امام خمینیؒ کا‘ فضول خرچی سے شدید پرہیز کرنا
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ، جو اسلامی احکام و فرامین پر عمل کے معاملے میں انتہائی سخت گیر تھے اور اس سلسلے میں مثالی حیثیت کے حامل ہیں، آپ تمام باتوں اور خصوصاً اخراجات میں فضول خرچی کے حوالے سے بھی بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے تھےنمونے کے طور پر درج ذیل مثالیں ملاحظہ ہوں:
امام خمینی کے دفتر کے ایک اہل کار نے لکھا ہے: ایک بار مالی امور کے انچارج نے ایک لفافے کی پشت پر کچھ تحریر کرکے امام خمینی کی خدمت میں بھیجاامام نے ایک چھوٹے کاغذ پر اس کا جواب لکھا اور اس کے نیچے تحریر کیا کہ: آپ چاہتے تو اس چھوٹے سے کاغذ پر بھی لکھ سکتے تھےاس واقعے کے بعد وہ صاحب اپنے کاغذوں کو جمع کرکے ایک تھیلی میں رکھ لیتے اور جب امام خمینی کے لیے کوئی چیز لکھنا ہوتی، تو کاغذ کے ان ٹکڑوں پر لکھتے اور امام خمینی بھی اسی کاغذ کے نیچے اس کا جواب تحریر فرما دیتے۔
امام خمینی کی صاحبزادی، خانم زہرا مصطفوی، اپنے بچپنے کی یادیں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ:امام خمینی کا درس ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوتا تھا، اس موقع پر آپ بیس منٹ میر ے ساتھ کھیلا کرتےپھر ظہر سے دس منٹ پہلے نماز کی تیاری کے لیے آتےامام خمینی کھیل کود کے سامان کی خریداری کے سخت مخالف تھے اور کہتے تھے کہ یہ فضول خرچی ہےہم مٹی وغیرہ سے گولیاں بنا کر ان سے کھیلتے، جو کوئی ان گولیوں کا نشانہ لگاتا وہ جیت جاتا تھا۔ بیس منٹ ہم یہی سادہ سا کھیل کھیلتے تھے۔
امام خمینی کے دفتر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ:ہر مہینے کے آخرمیں (جماران کے) ماہانہ اخراجات کی تفصیل امام خمینی کی خدمت میں پیش کرنا میری ذمے داری تھیایک روز حسب ِمعمول میں نے اخراجات کی تفصیل امام کی خدمت میں ارسال کیاس تفصیل میں امام کے گھر آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع، امام کی رفت وآمد اور بجلی کے اخراجات بھی تحریر تھےحساب بھیجنے کے آدھے گھنٹے بعد، امام خمینی کے فرزند، احمد خمینی نے مجھے فون کرکے بتایاکہ:جب سے آپ نے حساب ارسال کیا ہے، امام مسلسل باغ میں ٹہل رہے ہیں اور سخت ناراض ہیں کیونکہ امام کے گھریلو اخراجات اس ماہ (اس زمانے کے) دس ہزار تومان سے بڑھ گئے ہیںلہٰذا امام فرماتے ہیں کہ اگر میرے گھریلو اخراجات دس ہزار تومان ہوگئے ہیں تو میں یہ جگہ چھوڑ دوں گا۔
احمد خمینی نے مجھ سے کہا:آپ دیکھیے کہ اس مہینے کون سا اضافی خرچہ ہوا ہے، تاکہ میں امام کو بتاکر انہیں اطمینان دلائوں۔
میں نے کاغذات کی جانچ پڑتال کی تو مجھے تین اضافی خرچے نظر آئے، جو کسی صورت امام کے گھریلو اخراجات میں سے نہ تھے۔
۱جلانے کا تیل، جو امام کے گھر میں زیادہ آگیا تھا اور جسے میں نے حسینیہ جماران کے اسٹور میں ڈلوا دیا تھا۔
۲امام کے گھرانے کی آمدورفت کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی، ڈرائیور کی غفلت سے خراب ہوگئی تھی، جس کی مرمت پر اخراجات آئے تھے۔
۳امام کے گھر پر فائبر کی چھت ڈلوائی گئی تھی تاکہ اوپر سے امام کے گھر کا اندرونی حصہ دکھائی نہ دے کیوں کہ وہاں پاسدار پہرہ دیا کرتے تھے۔
میں نے ان اضافی اخراجات کی تفصیل امام کی خدمت میں بھجوائی جس کے بعد وہ مطمئن ہوئے۔
اسی ایک مثال سے ہم یہ بات جان سکتے ہیں کہ امام خمینی گھریلو اخراجات میں فضول خرچی سے کس قدر سخت پرہیز کیا کرتے تھے۔