ولایتِ غدیر

اگر علم، معنویت، جہاد اور اخلاص کے لحاظ سے حضرت علی ؑ کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے، تو کیا کوئی اُن کا ہمسر اور ہم پلہ مل سکے گا؟ حضرت عمرشوریٰ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حضرت علی ؑ کی لیاقت اور اہلیت کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں: لَوْوَلَّیھٰا عَلِیٌّ لَحَمَلَھُمْ عَلیٰ الْمُحَجَّۃِ الْبَیْضَاء۔ (اگر علی ؑ اسلامی معاشرے کے حکمراں ہوتے، تو وہ معاشرے کو سعادت اور خوش بختی کی جانب لیجاتے)

امام علی ؑ کو اپنے دورِ خلافت میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، شاید اُن کی وجہ اندازِ حکمرانی میں آپ ؑ کا پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی راہ وروش پر چلنا تھا۔ کیونکہ آپ ؑ اِس سلسلے میں کسی اور کی پیروی نہیں کرنا چاہتے تھےآپ ؑ کی تمنا تھی کہ اسلام لوگوں کے قلب اور اُن کی روح میں رچ بس جائےنیز آپ ؑ ہر قیمت پر حکومت سے چمٹے رہنا نہیں چاہتے تھےجیسا کہ آپ ؑ نے خود فرمایا ہے کہ: قَدْ یَرَیٰ الْحُوَّلُ الْقُلَّبُ وَجْہَ الْحِیْلَۃِ وَدُونَھَا مَانِعٌ مِنْ اَمْرِاﷲِ وَ نَھْیِہِ، فَیَدَ عُھَارَأْیَ عَیْنٍ بَعْدَالْقُدَرَۃِ عَلَیْھَا، وَ یَنْتَھِزُ فُرْصَتَھَا مَنْ لاَ حَرِیْجَۃَ لَہُ فِی الدِّیْنِ۔ (کبھی کبھی انسان مستقبل میں پیش آنے والے تمام حوادث سے آگاہ ہوتا ہے اور مکر و فریب کے راستوں کو بھی خوب جانتا ہےلیکن خدا کے اوامر و نواہی اُس کی راہ میں حائل ہوتے ہیں، اور باوجودیہ کہُ اُنھیں (مکروفریب کو) انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے لیکن اُنھیں واضح طور پر ترک کر دیتا ہےلیکن جو شخص گناہ اور دین کی مخالفت کے بارے میں بے پروا ہوتا ہے، وہ دھوکے اور فریب کے مواقع سے فائدہ اٹھاتا ہےنہج البلاغہ خطبہ ۴۱)

کچھ لوگوں نے آپ ؑ سے کہا کہ بیت المال آپ ؑ کے اختیار میں ہے، آپ ؑ اُن (قبائلی بزرگوں ) کو اِس سے نوازیئے تاکہ آپ ؑ کی حکومت مضبوط اور مستحکم ہو جائےآپ ؑ نے اُن لوگوں کو جواب دیا: أَتَأْمُرُوْنِّیْٓ أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِفِیْمَنْ وُلِّیْتُ عَلَیْہِ، وَاللّٰہِ لَآأَطُوْرُبِہٖ مَا سَمَرَ سَمِیْرٌ، وَمَاأَمَّ نَجْمٌ فِی السَّمَآءِ نَجْمًا، لَوْکَانَ الْمَالُ لِیْ لَسَوَّیْتُ بَیْنَھُمْ، فَکَیْفَ وَاِنَّمَاالْمَالُ مَالُ اللّٰہِ۔ (کیا تم مجھے اِس بات کا حکم دیتے ہو کہ میں اپنی کامیابی کے لیے اُن لوگوں پر ظلم وستم کرتے ہوئے جن پر میں حاکم بنایا گیا ہوں، (کچھ لوگوں کی) مدد حاصل کروں؟ خداکی قسم جب تک میں زندہ ہوں اوردن اور رات برقرار ہیں اور آسمان پرموجود ستارے ایک دوسرے کے بعد طلوع وغروب ہوتے رہیں گے، میں ہرگز ایسا نہیں کروں گااگر یہ مال خودمیرا ہوتاتب بھی میں اُسے تمہارے درمیان مساوی تقسیم کرتا، چہ جائیکہ یہ خدا کا مال ہےنہج البلاغہ خطبہ ۱۲۴)

