امام علی ؑ کی ذمے داری
ولایتِ غدیر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
امام علی ؑ کی ذمے داری یہ تھی کہ آپ ؑ اسلام کو انسانوں کی روح میں اتاریں، انسانی فکر کو اسلامی افکار کی روشنی سے منوّ ر کریں اور مسلمانوں کے اندرسعی و کوشش کا جذبہ ابھاریںمختصر یہ کہ ایسے انسان تیار کریں جو اسلامی تعلیمات کا جیتا جاگتا نمونہ ہوں، اورجواِن تعلیمات کی بنیاد پر انسانی سماج میں اپنی ذمے داریاں ادا کرنے پر تیار ہوں۔
آپ ؑ خلافت سے محروم کیے جانے کے باوجود اپنی ذمے داریوں کا احساس رکھتے تھے، لہٰذا آپ ؑ نے فرمایا: حَتَّی رَأَ یْتُ رَاجِعَۃَ النَّاسِ قَدْرَجَعَتْ عَنِ الْاِسْلَامِ یَدْعُونَ اِلٰیَ محْقِ دِیْنِ مُحَمَّدٍ (صَلَّیٰ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّم) فَخَشِیْتُ اِنْ لَّمْ أَ نْصُرِالْاِسْلَامَ وَأَھْلَہُ أَنْ أَرَی فِیْہِ ثَلْماً أَھَدْماً تَکُونُ الْمُصِیْبَۃُ بِہِ عَلَیَّ أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَا یَتِکُمُ الَّتِی اِنَّمَا ھِیَ مَتَاعُ أَیَّامٍ قَلاَ ءِلَ، یَزُوْلُ مِنْھَا مَ کَانَ، کَمَا یَزُوْلُ السَّرَابُ، أَوْکَمَا یَتَقَشَّعُ السَّحَابُ، فَنَھَضْتُ فِی تِلْکَ الْأَحْدَاثِ حَتَّی زَاحَ الْبَا طِلُ وَزَھَقَ، وَ أَطْمَأَنَّ الذِّیْنُ وَتَنَھْنَہَ۔ (یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے منھ موڑ کر دین محمدکو مٹانے دینے پرتُل گیا ہےمجھے اِس بات کا خوف ہوا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکھنے کے باوجود اگرمیں اسلام اور اہلِ اسلام کی مدد نہ کروں، تو یہ میرے لیے اُس سے بڑی مصیبت ہو گی جتنی حکومت سے محروم ہو جانے کی مصیبت، جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے، اُس کی ہر چیز سراب اور اُن بدلیوں کی مانندزائل ہوجانے والی ہے جو ابھی اکٹھی نہ ہوئی ہوںچنانچہ اِن حالات میں، میں اٹھ کھڑا ہوا، تاکہ باطل نیست و نابود ہو جائے اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ جائے۔ نہج البلاغہمکتوب۶۲)
حضرت علی ؑ کو اپنے دورِ خلافت میں جب کبھی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہوتا، تو آپ ؑ اِس سلسلے میں عوام سے گفتگو فرماتے، لیکن کیونکہ منتشر اور باہم متفرق قوم کے ذریعے درپیش مسائل و مشکلات کو حل نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا آپ ؑ نے خداوندِ عالم سے مناجات کرتے ہوئے فرمایا: اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہٗ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْ کَانَ مِنَّا۔۔۔ ۔“ (بارِ الٰہا! تو خوب جانتا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں) مُنَافَسَۃً فِیْ سُلْطَانٍ وَلَا الْتِمَاسَ شَیْ ءٍ مِنْ فُضُوْلِ الْحُطَامِ، وَلٰکِنْ لِّنَرُدَّ الْمَعَالِمَ مِنْ دِیْنِکَ، وَنُظْھِرَ الْاِصْلَاحَ فِیْ بِلَادِکَ، فَیَاْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبَادِکَ، وَتُقَامَ الْمُعَطَّلَۃُ مِنْ حُدُوْدِکَ۔ اَللَّھُمَّ اِنِّیْ اَوَّلُ مَنْ أَنَابَ، وَسَمِعَ وَأَجَابَ لَمْ یَسْبِقْنِیْٓ اِلَّا رَسُوْلُ اﷲِ بِالصَّلاَۃِ۔ (یہ اِس لیے نہیں کہ ہمیں تسلط اور اقتدار کی خواہش تھی، یا مالِ دنیا کی طلب تھی، بلکہ یہ اِس لیے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھراُن کی جگہ پر) پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی فضا پیدا کریں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہو جائیں جنہیں بے کار بنا دیا گیا ہےاے اﷲ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیری طرف رجوع کیا اور تیرے فرمان کوسُن کر لبیک کہا اور رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم) کے سوا کسی نے مجھ سے پہلے نمازنہیں پڑھینہج البلاغہ خطبہ ۱۲۹)