ولایتِ غدیر

حضرت علی ؑ سے محبت اوراُن سے عداوت

ولایتِ غدیر   •   آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے دوستی اور دشمنی کے حوالے سے ابتدا سے آج تک ایک پیچیدگی موجود ہےمرادیہ ہے کہ بعض لوگ آپ ؑ سے محبت کرتے ہیں، آپ ؑ سے عقیدت رکھتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ ؑ سے بغض، دشمنی اورکینہ رکھتے ہیں اِس صورت میں ہمیں چاہیے کہ خود حضرت علی ؑ کے نقطۂ نظر سے باہمی دوستی اور دشمنی کے طرزِ عمل کے مختلف طریقوں کا جائزہ لیں، تاکہ اِس کے ذریعے محبت کے صحیح مفہوم کو سمجھ سکیں اور اِس مسئلے کی حقیقت تک پہنچ سکیں کہ آ پ ؑ اُن لوگوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جو اپنے دل میں آپ ؑ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں اور اُن کا یہ جذبہ اِس قدر شدید ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے تمام خزانوں کے منھ اُن کے لیے کھول دیے جائیں، تب بھی وہ اِس دشمنی اور عداوت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ اِس بارے میں حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:

لَوْضَرَبْتُ خَیْشَوْمَ الْمُؤْمِنِ بِسَیْفِیْ ھٰذَا عَلٰی اَنْ یُبْغِضَنِیْ، مَا أَبْغَضَنِیْوَلَوْصَبَبْتُ ا لدُّنْیَا بِجَمَّا تِھَا عَلَی ا لْمَنَافِقِ عَلٰی أَنْ یُحِبَّنِیْ مَا اَحَبَّنِیْ، وَذٰلِکَ أَنَہٗ قُضِیَ نَانْقَضَیْ عَلٰی لِسَانِ ا لنَّبَیِّ اِلْاُمِّی(ص) أَنَہٗ قَالَ: یَا عَلِیُّ!لَا یُبْغِضُکَ مُؤْمِنٌ وَلَا یُحِبُّکَ مُنَافِقٌ۔

اگر میں یہ تلوارمؤمن کی ناک پرماروں کہ وہ مجھ سے دشمنی کرنے لگے، تو وہ ہرگزایسا نہیں کرے گااور اگر دنیا کی تمام نعمتیں منافق کے سامنے ڈھیر کردوں، کہ وہ مجھ سے محبت کرنے لگے، تو وہ ہرگزیہ نہیں کرے گا۔ اِس لیے کہ اِس بات کا فیصلہ نبئ صادق (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے ہو چکا ہے کہ: اے علی! کوئی مؤمن تم سے دشمنی نہیں کر سکتا اور کوئی منافق تمہارامحب نہیں ہو سکتا۔ (۱)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس بنیاد پریہ بات کہی ہے؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ کسی سے محبت کرنا اور کسی سے بغض و عداوت رکھنا ایک قلبی امر ہے، دل کا معاملہ ہے، جس کے بارے میں عام طور پر کوئی متعین اور معروف اصول نہیں پایا جاتاکیونکہ بعض اوقات دل کسی ایسے شخص کی محبت میں بھی گرفتار ہوجاتا ہے جومحبت کرنے والے سے اختلافِ رائے رکھتا ہےاِسی طرح بسا اوقات اِس کے برعکس بھی ہوتا ہےاِس بنیاد پر دل کسی متعین اصول اور قاعدے کا پابندنہیں ہوتا، جس کی بنیاد پر وہ عمل کرتا ہولہٰذا کیا وجہ ہے کہ مؤمن علی ؑ سے کینہ و عداوت نہیں رکھتا اور منافق اُن سے دوستی اور محبت نہیں کرتا؟

علی ؑ میں کچھ ایسی انسانی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی بنیاد پر ممکن ہے کہ منافق اُن سے محبت کرےحضرت علی ؑ شجاع، عالم، عادل اور بہت سی اعلیٰ انسانی صفات کے مالک شخص ہیں اور لوگ اِنہی صفات و خصوصیات کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔

جب ہم دنیا میں محبت اور دشمنی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں، تو اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ مسئلہ آئیڈیالوجی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ کیونکہ علی ؑ سے محبت کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو سادہ قلبی احساسات سے تعلق رکھتا ہوبلکہ اِس کا تعلق گہرے فکر و شعور سے ہےکیونکہ علی ؑ کا پورا وجود ایمان سے معمور تھاآپ ؑ کے بارے میں خداوندِ عالم فرماتا ہے

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اﷲِ

اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کو خدا کی خوشنودی کی خاطر بیچ ڈالتے ہیںسورۂ بقرہ ۲آیت ۲۰۷

علی ؑ نے خدا کے ساتھ اپنی جان کا سودا کیاحضرت علی ؑ کے وجود میں اپنے لیے کوئی چیز نہ تھیآپ ؑ کی فکر، قلب، جد و جہد، شجاعت، زہد، عدل اور علم سب کچھ راہِ خدا کے لیے تھااور اِن میں سے ہر چیز ایمان کے مدار پر گھومتی تھیلہٰذا ایک ایسا مؤمن جو گہرے ایمان کا مالک ہو اور جس کی زندگی اِسی راہ پر گامزن ہو، بے شک و ہ علی ؑ سے محبت کرے گاکیونکہ جب وہ اُس خدا سے محبت کرتا ہے جس پر علی ؑ ایمان رکھتے ہیں، جس کی معرفت علی ؑ رکھتے ہیں اور جس کی راہ میں وہ جہاد کرتے ہیں، تو لا محالہ وہ علی ؑ سے بھی محبت کرے گا اور اگروہ اسلام سے محبت کرتا ہے، تو لازماً وہ علی ؑ سے بھی محبت کرے گا۔

علی ؑ اور حق کے درمیان کوئی دوئی اور فاصلہ نہیںلہٰذا ایک ایسا شخص جو حق پر ایمان رکھتا ہے، اُس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ علی ؑ پر بھی ایمان رکھےکیونکہ اگر کوئی شخص حق پر ایمان رکھتا ہے، تو اُسے چاہیے کہ آزادی، غورو فکراور عشق و محبت کے ساتھ کسی ایسے شخص کی پیروی کرے جو کُلِ ایمان ہے اور علی ؑ ایمان کے تمام و کمال کا مظہر ہیں۔

منافق اُسے کہا جاتا ہے جس نے اپنے دل میں کفر کو چھپایا ہوا ہوتا ہے، جس کے دل میں ذرّہ برابر ایمان نہیں ہوتا اور جو اپنے افکار اور عقائد پر پردہ ڈالنے کے لیے زبان سے ایمان کا اظہار کرتا ہے، تاکہ عقائد، اعمال اور زندگی کے تمام میدانوں سے ایمان کو جڑ سے ختم کر دےبھلا کیسے ممکن ہے کہ ایسا شخص علی ؑ کا محب ہو؟ !

۱۔ نہج البلاغہ کلماتِ قصار ۴۵