لہٰذا ہماراعقیدہ ہے کہ بعد از رسول ؐہر چند متعدد فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کو کچھ مثبت نتائج بھی حاصل ہوئے، لیکن بہت سے معاملات میں مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑاکیونکہ وہ اسلامی سلطنت کی حدود کو تو وسعت دینے میں کامیاب رہے، لیکن اُنھوں نے اسلامی تعلیمات کو خود مسلمانوں میں بھی اچھی طرح پختہ کرنے کی طرف توجہ نہ دی۔

اسلام کی کامیابی یہ نہیں کہ اُس کی حکومت زیادہ سے زیادہ وسعت اور قدرت حاصل کر لے، بلکہ اسلام اِس صورت میں کامیاب قرار دیا جائے گا جب وہ مسلمانوں کے قلب و ذہن میں اُتر جائے اور وہ اُس کے ذریعے اسلام کو عالمگیردین بنائیں اور لوگوں کے طرزِ عمل، انداز و اطوار کو اِس طرح تبدیل کریں کہ اسلام اُن کی فکر، عقیدے، جذبات اور عمل پر اثر انداز ہو۔

امام ؑ نے حکومتِ اسلامی کے مثالی حکمرانوں کی صفات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

وَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّہٗ لاَ یَنْبَغِیْٓ أَنْ یَکُوْنَ الْوَالِی عَلَی الْفُرُوْجِ وَالدِّمَآءِ وَالْمَغَانِمِ وَالْاَحْکَامِ وَاِمَامَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ الْبَخِیْل، فَتَکُوْنَ فِیْٓ أَمْوَالِھِمْ نَھْمَتُہٗ، وَلَاالْجَاھِلُ فَیُضِلَّھُمْ بِجَھْلِہٖ، وَلَاالْجَافِیْ فَیَقْطَعَھُمْ بِجَفَآءِہٖ، وَلاَالْحَآءِفُ لِلدُّوَلِ فَیَتَّخِذَ قَوْمًا دُوْنَ قَوْمٍ، وَلاَ الْمُرْتَشِیْ فِی الْحُکْمِ فَیَذْھَبَ بِالْحُقُوْقِ وَیَقِفَ بِھَادُوْنَ الْمَقَاطِعِ، وَلَاالْمُعَطَّلُ لِلسُّنَّۃِ فَیُھْلِکَ الْاُمَّۃَ۔

تم جانتے ہو کہ مسلمانوں کی عزت و ناموس، اُن کی جان، اُن کے مفادات، اُن کے احکام اور اُن کی قیادت کے لیے بخیل اور تنگ نظر حاکم مناسب نہیںکیونکہ ایسے شخص کی نگاہیں مسلمانوں کے مال پر لگی رہیں گی، نیزنہ نادان شخص (مسلمانوں کی حکمرانی کے لیے مناسب ہے) کیونکہ وہ اُنھیں اپنی جہالت کی وجہ سے گمراہ کر دے گا، اور نہ بد اخلاق شخص (اِس منصب کے قابل ہے) کیونکہ وہ اُنھیں اپنی بداخلاقی سے چرکے لگاتا رہے گا، اور نہ مال و دولت کے سلسلے میں بد عنوان شخص (اِس منصب کا اہل ہے) کیونکہ وہ کسی کو تو مال و دولت سے نوازے گا اور کسی کو محروم رکھے گا، اور نہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینے والا شخص (مسلمانوں کی حکمرانی کے قابل ہے) کیونکہ وہ لوگوں کے حقوق ضائع کر دے گا، اورنہ سنت کو معطل کرنے والا شخص (اِس قابل ہے کہ اُسے مسلمانوں کا حکمراں بنایا جائے) کیونکہ وہ اِس طرح امت کو برباد کر دے گا۔ (۱)

۱نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۹