ولایتِ غدیر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد: مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ۔۔۔ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ولایت سے مرا د ”حاکمیت“ ہےکیونکہ اگریہاں لفظ ”مولیٰ“ سے مراد حاکمیت نہ ہوں، تو پیغمبر کی اُس تمہید کا موضوع سے کوئی ربط قرار نہیں دیا جاسکے گا۔

پھر اِس کے بعد آنحضرت ؐنے فرمایا: اللَّھمَّ والِ مَن والاہُ(بارِ الٰہا! جو کوئی اس سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت فرما)۔ اِس مقام پر پیغمبرؐکے مدِ نظر وہ حاکم ہے جسے مدداور نصرت کی ضرورت ہوتی ہے اور جسے اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ حق ہر حالت میں اُس کے ساتھ ہو۔

بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ: مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰہُ فَھٰذا عَلیٌّ مَولاٰہُ کی یہ تفسیر کریں کہ :جو کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے، وہ علی ؑ سے محبت کرے، جو کوئی میری نصرت کرتا ہے وہ علی ؑ کی نصرت کرے۔

ایسے لوگوں کے جواب میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اِتنی سی بات بیان کرنے کے لیے ایسے عظیم اجتماع اور مسلمانوں کو اِس قدر مشقت اور سختی میں ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی، اسی طرح پیغمبرکی جانب سے علی ؑ کے مددگار لوگوں کے حق میں دعا کرنے کی ضرورت بھی نہ تھیعلاوہ ازایں علی ؑ کو تنہا چھوڑ دینے والوں کے لیے روزِ قیامت تنہائی اور رسوائی کا وعدہ دینے کی ضرورت بھی نہ تھی اور نہ ہی یہ ضروری تھا کہ پیغمبرؐ یہ فرماتے کہ: ”جہاں علی ؑ جائیں حق وہیں ہوتا ہے۔“

اِس کے بعد جنابِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیمہ نصب کیا گیا، جس میں مسلمانوں نے گروہ در گرو ہ حاضر ہو کر حضرت علی ؑ کی بیعت کی۔ اوراِن مراسم کے اختتام پر پروردگارِ عالم کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی کہ: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا(آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو تمام کر دیا ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا ہےسورۂ مائدہ ۵آیت ۳)

اِسی زمانے سے منافقین اور علی ؑ سے عداوت رکھنے والے لوگوں نے اِس حقیقت کو مٹانے، اِس میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اِس میں تحریف کے لیے کوششیں شروع کر دیںاِس قسم کے اقدامات صرف زمانۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک محدود نہ تھے، بلکہ خود حضرت علی ؑ کے زمانے تک جاری رہے اور اِس بنا پر حضرت علی ؑ کو بہت زیادہ تکالیف سہنی پڑیںیہاں تک کہ آپ ؑ نے اِن مخالفتوں اور کوششوں کے توڑ کے لیے اُن اصحابِ رسول کو گواہی کے لیے طلب کیا جنہوں نے پیغمبر اسلامؐ کے اِس خطاب کو اپنے کانوں سے سنا تھا اور جو غدیر کے دن وہاں موجود تھے۔ (۱)

اگرچہ دشمن اپنے مقاصد کے حصول اور مسلمانوں کے اذہان سے اِس عظیم دن کی یاد مٹانے میں ناکام رہے، لیکن اُن کے اقدامات کا کم از کم یہ نتیجہ ضرور برآمد ہوا کہ وہ غدیر کے بارے میں عام لوگوں کے اذہان کو منتشر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بعض مقامات پر اِس کے اثرات آج تک باقی نظر آتے ہیں۔

۱۔ یہاں بطاہر مؤلف کی مراد وہ واقعہ ہے کہ جب اپنے دورِ خلافت میں (یعنی واقعۂ غدیر کے قریب ۲۵ سال بعد)حضرت علی ؑ نے کوفہ کے میدانِ رحبہ میں لوگوں کو جمع کیا اور اُنھیں قسم دے کر کہا کہ جس کسی نے روزِ غدیر آنحضرت کواعلان کرتے دیکھا اور سنا ہو، وہ کھڑا ہوکرگواہی دے۔ اِس پر تیس اصحابِ رسول کھڑے ہوئے، جن میں سے بارہ وہ تھے جو غزوۂ بدر میں بھی شامل رہے تھے، اور اِن سب نے حدیثِ غدیر کی گواہی دی۔ (مترجم)