ناز کر سکو) یعنی بندگئ رب میں اِس قدر آگے بڑھو کہ دوسروں کے سامنے فخر و مباہات کے مقام پر جا پہنچو۔ البتہ یہاں فخر و مباہات سے مراد دوسروں پر رعب جمانااور اُن کے سامنے خود پسندی کامظاہرہ کرنا نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا کرناعبادت کو برباد کر دینے کا باعث ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبادت کی توفیق کامالک ہونا اور اپنے آپ کو خود پسندی سے محفوظ رکھنا بھی پسندیدہ اور مطلوب انسانی خصائل میں شامل ہیںفَاِنْ أَحْسَسنْتَ (پس اگر کوئی نیک عمل انجام دو) حَمِدْتَّ اللّٰہَ، وَاِنْ أَسَأْتَ اسْتَغْفَرْتَاللّٰہَ (تو خدا کا شکر اداکرو، اور اگر کسی گناہ کے مرتکب ہو جاؤ، تو استغفار طلب کرو)۔ وَلَا خَیْرَ فِی الدُّنْیَا اِلَّالِرَجُلَیْنِ( دنیا میں صرف دو اشخاص کے لیے بھلائی ہے) اور اِس کا تعلق انجامِ کار سے ہےاِسی طرح جیسے اِس بارے میں پیغمبرؐ نے بھی فرمایا ہے کہ: مَا خَیْرُ بِخَیْرٍ بَعْدَہُ النَّاسُ وَ مَا شَرُّ بِشَرٍّ بَعْدَ الْجَنَّۃِ (کوئی نیکی نیکی نہیں جس میں لوگوں کے لیے دکھاوا ہو، اور کوئی بُرائی بُرائی نہیں اگر اُس کے نتیجے میں جنت حاصل ہو رہی ہو) رَجُلٌ أَذْنَبَ ذُنُوْبًا فَھُوَ یَتَدَا رَکُھَابِالتَّوْبَۃِ (ایک وہ جوگناہ کرے، توتوبہ کے ذریعے اُس کی تلافی کر لے) وَرَجُلٌ یُسَارِعُ فِی الْخَیْرَاتِ (اوردوسرا وہ جو نیک کاموں میں جلدی کرتاہونہج البلاغہ کلماتِ قصار ۹۴)

لَا یَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَی۔ (جوعمل تقویٰ کے ساتھ انجام دیاجائے وہ قلیل نہیں ہوتا) پرہیز گاری اختیار کر واور اپنے اعمالِ صالحہ کی کثرت کو نہ دیکھوکیونکہ تقویٰ عقل، قلب، قوت اور استعداد کی پرہیزگاری کا باعث ہوتا ہے۔ اِس میں کاموں کی تعداد اور مقدار اہم نہیں ہوتیکیونکہ کسی عمل کی عظمت اُس عمل کی روح کی عظمت سے تولی جاتی ہےوَکَیْفَ یَقِلُّ مَا یُتَقََّبلُ؟ (بھلا مقبول عمل قلیل کیسے ہو سکتا ہے؟ نہج البلاغہکلماتِ قصار ۹۵) پس کسی عمل کی اہمیت اور عظمت خدا کی طرف سے اُ س کی قبولیت سے وابستہ ہےکیونکہ یہ انسان کو خدا سے قریب کرتا ہے اور اُسے خدا کی بارگاہ میں عظیم بناتا ہے۔

۷سُنی ہوئی بات کو عقل سے پرکھو

امام ؑ کا ارشاد ہے: اعْقِلُوالْخَبَرَ اِذَا سَمِعْتُمُوْہُ۔ (جب کوئی خبر سنو تو اُسے عقل کی کسوٹی پرپرکھونہج البلاغہ کلماتِ قصار ۹۸)

ہم زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں رسول اﷲؐ اور ائمۂ معصومین ؑ کی بہت سی احادیث وروایات سنتے ہیں جبکہ اِن روایات و احادیث کے ہم تک پہنچنے کے ذرائع کی کثرت ہماری آج کی زندگی میں بالکل سامنے کی بات ہےکیا اصل مسئلہ حدیث یا روایت کا صرف سننا اور سُن کر اسے آگے بڑھادینا ہے، یاضروری ہے کہ اُس کے فہم و ادراک اور تجزیہ و تحلیل کے ساتھ اُسے سنا جائے اور ذہن نشین رکھا جائے؟

