قرآنِ مجید کی رو سے حلم اور غصہ ضبط کرنے کا مفہوم
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
قرآ نِ مجید میں حلم اورکظم غیظ (یعنی غصہ پی جانے) کا ذکر دوعمدہ اور عالی صفات کے طور پر کیا گیا ہےان دونوں صفات کی بازگشت ایک ہی مفہوم کی جانب ہوتی ہے اور وہ ہے اپنے اعصاب پر کنٹرو ل ہونا، جذبات و احساسات کو قابو میں رکھنا، ضبط ِنفس کا مالک ہونا۔
کہاجاسکتا ہے کہ حلم اس حالت کو کہتے ہیں جو کظم غیظ یعنی غیظ و غضب کو ضبط کرلینے کا موجب بنتی ہےبالفاظِ دیگر حلم کی واضح بلکہ بہترین مثال کظم غیظ ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
خیر الحلم التّحلّم
بہترین حلم غصہ پی جانا ہےغررالحکم، نقل از میزان الحکمتہ۔ ج ۲ص۵۱۳
قرآنِ مجید میں حلم کا لفظ ” حلیم“ کی تعبیر کے ساتھ پندرہ مرتبہ آیا ہےان میں سے گیارہ مرتبہ خداوند ِعالم کی ایک صفت کے طور پر اسکا ذکر ہوا ہے۔ (۱) جبکہ چار مرتبہ اسکا ذکر حضرت ابراہیم خلیل اللہ، حضرت اسماعیل اور حضرت شعیب کی ایک صفت کےعنوان سے ہوا ہے۔ (۲)
قرآن مجید میں کظم غیظ کو پرہیز گار بندوں کی ایک صفت قرار دیا گیا ہےارشادِ رب العزت ہے: وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ (وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنا غصہ پی جاتے ہیں سورہ آلِ عمران ۳آیت ۱۳۴)
حلم کے معنی اپنے شدید غیظ وغضب پر قابو پالینا ہےلغت ِقرآن کے معروف عالم
” راغب اصفہانی“ اپنی کتاب ” مفردات القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ:
الحلم ضبط النفس عن ہیجان الغضب
غیظ وغضب کے ہیجان کے موقع پر ضبط ِنفس کو حلم کہا جاتا ہے
مزید کہتے ہیں کہ: کیونکہ یہ حالت عقل اور خرد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اسی لیے کبھی کبھی حلم کے معنی عقل اور خرد بھی لیے جاتے ہیں(مفردات راغب، لفظ حلم کے ذیل میں)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
العقل خلیل المرء، والحلم وزیرہ
عقل انسان کی مخلص دوست ہے اور حلم عقل کا وزیر ہے
آپ ؑہی کا ارشاد ہے:
الحلم نور جو ھرہ العقل
حلم ایک ایسا نور ہے جس کی حقیقت عقل و خرد ہےغرر الحکم، نقل ازمیزان الحکمتہ۔ ج۳۔ ص۵۱۳، ۵۱۴
دوسری احادیث میں بھی حلم کی صفت کا ذکر انہی معنی میں ہوا ہےمثلاً ایک شخص نے امام حسن علیہ السلام سے پوچھا: حلم کیا ہے؟ آپؑ نے جواب دیا: کظم الغیظ وملِک النفس (غصہ پی جانا اور نفس پر قابو ہونابحارالانوار ج ۷۸۔ ص ۱۰۲)
نیزامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:
لا حلم کانصیرت والصّمت
کوئی حلم صبرواستقامت اور زبان کی حفاظت کی مانند نہیں
لفظ حلم کا استعمال امورو معاملات میں ثابت قدمی اور استقامت کے معنی میں بھی کیا گیا ہے(بحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص ۷۸، سفینۃ الیحارلفظ ” حلم“ کے ضمن میں)
