خلافت کے لیے حضرت علی ؑ کی اہلیت
ولایتِ غدیر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
سوال یہ ہے کہ اصحاب کی اِس قدر زیادہ تعدادکی موجودگی کے باوجود رسولِ کریم ؐنے کس وجہ سے حضرت علی ؑ ہی کا انتخاب کیا؟
کیا اِس کا سبب رشتے داری تھی؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخرکیوں صرف حضرت علی ؑ ہی کو اسلامی معاشرے کی قیادت و حاکمیت کے لائق سمجھا؟
ہم جانتے ہیں کہ اسلام کو رسولِ کریمؐ کی فکر، قلب، عمل، عادات اور اخلاق سے ترقی ملیلہٰذا قرآنِ کریم کے ہمراہ پیغمبر اسلام کی شخصیت نبوت کا ایک بنیادی عنصر شمار ہوتی ہےاگر خداوندِ ِ عالم کسی ایسے شخص کو بھیجتا جو قرآنِ کریم کو نہایت سجا سنوار کے پیش کرتا، تو شاید وہ شخص حتیٰ ایک فرد کو بھی جذب نہ کرپاتالیکن قرآنِ مجید، اِس کتابِ صامت کے ہمراہ ایک ایسا پیغمبرؐ موجود تھا جو بولتی کتاب ہے۔
یہی وجہ ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اﷲؐ اپنی صفات اور اپنی شخصیت کے معنوی پہلو کے ذریعے تحریکِ اسلامی کو سیدھے اور صحیح راستے پر گامزن کر سکے۔
ہم اصحابِ رسول ؐکے بارے میں تمام تر احترام کے قائل ہونے کے باوجود، ایک مرتبہ پھر یہ سوال پیش کرتے ہیں کہ وہ کون ہے جو رسولِ کریمؐ کی مانند اِس لیاقت کا حامل ہے، جس کی بنیاد پروہ اُن کا جانشین بن سکے؟
اگر ہم حضرت علی ؑ کی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر غور و خوض کریں( بعض اُن محققین کی مانند نہیں جو حضرت علی ؑ کی شخصیت کے فکری اور عملی پہلوؤں کو چھوڑ کر اُن کی زندگی کے صرف عسکری پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہیں) تو دیکھیں گے کہ صرف علی ؑ وہ ہستی ہیں جو پیغمبرؐ کے بعد خلافت کے اہل ہیں۔
اِس لیے کہ اُس دور کے تمام مسلمانوں نے اسلام لانے سے پہلے مختلف اقسام کے شرک آلودہ ماحول میں پرورش پائی تھیاور وہ بہت سی مشرکانہ رسوم سے متاثر تھے۔ اگرچہ کسی انسان کے باطن میں بیٹھے ہوئے یہ اثرات اسلام سے اُس کی وفاداری میں حائل نہیں ہوتے، البتہ اُس کی شخصیت میں اسلام کے رچ بس جانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
امام علی علیہ السلام نے کسی ایسے ماحول میں زندگی بسر نہیں کی جس طرح کے ماحول میں اُس دور کے دوسرے بچے زندگی بسر کرتے تھے اور جس کے اثرات اُن پر پڑتے تھےآپ ؑ نے پیغمبر اسلام ؐکے ساتھ زندگی گزاری اور پیغمبرؐنے بھی رسالت کے لیے مبعوث ہونے سے پہلے ہی اُن کی تربیت کی اور اپنی اخلاقی اور معنوی خصوصیات اُن میں منتقل کیں۔ اُس دور کی وضاحت کرتے ہوئے جس شخص نے سب سے بہترین بات کی ہے، وہ خود علی ؑ ہی ہیں آپ ؑ نے فرمایا ہے :
وَقَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِی مِنْ رَسُولِ اﷲِ بِالقَرَابَۃِ الْقَرِیبَۃِ، وَالْمَنْزِلَۃِ الْخَصِیصَۃِ، وَضَعَنِی فِی حِجْرِہِ وَاَنَا وَلَدٌ یَضُمُّنِی اِلَی صَدْرِہِ، وَ یَکْنُفُنِیْ فِی فِرَاشِہِ، وَ یَمِسُّنِی جَسَدَہُ، وَیُشِمُّنِی عَرْفَہُ، وَکَانَ یَمْضَغُ الشَّیْ ءَ ثُمَّ یُلقِمُنِیہِ، وَمَا وَجَدَ لِی کَذْبَۃً فِی قَوْلٍ، وَلَا خَطْلَۃً فِی فِعْلٍ۔
