پیغمبر ؐکے بعد علی ؑ کو درپیش مشکلات
ولایتِ غدیر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
پیغمبر ؐکے بعد حضرت علی ؑ کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ ؑ اپنے آپ کو تن تنہا محسوس کرتے تھےتنہا سوچتے، تنہا تکالیف برداشت کرتے اور تنہا ہی خطرات کا سامنا کرتےآپ ؑ جانتے تھے کہ آپ ؑ کا مقام اُس میخ کا سا ہے جس کے گرد چکّی گھومتی ہے اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ چکّی کی یہ میخ یا کلِّی ایک ہی ہوتی ہےوہ اِس بات پر یقین رکھتے تھے کہ علم و معرفت کا پاک و پاکیزہ چشمہ آپ ؑ ہی کے وجود سے جاری ہوتا ہے اور آسمانِ علم و دانش کے کسی پرندے میں مجال نہیں کہ وہ اُن کے علم و دانش کی بلندیوں تک پہنچ سکےعلی ؑ اپنے بھرپور علم و دانش سے خوب آگاہ تھےلیکن اُنھیں کوئی ایسا شخص نہیں ملتا تھا جو اِس چھلکتے ہوئے دریائے علم سے فیض اٹھا سکےاوریہ بات آپ ؑ کو مسلسل کرب اور غم واندوہ میں مبتلا رکھتی تھیآپ ؑ خود فرماتے ہی: ھَااِنَّ ھَا ھُنَا لَعِلْماً جَمًّا (وَاَشَارَ بِیَدِہِ اِلی صدرہ) لَوْ أَصَبْتُ لَہُ حَمَلَۃً۔ (دیکھو یہاں} حضرت ؑ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا{ علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ کاش! اِس کو لینے والے مجھے مل جائیںنہج البلاغہ کلماتِ قصار ۱۴۷)
اپنے علم کا بوجھ اٹھانے کے لیے آپ ؑ کا ایسے افراد کو طلب کرنا، اُنھیں تلاش کرنا، اِس لیے نہ تھا کہ آپ ؑ اپنے علم کو اپنی برتری اور اقتدار کا ذریعہ بنانا چاہتے تھےبلکہ آپ ؑ طالبِ علموں کے متلاشی اِس لیے تھے تاکہ اُن کے ذریعے اپنے علم و دانش کوآئندہ نسلوں تک منتقل کر سکیںاِسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ علی ؑ اپنی قوم اور اپنے زمانے میں تن تنہا رہےاور آپ ؑ کی ایک سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ آپ ؑ ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے تھے جسے آپ ؑ کے مقام و منزلت کا ادراک ہی نہ تھا۔ اِس بات کی گواہ آپ ؑ کی وہ گفتگو ہے جو آپ ؑ نے (خلیفۂ ثانی کی جانب سے قائم کردہ) شوریٰ اور اُس سے متعلق مسائل پر فرمائی: فَیَا لَلّٰہِ وَلِلشُّوْرَی، مَتَی اعْتَرَضَ الرَّیْبُ فِیَّ مَعَ الْاَوَّلِ مِنْھُمْ حَتیَّ صِرْتُ أُقْرَنُ اِلَی ھٰذِہِ النَّظَاءِرِ، لٰکِنِّی اَسْفَفْتُ اِذْ أَ سَفُّوا، وَطِرْتُ اِذْاطَارُوا۔ (اے اﷲ! مجھے اِس شوریٰ سے کیا سروکار! اِن میں سب سے پہلے کے مقابلے ہی میں میرے استحقاق اور فضیلت میں کیا شک تھا، جو اب اِن لوگوں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوںمگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب و ہ زمین کے نزدیک ہو کر پرواز کرنے لگیں، تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں، تو میں بھی اِسی طرح پرواز کروںنہج البلاغہ خطبہ ۳) یعنی جہاں تک ہو سکے کسی نہ کسی صورت اِن سے نباہ کرتا رہوں۔
حضرت علی ؑ نے اسلام کے تحفظ اور اُس کی بقا و سلامتی کے لیے بدترین حالات کا سامنا کیا اور اپنے انفرادی اور ذاتی مسائل سے درگزر فرمایااگر آپ ؑ خلافت کے طلبگار تھے، تو یہ اپنے کسی شخصی اور ذاتی مفاد کے لیے نہ تھابلکہ صرف اور صرف اسلام کی بہتری مقصود تھی۔
اِن حسّاس حالات میں حضرت علی ؑ کو جس مشکل کا سامنا تھا، وہ اسلام کو انحراف کی طرف دھکیلنے والی قوتوں سے اُسے بچانے کی مشکل تھیآپ ؑ ہر چند ظاہری طور پر اسلام کو دنیا میں فروغ پاتا دیکھ رہے تھے، اِسے مضبوط ہوتا دیکھ رہے تھے، لیکن آپ ؑ کی خواہش تھی کہ اسلام انسانوں کے شعور میں رچ بس جائے، اُن کی فکر اور سوچ میں جگہ بنائے، اُن کی روح میں اُتر جائےجیسا کہ پیغمبر اسلام ؐکے زمانے میں قدرتی طور پر اسلام پھیلاپیغمبر اسلامؐ ایمان کے بارے میں فرماتے تھے کہ: مَنْ قَالَ لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہِ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَقِنَ بِھَا مَالُہٗ وَدَمُہٗ وَ عِرْضُہٗ۔ (جو کوئی یہ کہہ دے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اﷲ کے، اور محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں، اُس نے اپنے مال و جان اور عزت و آبرو کو امان میں کر لیا) لیکن وہ حقیقتاً ایمان نہیں لایا ہےاِسی طرح اِس بارے میں قرآنِ کریم میں اشارہ کیا گیا ہے کہ: قَالَتِ الْاَعْرَابُ ٰامَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَٰلکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ۔ (یہ دیہاتی عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، تو آپ اِن سے کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لے آئے ہیں، کہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہےسورۂ حجرات ۴۹آیت ۱۴)
بہر حال، اپنے زمانے میں رسولِ مقبولؐ کا لائحۂ عمل یہ تھا کہ لوگ شرک سے نکل کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اِس طرح رفتہ رفتہ ان میں اسلام کی قبولیت کا میدان ہموار ہو۔