قرآن کریم میں مشرکین کی مثالیں
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مفاہیم و نکات کی وضاحت کے لیے مثالوں سے کام لیا گیا ہےکیونکہ مثال حسی اور قابلِ محسوس امور کے ذریعے عقلی حقائق کی تشبیہ کا نام ہے، جس کے ذریعے بلند عقلی مفاہیم کو سننے والے آسانی اور گہرائی کے ساتھ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس بناپر قرآنِ کریم میں اہم ترین مفاہیم کو (پچاس سے زیادہ) مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہےانہی میں وہ مثالیں بھی شامل ہیں جو شرک اور مشرکین کے بارے میں قرآنِ کریم میں ذکر ہوئی ہیں اور جو شرک کے گناہ اور مشرکین کی نجاست اور آلودگی کو بخوبی ظاہر کرتی ہیں اس حوالے سے قرآنِ کریم میںذکر ہونے والی چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔
مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِہِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ
جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا، ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے طوفان کے دن کی تیزہوا اڑا لے جائے، کہ وہ اپنے حاصل کیے ہوئے پر بھی کوئی اختیار نہ رکھ سکیں گے(سورہ ابراہیم ۱۴۔ آیت ۱۸)
بے شک مشرکین کفار ہی میں سے ہیں، لہٰذا ان کے اعمال، حتیٰ ان کے نیک اعمال ایسے کھوکھلے اور بے مغز ہیں جو راکھ کی حیثیت رکھتے ہیں، جسے شدید طوفانی ہوائیں اڑالے جاتی ہیں۔
نتیجے کے طور پر، مشرکین اپنے اعمال اور ان کے نتائج سے محروم رہتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ اور بہت کم اعمال اور ان کے نتائج کو بھی اپنے لیے ذخیرۂ آخرت نہیں بناسکتےشرک اور کفر کاشدید طوفان کفار اور مشرکین کے نیک اعمال کو اس طرح بہالے جاتا ہے، جیسے شدید طوفانی ہوائیں، خاک کے ذرّوں کو اڑالے جاتی ہے۔
وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُہُمَآ اَبْكَمُ لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّہُوَكَلٌّ عَلٰي مَوْلٰىہُ اَيْنَـمَا يُوَجِّہْہُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ ہَلْ يَسْتَوِيْ ہُوَ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَہُوَعَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ
اور اللہ نے ایک اور مثال ان دو (مومن اور مشرک) انسانوں کی بیان کی ہے جن میں سے ایک پیدائشی گونگا ہے اور کسی کام کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ وہ خود اپنے آقا کے سرپر ایک بوجھ ہے کہ وہ اسے جس کام کے لیے بھی بھیجتا ہے اسے اچھی طرح انجام نہیں دیتاتو کیا ایسا انسان اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو عدل کا حکم دیتا ہے اور سیدھے راستے پر گامزن ہے(سورۂ نحل ۱۶۔ آیت ۷۶)
اس مثال میں خداوند ِعالم مشرکین کو درجِ ذیل پانچ خصلتوں کے حامل افراد قرار دیتا ہے:
۱۔ یہ غلام اور بے اختیار ہیں۔
۲یہ گونگے اور بہرے ہیں۔
۳یہ کسی کام کے قابل نہیں۔
۴یہ اپنے آقا اور مالک کے سرپربوجھ ہیں۔
۵یہ ہر کام میں شکست خوردہ اور ناکام ونامراد رہتے ہیں۔
لیکن مومنین، جو ہر طرح کے شرک سے دور رہتے ہیں، ان میں نہ صرف مذکورہ ناپسندیدہ صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی بلکہ وہ ہمیشہ عدل و انصاف کی تلقین کرتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہتے ہیں۔
لہٰذا کیا مومن اور مشرک برابر ہوسکتے ہیں؟
بے شک یہ برابر نہیں ہوسکتے۔
وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّيْرُ اَوْ تَہْوِيْ بِہِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ
اور کسی طرح کا شرک اختیار نہ کرو، کہ جو کسی کوخدا کا شریک بناتاہے وہ گویا آسمان سے گرپڑتا ہے اور اسے پرندہ اچک لیتا ہے، یا اسے ہوا کسی دور دراز مقام پر لے جاکے پھینک دیتی ہے(سورۂ حج ۲۲آیت ۳۱)
اس مثال میں انتہائی وضاحت کے ساتھ مشرکین کی بے چارگی اور ان کے وحشت ناک زوال و نابودی کا ذکر کیا گیا ہےمشرکین اس قدر بے چارے ہیں کہ پہلے تو انہیں ان کے شرک کی وجہ سے آسمان سے زمین کی طرف پھینکا جاتا ہے اور پھر وہ درمیان میں لاش خور پرندوںکی غذا بنتے ہیں اور اس کے بعد اگر ان پرندوں کے ہاتھوں سے بچ جاتے ہیں تو ہولناک طوفان کا شکار بنتے ہیں اور آخر کار یہ طوفان انہیں ایک ایسی جگہ زمین پر پٹخ دیتاہے جہاں کوئی ان کا مونس و مدد گار اور نجات دہندہ نہیں ہوتااس موقع پر ان کا بدن چورہ چورہ ہوجاتا ہے اور اس کا ذرّہ ذرّہ بکھرکے رہ جاتا ہے۔
ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ آسمانِ توحید سے جدا ہوکر شرک کی ہولناک گھاٹی میں جاپڑے ہیں، اور بے رحم شیطان کے طوفان نے انہیں اچک کر دور دراز مقام پر اٹھا پھینکا ہے اور انہیں بکھیر کے رکھ دیا ہے۔
مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ
اور جن لوگوں نے خدا کوچھوڑ کردوسرے سرپرست بنالیے ہیں، ان کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اس نے گھر تو بنالیا ہے، لیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے، اگر ان لوگوں کے پاس علم و ادراک ہو۔ (سورۂ عنکبوت۲۹۔ آیت۴۱)
سب جانتے ہیں کہ مکڑی کا گھر انتہائی نازک اور کمزور ہوتاہے۔ نہ اس میں درودیوار ہوتے ہیں، نہ کھڑکی اور چھتاسے انتہائی نازک اور باریک تاروں سے بنایا گیا ہوتاہےلہٰذا جوں ہی ہلکی سی بھی ہوا چلے، اس کے تاروپود بکھرکے رہ جاتے ہیں۔
اسے ملیا میٹ کردینے کے لیے بارش کے چند قطرے ہی کافی ہوتے ہیں۔
آگ کا معمولی سا شعلہ بھی اسے نابود کردینے کے لیے بہت ہوتاہے۔
جھاڑو کا ہلکا سا اشارہ ہی اسے زیرو زبر کردیتا ہے، اس میں بقا کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی، اپنی بقا کے لیے سہارے کا محتاج ہوتا ہے۔
خداوند ِعالم نے مذکورہ آیت میں مشرکین کے مسکن کو مکڑی کے کمزور گھر سے تشبیہ دی ہے، جس کی کمزوری اور بے وقعتی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
مذکورہ بالا چار مثالوں میں، انتہائی وضاحت کے ساتھ، شرک کے بد صورت باطن اور مشرکین کی کمزوری اور ضعف کو ہمارے لیے بیان کیا گیا ہےیہ مثالیں صاف وصریح الفاظ میں ہم سے کہتی ہیں کہ طاغوت اور باطل معبود خواہ ظاہراً دلکش اور دلربا نظر آتے ہوں لیکن اندر سے خالی اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف کسی بھی طرح نجات دہندہ نہیں ہوسکتے بلکہ کمال و ارتقاکی راہ میں رکاوٹ ہیں اور انسان کو گمراہی کے راستوں پر ڈال کر اسے بے سہارا چھوڑدیتے ہیںمکڑی کے گھر کے کمزور تار انسانوں کو کبھی بھی گمراہی کے ہولناک گڑھے سے نہیں نکال سکتے، صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مشرکین کی زندگی ایسی ہی ہوگی بلکہ اس سے بھی زیادہ بدتر ہو گیقرآنِ کریم کہتا ہے:
لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ
اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمھارے تمام اعمال برباد کردیئے جائیں گے اور تمھارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوجائے گا۔ سورۂ زمر۳۹۔ آیت ۶۵