ولایتِ غدیر

غصبِ خلافت کے بعد حضرت علی ؑ کا رَدِ عمل

ولایتِ غدیر   •   آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ

اِسی لیے ولایت (اور مسلمانوں کی حاکمیت) کے لیے حضرت علی ؑ کا انتخاب کیا گیا تھا، کیونکہ صرف وہی اِس منصب کے اہل واحد شخص تھے وہی تھے جولوگوں کو حقیقی اسلام کے فکری، معنوی، شرعی اور عملی پہلوؤں سے روشناس کرا سکتے تھے اور اِس کی بنیاد پر لوگوں کے امور کی باگ ڈور سنبھال سکتے تھےلیکن اُس دور کے اسلامی معاشرے کے پیچیدہ حالات اس بات کا سبب بنے کہ حضرت علی ؑ کو اُن کے مقام سے محروم کر کے کسی اورکو اِس منصب پر بٹھا دیاگیا۔

اِس حسّاس اور پیچیدہ صورتحال میں حضرت علی ؑ نے کس رَدِ عمل کا مظاہرہ کیا؟
کیا اُنھوں نے اپنے حق کی بازیابی کی خاطر حکمرانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنی شروع کر دیں؟
یا آپ ؑ نے اسلام کی مصلحت اور اُس کے مفاد کو ہر چیز پر مقدّم رکھا؟

اچھا ہو گا اگر ہم اِن حالات میں حضرت علی ؑ کے مؤقف اور رَدِ عمل کو خود اُن کے کلام میں تلاش کریںاِس بارے میں آپ ؑ نے فرمایا:

حَتَّی رَأَ یْتُ رَاجِعَۃَ النَّاسِ قَدْرَجَعَتْ عَنِ الْاِسْلَامِ یَدْعُونَ اِلٰیَ محْقِ دِیْنِ مُحَمَّدٍ (صَلَّیٰ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّم) فَخَشِیْتُ اِنْ لَّمْ أَ نْصُرِالْاِسْلَامَ وَأَھْلَہُ أَنْ أَرَی فِیْہِ ثَلْماً أَھَدْماً تَکُونُ الْمُصِیْبَۃُ بِہِ عَلَیَّ أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَا یَتِکُمُ الَّتِی اِنَّمَا ھِیَ مَتَاعُ أَیَّامٍ قَلاَ ءِلَ، یَزُوْلُ مِنْھَا مَ کَانَ، کَمَا یَزُوْلُ السَّرَابُ، أَوْکَمَا یَتَقَشَّعُ السَّحَابُ، فَنَھَضْتُ فِی تِلْکَ الْأَحْدَاثِ حَتَّی زَاحَ الْبَا طِلُ وَزَھَقَ، وَ أَطْمَأَنَّ الذِّیْنُ وَتَنَھْنَہَ۔

یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے منھ موڑ کر دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو مٹا دینے پر تُل گیاہےمجھے اِس بات کا خو ف ہوا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکھنے کے باوجود اگرمیں اسلام اور اہلِ اسلام کی مدد نہ کروں، تو یہ میرے لیے اُس سے بڑی مصیبت ہو گی جتنی تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے چلی جانے کی مصیبت، جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے، اِس میں کی ہر چیز سراب اور اُن بدلیوں کی مانند زائل ہوجانے والی ہے جو ابھی جمع نہ ہوئی ہوںچنانچہ اِن حالات میں، میں اٹھ کھڑا ہوا، تاکہ باطل نیست و نابود ہو جائے اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ جائے۔ (۱)

اِسی طرح آپ ؑ کے کلام میں یہ بھی ملتا ہے کہ:

لَوْلَا حُضُوْرُ الْحَاضِرِوَ قِیَامُ الْحُجَّۃِ بِوُجُوْدِ النَّاصِرِ، وَمَاأَخَذَ اﷲُ عَلَی الْعُلَمَاءِ أَنْ لَا یُقَارُّوْاعَلَی کِظَّۃِ ظَالِمٍ وَ لَاسَغَبِ مَظْلوُمٍ لَاَلْقَیْتُ حَبْلَھَا عَلَی غَارِبِھَا، وَلَسَقَیْتُ آخِرَھَا بِکَاْسِ أَوَّلِھَا، وَلَأَ لْفَیْتُمْ دُنْیَا کُمْ ھٰذِہِ أَزْھَدَ عِنْدِیْ مِنْ عَفْظَۃِ عَنْزٍ۔

