بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ نَا مُحَمَّدٍ وَاَھْلِ بَیْتِہِ الطِّیِّبِیْنَ الطَّاھِرِیْنَ وَصَحْبِہِ الْمُنْتَجَبِیْنَ وَعَلَی جَمِیْعِ اَنْبِیَاءِ الْمُرْسَلِیْنَ۔
واقعۂ غدیرایک ایسا واقعہ ہے جو اپنے بارے میں ہر قسم کے رَدِ عمل اور مثبت و منفی نقطہ ہائے نظر کے باوجود پوری تاریخِ اسلام پر اثر انداز ہوا ہے اوراِس نے اُسے اپنی گرفت میں لے رکھا ہےاِس واقعے نے اسلامی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیںلہٰذا اِسے ایک ضمنی اور غیر اہم مسئلہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اِسی طرح تاریخِ اسلام کے مختلف حوادث پر واقعۂ غدیرکے اثرات اور اِس کی وسیع اسلامی حیثیت پر توجہ کیے بغیر اِ سے محض ایک مسلکی مسئلہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
واقعۂ غدیر کے مطالعے کے دوران ہم ایسی متعدد روایات دیکھتے ہیں جو شاید تواتر کی حد تک بھی جا پہنچیں۔ اِن روایات میں(الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ) اِس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے روزِ غدیر فرمایا کہ: مَن کُنتُ مَولاہُ فَھٰذا عَلیٌّ مَولاہُ(جس کا میں مولا ہوں، یہ علی ؑ اُس کے مولا ہیں)
کتاب ”الغدیر“ کے مؤلف نے ایک گہری علمی تحقیق کے بعدذکر کیا ہے کہ مختلف طریقوں سے ایک سو دس اصحابِ رسول ؐاور بہت سے تابعین نے اِس حدیث کی روایت کی ہےاِس بنیاد پر اِس روایت کے مستند ہونے کے بارے میں شک، علمی لحاظ سے ایک ناقابلِ قبول بات ہے۔