یعنی ہم اُس کے مضامین کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ حقیقت سے کس قدر دور یا نزدیک ہے؟ حق کی مخالف تو نہیں؟ عقل سے ساز گار اور اُس کے موافق ہے یا نہیں؟ اور اشیا کی ذات اور حقیقت کی نشاندہی کرنے والی ہے یا نہیں؟

اِس حوالے سے ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں ایسے لوگ خطرناک ثابت ہوتے ہیں جوسُنی سُنائی احادیث وروایات کودوسروں کے اذہان میں منتقل کرتے ہیں۔ جبکہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ توجہ اور کنٹرول کے بغیراِن احادیث و روایات کا نقل کردینا لوگوں کے درمیان رائج مُسلَّمہ امور میں خلل اندازی کا باعث بنتا ہے۔

لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم جس بات کو سُنیں، پہلے عقل کی روشنی میں اُس کا جائزہ لیں۔ اِسی بنا پر امام ؑ نے فرمایا ہے کہ:

اعقِلُوالْخَبَرَاِذَا سَمِعْتُمُوْہُ عَقْلَ رِعَایَۃٍ لَاعَقْلَ رِوَایَۃٍ، فَاِنَّ رُوَاۃَ الْعِلْمِ کَثِیْرٌ، وَرُعَاتَہٗ قَلِیْلٌ۔

جب کوئی خبر سُنو، تو اُسے عقل کی کسوٹی پرپرکھو، البتہ اُس پرعمل کے لیے نہ کہ اُسے نقل کرنے کے لیےکیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں لیکن اُس پر عمل کرنے والے کمنہج البلاغہ کلماتِ قصار ۹۸)

۸دنیا اور آخرت کا نقصان

امام علی ؑ نے دنیا اور آخرت کے زیاں اور نقصان کے بارے میں فرمایاہے:

لَا یَتْرُکُ النَّاسُ شَیْءًا مِّنْ اَمْرِدِیْنِھِمْ لاِ سْتِصْلَاحِ دُنْیَاھُمْ اِلاَّفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مَا ھُوَاَ ضَرُّمِنْہُ۔

جو لوگ اپنی دنیا سنوارنے کے لیے، دین کی کسی چیز کو ترک کرتے ہیں، تو خدااُن کے لیے اِس دنیاوی فائدے سے کہیں زیادہ نقصان کی صورتیں پیدا کر دیتا ہےنہج البلاغہ کلماتِ قصار ۱۰۶

ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ ہم نے اپنی دنیاوی زندگی کی خاطردین کوکس قدرترک کیا ہے؟ اور اپنی نفسانی خواہشات، اپنے مادّی مفادات اور اپنے دل کی بات مانتے ہوئے کتنی مرتبہ دینی احکام سے روگردانی کی ہے؟ وہ دینی احکام جو ظالموں اور ستمگروں کے مقابل ڈٹ جانے کی تعلیم دیتے ہیں، ہم نے اُن احکام کو کس قدرنظراندازکیا ہے؟ کتنا اِس راہ میں صعوبتیں اور مشکلیں اٹھائی ہیں؟

خدا نے ہمیں نصیحت کی ہے اور دین ہمیں اِس بات کی تاکید کرتا ہے کہ ہم خدا کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو اہمیت نہ دیں اور کسی آزار پہنچانے والے کی آزار کو خاطر میں نہ لائیںاِس خدائی فرمان اور دینی تعلیم کو سامنے رکھ کر جواب دیجیے کہ ہم نے کتنی مرتبہ اور کتنے مواقع پر دین کی نظر میں مشکوک امور کو جائز قرار دیا ہے؟ دین کی راہ میں ہم کس قدر مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں؟

یہ تورہی دنیا کی بات، لیکن آخرت میں: یَوْمَ تَاْتِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِہَا۔ (وہ دن جب ہر انسان اپنے آپ سے جھگڑ رہا ہو گاسورۂ نحل ۱۶آیت ۱۱۱) اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَاِٰلہَہٗ ہَواٰاہُ۔ (کیا آپ نے اُس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہےسورۂ جاثیہ ۴۵آیت ۲۳) اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْٓءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا(تو کیا وہ شخص جس کے بُرے اعمال کو اِس طرح آراستہ کر دیا گیا ہے کہ وہ اُنھیں اچھا سمجھنے لگا۔ سورۂ فاطر ۳۵آیت ۸) اور: اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش دنیاوی زندگی میں بہک گئی ہے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیںسورۂ کہف ۱۸ آیت ۱۰۴) بہر حال اگر ہم دین کا دامن چھوڑ دیں تو دنیا اور آخرت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