اگر بیعت کرنے والوں کی کثرت اور مدد کرنے والوں کی موجودگی سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی، اور وہ عہد نہ ہوتا جو اﷲ نے علما سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک دیکھ کر سکون و اطمینان سے نہ بیٹھے رہیں، تو میں خلافت کی باگ اُسی کے کاندھے پر ڈال دیتا اور اُس کے آخر کو اُسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اُس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم دیکھتے کہ دنیا میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔ (۲)

حضرت علی علیہ السلام اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین کے لیے حکومت کے مشتاق نہ تھے، بلکہ آپ ؑ احکامِ الٰہی کے اجرا اور نفاذ کے لیے حکومت کے خواہاں تھےاِس بارے میں آپ ؑ یوں فرماتے ہیں کہ:

اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہٗ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْ کَانَ مِنَّا مُنَافَسَۃً فِیْ سُلْطَانٍ وَلَا الْتِمَاسَ شَیْ ءٍ مِنْ فُضُوْلِ الْحُطَامِ، وَلٰکِنْ لِّنَرُدَّ الْمَعَالِمَ مِنْ دِیْنِکَ، وَنُظْھِرَ الْاِصْلَاحَ فِیْ بِلَادِکَ، فَیَاْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبَادِکَ، وَتُقَامَ الْمُعَطَّلَۃُ مِنْ حُدُوْدِکَ۔

بارِالٰہا!توخوب جانتاہے کہ یہ جو کچھ ہم سے( جنگ وپیکار کی صورت میں) ظاہر ہوا ہے، یہ اِس لیے نہ تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی، یا ہم مالِ دنیا کے طالب تھےبلکہ یہ اِس لیے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر اُن کی جگہ پر) واپس لے آئیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبود کی صورت پیدا کریں۔ تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی فکراورخوف نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہو جائیں جنہیں بے کار بنا دیا گیا ہے۔ (۳)

روزِ غدیر، وہ دن ہے جس دن خداوندِ عالم نے اپنے دین کو کامل کیا، اپنی نعمتوں کو وافر انداز میں عطا کیاآج کے دن ہر مؤمن کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے دینی بھائی سے ملاقات کرتے ہوئے کہے کہ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِیْنَ بِوِلَایَۃِ عَلِیٍّ وَالْاَ ءِمَّۃِ مِنْ اَھْلِ الْبَیْتِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِکْمَالِ الدِّیْنِ وَ اِتْمَامٍ النِّعْمَۃِ۔ (اُس خدا کا شکر جس نے ہمیں علی ؑ اور اُن کے اہلِ بیت ؑ کی ولایت سے وابستہ کیا، شکر اُس خدا کا جس نے دین کو کامل کیااور نعمتوں کو اپنی انتہا پر پہنچایا)

واقعۂ غدیر سے یہ سبق حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ حضرت علی ؑ کی راہ اور اُن کی فکر کی پیروی کرنی چاہیے، اُن کی محبت کو اپنے دل میں پروان چڑھانا چاہیے، ایک لمحے کے لیے بھی اُن سے جدا نہیں ہونا چاہیےکیونکہ ولایت کی پیروی اسلام اور قرآن کی پیروی ہےاِسی کے ذریعے ہماری فکری اور معنوی سطح میں بلندی آئے گی اور ہم اپنے دشمنوں کے مقابل کھڑے ہو سکیں گے۔ اِس کے برعکس علی ؑ سے جدائی اور علی ؑ سے دوری، اسلام، قرآن اور تمام خوبیوں سے دوری کے مترادف ہے۔

اِس نکتے کی جانب حضرت علی ؑ نے اپنے ایک خطاب میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

أَلاَ وََاِنَّہُ سَیَأْمُرُکُمْ بِسَبِّیْ وَالْبَرَا ءَ ۃِ مِنِّیْ، فَأَمَّاالسَّبُّ فَسُبُّوْنِیْ فَاِنَّہٗ لِیْ زَکَاۃٌ، وَلَکُمْ نَجَاۃٌ، وَأَمَّاالْبَرَاءَ ۃُ فَلاَ تَتَبَرَّ أَوا مِنِّیْ، فَاِنِّیْ وُلِدْتُ عَلَی الْفِطْرَۃِ، وَسَبَقْتُ اِلَی الْاِیْمَانِ وَالْھِجْرَۃِ۔

