ولایتِ غدیر

اگربات صرف اتنی ہو کہ لوگوں کی قیادت اور معاشرے کے نظم ونسق کے لیے ایک فرد کو ایک حاکم کا جانشین بننا ہے، تو اِس مقصد کے لیے کسی غیر معمولی شخص کی ضرورت نہیںبلکہ ایک ایسا فرد درکار ہو گا جس میں مناسب اور معقول صلاحیتیں پائی جاتی ہوں۔ لیکن دین اسلام میں یہ معاملہ مختلف نوعیت رکھتا ہےکیونکہ خداوندِ عالم نے اپنے پیغمبر کوایک دین کے ہمراہ بھیجا ہے اور اِس پر قرآنِ کریم کو نازل کیا ہے، تاکہ وہ اسلام کو لوگوں کی روح اور اُن کے نفوس میں بٹھا سکےلہٰذا پیغمبرؐکے بعد بھی ایک ایسا ہی شخص اُن کا جانشین ہونا چاہیے جو اُسی خوبصورتی، فہم و فراست، خوش روئی، کشادہ دلی اور اُسی اخلاق کے ہمراہ معاملات کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے، تاکہ یہ تحریک اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکے۔

یہی وجہ ہے کہ مشرکین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ موقع نہیں دیتے تھے کہ وہ مسلمانوں کو شعور دیں، اُن کی روح اور نفوس میں اسلام کو پختہ کریں اور تمام میدانوں میں اسلام کے فروغ کے لیے اپنے منصوبوں کو جامۂ عمل پہنائیںلہٰذا ضروری تھا کہ ایک ایسا رہبر موجود ہو جو پیغمبر کی تحریک کو مکمل کرےاِس رہبر کے لیے لازم تھا کہ وہ وسیع علم و دانش کا مالک ہوتاکہ یہ علم و دانش پیغمبر ؐہی کی مانند اُسے ہر سوال کرنے والے کا جواب دینے کے قابل بنائے۔

اِسی طرح اُسے اِس صلاحیت کا مالک بھی ہونا چاہیے کہ مختلف چیلنجوں کا سامنا ہونے پر وہ دوسروں کی مدد کا محتاج نہ ہوبلکہ اِس کے برعکس اُسے ایسا ہونا چاہیے کہ تمام لوگ کم از کم علمی مسائل میں اُس کے محتاج ہوں۔ جب (مشہور عربی لغت ”العین“ کے مؤلف)خلیل بن احمد فراہیدی سے کہا گیا کہ : تم نے علی ؑ کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ تو اُس نے اِسی جانب اشارہ کیا اور کہا: اِحْتِیَاجُ الْکُلِّ اِلَیْہِ وَاِسْتِغْنَا ءُ ہُ عَنِ الْکُلِّ دَلِیْلٌ عَلٰی اَنَّہٗ اِمَامُ الْکُلِّ(ہر ایک کواُن کی ضرورت ہونااور اُن کاہرایک سے بے نیاز ہونا، اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ سب کے امام ہیں)

واقعاً کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ علی ؑ نے کسی سے سوال کیا ہوجبکہ سب جانتے ہیں کہ اُن کے پیشرو خلفا کو اُن کی ضرورت رہا کرتی تھی۔

تاریخ میں پڑھتے ہیں اور تمام مسلمانوں نے اِس بات کو بیان کیا ہے کہ خلیفۂ ثانی حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ: لَوْلَا عَلِیّ لَھَلَکَ عُمَرُ۔ (اگر علی نہ ہوتے، تو عمرہلاک ہو جاتابحارالانوار ج ۴۰ص ۲۹۸) اور کبھی کہتے تھے: لَااَبْقَانِیْ اللّٰہُ لِمُعْضَلَۃٍ لَیْسَ لَھَا اَبُوْالْحَسَنِ۔ (خدانے مجھے کسی ایسی مشکل میں نہیں ڈالا جس کے حل کے لیے علی موجود نہ ہوں)

اِس بنیاد پر اسلام کوایک ایسے فرد کی ضرورت تھی، جو اپنی عقل و دانش، معنویت و روحانیت، قوت و صلاحیت، مستعدی وفعالیت اور آمادگی اور اخلاص کے ذریعے اسلام کو مستحکم کرےاور اِن میدانوں میں کوئی علی ؑ کا ہم پلہ نہ تھا۔ اور ولایت کے لیے ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو مکمل طور پر نفسِ رسولؐ ہو اور آیۂ مباہلہ کہتی ہے کہ: فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُم۔ (پس اِن سے کہہ دیجیے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزندوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں۔ سورۂ آلِ عمران ۳آیت ۶۱) اِس آیت کے مطابق علی ؑ نفسِ رسول ؐیا جانِ رسولؐ تھے۔