ان لغوی معنی اور ائمہ معصومین کی تشریحات کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ حلم سے مراوضبط ِنفس، انقلابی صبر اور امور و معاملات کے دوران ثابت قدمی ہے۔
اس مفہوم کوپیش نظر رکھا جائے تو ضبط ِنفس میں زبان پر کنٹرول، اعصاب اور تمام اعضا و جوارح پر تسلط شامل ہےلہٰذا لفظ ” حلم“ کا ترجمہ ” برداشت“ جو ہمارے یہاں معروف ہوگیا ہے، درست نہیں ہےکیونکہ ” سختی برداشت کرنا“ حلم کے مطلق معنی نہیں ہیں ا س لیے کہ بسا اوقات اسکا مفہوم ظلم کے سامنے خاموشی سے گھٹنے ٹیک دینا اور اسے قبول کرنا ہوتے ہیں اور یہ عمل کوئی فضیلت نہیں رکھتا۔
اسی بنیاد پر حلم اور ظلم سہنے کے درمیان انتہائی کم فاصلہ پایا جاتا ہےلہٰذا ان دونوں کے مقامات کی اچھی طرح شناخت لازم ہے تاکہ ظلم سہنے کو حلم نہ کہا جانے لگے اور انسان بافضیلت عمل کی انجامدہی کی بجائے فضائل و اقدار کے مخالف کسی عمل کا مرتکب نہ ہو۔
کظم اور غیظ کے الفاظ میں لفظ ” غیظ“ کے لغوی معنی شدید غصہ، اور غیر معمولی روحی ہیجان اور اشتعال ہیں اور اسکی وجہ روحانی اذیت یا گزند پہنچنا ہوتی ہے۔
لغت میں ” کظم“ کے معنی ہیں پانی سے بھری ہوئی مشک کا منھ بند کرناکنایتاً یہ لفظ ایسے افراد کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جو شدید غیظ و غضب سے بھرے ہوئے اور غصے کی شدت سے پھٹ پڑنے کے نزدیک ہوتے ہیں اور ان سے کوئی شدید ردِعمل ظاہر ہواچاہتا ہےلیکن ان میں پایا جانے والا ضبط ِنفس مضبوط تسمے کی مانند غصے سے بھری ان کی مشک کا منھ بند کردیتا ہے اور انہیں پھٹ پڑنے سے باز رکھتا ہےلہٰذا کظم غیظ اور غصے کا ضبط کرلینا، حلم کے واضح ترین مصادیق میں سے ہے، جو غصے سے پھٹ پڑنے اور بے جاتندی کے سدباب کا موجب ہے اور انسان کو نامعقول تندی اور ضرررساں اور کبھی کبھی خطرناک ثابت ہونے والے جوش وخروش سے نجات دیتا ہے۔
البتہ اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ اگر حلم اور کظم غیظ گناہگار اور مجرم شخص کی جرأت و جسارت کی وجہ بنے یا دوسرے مذموم نتائج کا سبب بن جائے تو بے جا اور منفی ہوجاتا ہے۔ مثلاً پیشہ ورمجرموں کے مقابل حلم کا اظہار اور غصے کو پی جانا، یا ایسے منافقین، کفار اور بے دین افراد سے رعایت اور ان سے چشم پوشی درست نہیں جو اسلام و مسلمین کونقصان پہنچانے یا معاشرے میں فساد برپا کرنے میں مشغول ہوں۔
۱۔ سورئہ بقرہ۲آیات ۲۲۵، ۲۳۵، ۲۶۳، سورئہ آل عمران ۳آیت ۵۵، سورئہ نساء۴آیت ۱۲، سورئہ مائدہ ۵آیت ۱۰۱، سورئہ حج ۲۲۔ آیت ۵۹، سورئہ تغابن ۶۴آیت ۱۷، سورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۴۴، سورئہ احزاب ۳۳آیت ۵۱، سورئہ فاطر ۳۵آیت ۴۱)
۲سورئہ توبہ ۹۔ آیت ۱۱۴، سورئہ ہود ۱۱آیت ۸۷، سورئہ صافات ۳۷آیت ۱۰۷۔