جان لو کہ وہ عنقریب تمہیں مجھ سے بیزاری اور مجھے بُرا بھلا کہنے پر اکسائے گاجہاں تک مجھے بُرا بھلا کہنے کی بات ہے، تو(دشمن کے ظلم و زیادتی سے محفوظ رہنے کے لیے) مجھے بُرا بھلا کہہ دینااِس لیے کہ یہ میرے لیے درجات کی بلندی کا سبب اور تمہارے لیے(دشمنوں سے) نجات کا باعث ہوگالیکن (دل سے) ہر گز مجھ سے بیزاری کا اظہار نہ کرنا، اِس لیے کہ میں (دین) فطرت پر پیدا ہوا ہوں، اور سب سے پہلے ایمان لانے اور ہجرت کرنے والا ہوں۔ (۴)

لہٰذاجو کوئی علی ؑ سے اظہارِ بیزاری کرے، گویا اُس نے ایمان اور اسلام سے بیزاری اور برائت کا اظہار کیا ہے۔ اسی بناپر کوئی مسلمان، کوئی اہلِ ایمان، علی ؑ سے اظہارِ بیزاری نہیں کرے گایہی علی ؑ کی پیروی کرنے اور اُن کی راہ پر چلنے والے ہر شخص کی راہِ عمل ہونی چاہیے، جس کے ذریعے امت فکری، معنوی اورعسکری لحاظ سے قوت حاصل کرےکیونکہ بزرگ اور معاشرے کی اصلاح کے لیے کوشاں شخصیات کے لیے اہم بات یہ نہیں ہوتی کہ لوگ اُن کے بارے میں کن جذبات کا اظہار کرتے ہیں، بلکہ اُن کے لیے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ راہِ راست سے بھٹکنے نہ پائیں، اور یہ واقعۂ غدیر میں مدِ نظررکھے گئے اسباق میں سے ایک سبق ہے۔

علی ؑ اسلامی اتحاد کے علمبردار

علی علیہ السلام نے ۲۵ برس تک اُن لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کی جنہوں نے اُنھیں اُن کے حق سے محروم رکھا۔ آپ ؑ نے اپنی نصیحتوں اور مشوروں کے ذریعے اُن حضرات کی مدد کیاِسی طرح اہم اور حسّاس حالات میں ہر ممکن طریقے سے عملی کردار ادا کرنے کی کوشش کییہاں تک کہ حضرت عمر کو کہنا پڑا کہ: لَوْلَا عَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَرُ۔ (اگر علی نہ ہوتے، تو عمرہلاک ہو جاتابحارالانوار ج ۴۰ص ۲۹۸)نیز اُنھوں نے یہ بھی کہاکہ: لَا کُنْتُ لِمُعْضَلَۃٍ لَیْسَ لَھَا اَبُوْالْحَسَنِ۔ (مجھے کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آئی جس کے حل کے لیے ابوالحسن (علی ؑ )موجود نہ ہوں)

لہٰذا علی ؑ وہ پہلے فرد ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کی کوشش کی اِس وحدت کے معنی یہ نہیں تھے کہ اُنھوں نے اپنے حق سے چشم پوشی کیبلکہ اپنے اِس طرزِ عمل سے آپ ؑ نے مسلمانوں کو اُس عظیم خطرے کے تدارک کی دعوت دی جو مستقبل میں اسلام کو جڑ سے ختم کر دینے کا باعث بن سکتا تھا۔

اِس بنیاد پر جو شخص بھی عقل، دین اور ایمان کے لحاظ سے اپنے آپ کو اہلِ بیت ؑ کی پیروی کا پابند سمجھتا ہے، وہ اسلام و مسلمین کی مصلحت و مفاد کی خاطر تمام مسلمانوں کے لیے اپنے بازو کھلے رکھتا ہے، اُنھیں گلے لگاتا ہے اور اُنھیں پیغام دیتا ہے کہ: تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ (آؤ ایک منصفانہ کلمے پراتفاق کرلیں۔ سورۂ آلِ عمران۳۔ آیت۶۴)، یعنی قرآن و سنت کے مرکز پر جمع ہونے کی جانب قدم اٹھائیں اور اگر امامت و خلافت اور کسی بھی دوسری چیز کے بارے میں ہمارے درمیان اختلاف سر ابھارے، تو اُس کے حل کے لیے خدااور اُس کے رسول ؐسے رجوع کریں اورباہمی بغض و عداوت اور دشمنی وکینے سے پرہیز کریںکیونکہ اسلام کو ہماری اجتماعی کوششوں، مہارتوں اور فعالیت کی ضرورت ہے۔

۱۔ نہج البلاغہ مکتوب ۶۲

۲۔ نہج البلاغہ خطبہ ۳

۳نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۹

۴نہج البلاغہ۔ خطبہ ۵۷