ولایتِ غدیر

علی ؑ کے بلند مقام سے عظمت حاصل کی جائے

ولایتِ غدیر   •   آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ

ایسے حالات میں ہمیں حضرت علی ؑ کا سا مؤقف اختیار کرنا چاہیےوہ ہستی جس نے اسلام کے مفاد اور اُس کی مصلحت کی خاطر اپنی نصیحتوں، مشوروں اور ہدایات کے ذریعے اُن لوگوں کی بھی مدد کی جنہوں نے اُن کا حق پامال کیا تھاالبتہ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ؑ اپنے حق سے کنارہ کش ہو گئے تھے، کیونکہ وہ اپنے چھینے جانے والے حق کو نظر انداز نہیں کرسکتے تھےلیکن جیسا کہ خود اُنھوں نے ارشاد فرمایاہے:

وَوَاللّٰہِ لَاُ سْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُوْرِالْمُسْلِمِیْنَ، وَلَمْ یَکُنْ فِیْھَا جَوْرُاِلَّاعَلَیَّ خَاصَّۃٌ۔

خدا کی قسم! جب تک مسلمانوں کے امور کانظم ونسق برقراررہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی، میں خاموشی اختیار کیے رہوں گا۔ ۔ (۱)

حضرت علی ؑ نے اہلِ مصر کو لکھے گئے اپنے خط میں ہمیں یہ سبق دیاہے کہ اگر اسلام کی مصلحت اور اُس کے مفاد اورہماری ذاتی خواہشات کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہو جائے، تو ایسے وقت میں ہم پر واجب ہے کہ اسلام کے مفاد اور اُس کی مصلحت کو مقدّم رکھیں اورعارضی طور پر اپنی ذاتی خواہشات سے چشم پوشی کریں، البتہ اُنھیں مطلقاً نظر انداز نہ کریں۔

فَمَارَاعَنِیْ اِلَّا انْثِیَالُ النَّاسِ عَلٰی فَلاَنٍ یُبَایِعُوْنَہٗ، وَأَمْسَکْتُ یَدِیْ حَتَّی رَأَ یْتُ رَاجِعَۃَ النَّاسِ قَدْرَجَعَتْ عَنِ الْاِسْلَامِ یَدْعُونَ اِلٰیَ محْقِ دِیْنِ مُحَمَّدٍ (صَلَّیٰ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّم) فَخَشِیْتُ اِنْ لَّمْ أَ نْصُرِالْاِسْلَامَ وَأَھْلَہُ أَنْ أَرَی فِیْہِ ثَلْماً أَھَدْماً تَکُونُ الْمُصِیْبَۃُ بِہِ عَلَیَّ أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَا یَتِکُمُ الَّتِی اِنَّمَا ھِیَ مَتَاعُ أَیَّامٍ قَلاَ ءِلَ، یَزُوْلُ مِنْھَا مَ کَانَ، کَمَا یَزُوْلُ السَّرَابُ، أَوْکَمَا یَتَقَشَّعُ السَّحَابُ، فَنَھَضْتُ فِی تِلْکَ الْأَحْدَاثِ حَتَّی زَاحَ الْبَا طِلُ وَزَھَقَ، وَ أَطْمَأَنَّ الذِّیْنُ وَتَنَھْنَہَ۔

مگر ایک دم میرے سامنے یہ منظر آیا کہ لوگ فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کے لیے دوڑ پڑے ہیں اِن حالات میں، میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھایہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے منھ موڑ کر دین محمدکو مٹا دینے پر تُل گیاہےمجھے اِس بات کا خو ف ہوا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکھنے کے باوجود اگرمیں اسلام اور اہلِ اسلام کی مدد نہ کروں، تو یہ میرے لیے اِس سے بڑی مصیبت ہو گی جتنی تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے چلی جانے کی مصیبت، جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے، اِس میں کی ہر چیز سراب اور اُن بدلیوں کی مانند جو ابھی جمع نہ ہوئی ہو ں زائل ہو جانے والی ہےچنانچہ اِن حالات میں، میں اٹھ کھڑا ہواتاکہ باطل نیست و نابود ہو جائے اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ جائے۔ (۲)

حضرت علی ؑ وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنی تلوار کے ذریعے اسلام کی مدد کی، اِسی طرح آپ ؑ نے اپنی عقل، فکر، صبر، شعور اور آزاد اندیشی کے ذریعے بھی اِس کی مدد کیحضرت علی ؑ ؑ کے پیروکار افراد کو بھی اپنی خواہشات اور تعصبات میں ڈوبا ہوا نہیں ہونا چاہیےبلکہ اُنھیں دیکھنا چاہیے کہ وہ جس سر زمین پرزندگی بسر کر رہے ہیں، وہ کس وقت ثبات و استحکام کی مالک ہے اور کب متزلزل اور غیر مستحکم ہے، اور جس فضا میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اُس میں دیکھنا چاہیے کہ وہ کب متلاطم ہوتی ہے اور کب پُرسکون۔ لہٰذا ہم سب کو اِس نکتے کی جانب متوجہ رہنا چاہیے کہ وہ طوفان جو مسلمانوں کو نابود کر دینے کے در پے ہے، ہم اُس میں ایک اور طوفان کا اضافہ نہ کریں اور وہ زمین جسے زلزلے نے ہلا کر رکھ دیا ہے، اُس پر تعصب کے جھٹکوں کا اضافہ نہ کریںنیز ہم پر لازم ہے کہ ہم رسولِ خداؐ، حضرت علی ؑ، امام حسن ؑ، امام حسین ؑ، دوسرے ائمۂ معصومین ؑ اور امامِ زمانہ ؑ (جنہوں نے اپنی طویل غیبت پر صبر کیا ہے)کی طرح بردباری کا ثبوت دیں، آگاہ اور آزاد اندیش، صابراور ضبطِ نفس کے مالک بنیں جیسے کہ روایت میں آیا ہے کہ: لَایَُقَدِّمُ رَجُلاً وَلَا یُؤَخِّرُاُخْریٰ، حَتَّی یَعْلَمَ اَنَّ ذَالِکَ لِلّٰہِ رِضًا (مردِ مومن اُس وقت تک قدم نہیں اٹھاتا جب تک یہ نہ جانتا ہو کہ اِس میں خدا کی رضا ہے)

ہمیں اپنی خواہشات اور تعصبات کی پیاس بجھانے ہی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے، بلکہ ہمیں رضائے الٰہی، ایمان، توحیداور اسلام کی جانب توجہ رکھنی چاہیےکیونکہ خدا کی خوشنودی اور رضا سب سے بڑی چیز ہے۔

۱نہج البلاغہ خطبہ ۷۲

۲۔ نہج البلاغہ مکتوب ۶۲