تم جانتے ہی ہو کہ رسول اﷲ ؐ سے قریب کی عزیزداری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا؟ میں بچہ ہی تھا کہ رسولؐ نے مجھے گود لے لیا تھاوہ مجھے اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسمِ مبارک کو مجھ سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سُُنگھاتے تھےپہلے آپ کسی چیز کو چباتے اور پھر اُس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں رکھتے تھےاُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایااور نہ ہی میرے کسی کام میں لغزش اور کمزوری دیکھی۔ (۱)
اور پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اخلاقی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ قَرَنَ اللّٰہ بِہِ مِنْ لَدُنْ أَنْ کَانَ فَطِیماً أَعْظَمَ مَلَکٍ مِنْ مَلَاءِکَتِہِ، یَسْلُکُ بِہِ طَرِیْقَ الْمَکَارِمِ، وَمَحَاسِنَ اَخْلَاقِ اَلْعَالَمِ، لَیْلَہُ وَ نَھَارَہُ، وَلَقَدْ کُنْتُ أَتَّبِعُہُ اِتِّبَاعَ الْفَصِیلِ أَثَرَاُمِّہِ، یَرْفَعُ لِی فِی کُلِّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلَاقِہِ عَلَمًاوَیَأْمُرُنِی بِالْاِ قْتِدَا ءِ بِہِ، وَلَقَدْکَانَ یُجَاوِرُ فِی کُلِّ سَنَۃٍ بِحِرَاءَ فَأَرَاہُ وَلَایَرَاہُ غَیْرِی، وَلَمْ یَجْمَعْ بَیْتٌ وَاحِدٌ یَوْمَءِذٍ فِی الْاِسْلَامِ غَیْرَرَسُوْلِ اللّٰہِ وَخَدِیْجَۃَ وَأَ نَا ثَالِثُھُمَا، أَرَیٰ نُوْرَا لْوَحْیِ وَالرِّسَالَۃِ وَأَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَّۃِ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّۃَ الشَّیْطَانِ حِیْنَ نَزَلَ الْوَحْیُ عَلَیْہِ (ص)، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ھٰذِہِ الرَّنَّۃُ؟ فَقَالَ:ھٰذَاالشَّیْطَانُ قَدْأَیِسَ مِنْ عِبَادَتِہِ، اِنَّکَ تَسْمَعُ مَاأَسْمَعُ، وَتَرَیٰ مَاأَرَیٰ، اِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیِّ وَلٰکِنَّکَ لَوَزِیْرٌ، وَاِنَّکَ لَعَلٰی خَیْرٍ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دودھ چھٹائی کے وقت ہی سے اﷲ نے ایک عظیم المرتبت فرشتے (روح القدس) کو آپ ؐکے ساتھ لگا دیا تھاجو اُنھیں شب و روز بزرگ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر چلاتا تھااور میں اُن کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے لگا ہوتا ہےآپ روزانہ مجھے اخلاقِ حسنہ سے روشناس کراتے تھے اور مجھے اُن کی پیروی کا حکم دیتے تھےاور ہر سال (غارِ) حرا میں کچھ عرصے قیام فرماتے تھے اور وہاں میرے علاوہ کوئی اُنھیں نہیں دیکھتا تھااُس وقت رسول اﷲؐ اور (ام المومنین) خدیجہؓ کے گھر کے سوا کوئی اسلامی گھر نہ تھا، البتہ میں اُن میں تیسرا تھامیں وحی و رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سونگھتا تھاجب آپ ؐپر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی، تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی جس پر میں نے پوچھا یا رسول اﷲ ؐیہ کیسی آواز ہے؟ آپؐ نے فرمایا : یہ شیطان ہے جو اپنی عبادت کیے جانے سے مایوس ہو گیا ہے(اے علی ؑ ) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو، فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں، لیکن میرے وزیر و جانشین ہو اور یقیناًبھلائی کے راستے پر ہو۔ (۲)
۱نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۰
۲۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۰