حضرت علی ؑ کی دینی ذمے داری
ولایتِ غدیر • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
ممکن ہے یہاں یہ سوال سامنے آئے کہ پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اُن حسّاس حالات میں حضرت علی ؑ کی اصل اور بنیادی ذمے داری کیا تھی؟
یہ بات واضح ہے کہ رسولِ مقبول کی وفات اور اُن کے دنیا سے گزر جانے کے بعد ضروری تھا کہ ایک ایسا شخص میدان میں موجود رہے جو عقیدے، جذبے اور زندگی کے تمام شعبوں میں رسولِ کریمؐ ہی کی مانند ہو، آپ ؐہی کی شخصیت کاعکس ہو اور آپؐ کے مشن کو جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتاہوعلی ؑ کے سوا کسی اور ہستی میں یہ لیاقت اور اہلیت نہ تھیپس وہی تھے جو ہر سوال کا جواب دے سکتے تھے اور ہر مرحلے کے لیے منصوبے بنا سکتے تھے اور ایک عظیم منزل کی جانب انسانوں کی رہنمائی کر سکتے تھے۔
نہج البلاغہ کے جو اقتباسات ہم نے اب تک پیش کیے، وہ حضرت علی ؑ کے گرانقدر علم و دانش کا ایک انتہائی قلیل حصہ ہیںیہ امیر المومنین ؑ کے اُن فرمودات اور مکتوبات میں سے چند ایک ہیں جنہیں سید رضیؒ نے نہج البلاغہ میں جمع کیا ہےبدقسمتی سے امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کے بہت کم فرامین اور مکتوبات ہم تک پہنچے ہیںسید رضیؒ کے اِس احسان پر اُن کے انتہائی شکر و سپاس کے باوجود، اُن سے یہ شکوہ کیا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے حضرت علی ؑ کا کلام جمع کرتے ہوئے کیوں صرف ادبی پہلو کے حامل کلام کو منتخب کیااور اِسی وجہ سے امام ؑ کے بہت سے خطبات اور کلمات کو مختصر کیا اور اُن کے علمی اور فکری پہلوؤں کو نظر انداز کیا، جبکہ اُمتِ اسلامی کو اُن کے فکری پہلو کی زیادہ ضرورت تھیافسوس کہ آپ ؑ کے تمام کلمات و فرمودات اکٹھے نہ کیے جا سکے اور صفحاتِ تاریخ پر باقی نہ رہ سکےکیونکہ آپ ؑ ؑ کا ہر کلمہ غور و فکر سے بھرپور نکات پر مشتمل ہے اور ایک راہِ عمل اور ایک سمت کی جانب انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔
حق، علی ؑ کے پورے وجود سے جلوہ گر ہے اور اِن دونوں کے درمیان جدائی ممکن نہیںجیسا کہ پیغمبر اسلام ؐنے فرمایا ہے: عَلِیُّ مَعَ الْحَقِّ وَالْحَقُّ مَعَ عَلِیٍّ، یَدُورُ مَعَہُ حَیْثَ دَار (علی ؑ حق کے ساتھ ہیں اور حق علی ؑ کے ساتھ، جہاں یہ جاتے ہیں وہیں حق بھی جاتا ہےشرح نہج البلاغہ از ابن ابی الحدیدج ۲ ص ۲۹۷ باب ۳۷)
علی ؑ کی یہ حقانیت اُن کے تن تنہا رہ جانے اور اُن کی گوشہ نشینی کا سبب بنیاُنھوں نے خوداِس مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: مَا تَرَکَ لِیٰ الْحَقُّ مِنْ صَدِیْقٍ۔ (حق بات کہنے کی وجہ سے میرا کوئی دوست نہیں رہا شرح نہج البلاغہ ازابن ابی الحدید ج ۳ ص ۵۸ باب ۴۳) بعض لوگوں نے حضرت علی ؑ کے سامنے معاویہ کی ہوشیاری کا ذکر کیا اور آپ ؑ سے خواہش ظاہر کی کہ آپ ؑ اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کریں آپ ؑ نے اُن کے جواب میں فرمایا: وَاﷲِ مَا مُعَاوِیَۃُ بِأَدْھَی مِنِّیْ، وَلٰکِنَّہٗ یَغْدِرُوَیَفْجُرُ، وَلَوْلَاکَرَاھِیَۃُ الْغَدْرِ، لَکُنْتُ مِنْ اَدْھَی النَّاسِ۔ (خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار نہیں، لیکن وہ عہد و پیمان توڑتااور گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگر میں پیمان شکنی کو مذموم نہ سمجھتا، تو میں ہوشیار ترین انسان ہوتانہج البلاغہ خطبہ ۱۹۸)