عباد الرحمٰن کے اوصاف

قرآن وحدیث کی نگاہ میں لغو سے اجتناب

عباد الرحمٰن کے اوصاف   •   محمدی اشتهاردی

مذکورہ آیت کے علاوہ، قرآنِ مجید میں دو اور مقامات پر لغو سے اجتناب اور اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور اِس اجتناب اور دوری کو مومنین اور حق طلب افراد کی خصوصیات اور خصائل میں سے قرار دیا گیا ہے۔

مومنین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ

اور وہ لغو باتوں سے اجتناب کرنے والے ہیںسورئہ مومنون۲۳آیت۳

اور حق کے متلاشی افراد کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہے:

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ

اور جب لغو بات سنتے ہیں، تو اجتناب کرتے ہیںسورئہ قصص۲۸آیت۵۵

قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں آیا ہے کہ بہشت ہر قسم کی لغویات اور بیہودگیوں سے پاک ہے اور وہاں سلامتی، شادمانی اور بہشتی نعمتوں کے سوا کچھ اور نہیں ہوگا(۱)۔

یہ آیات اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ اگر انسان اسی دنیا میں ایک جنت نظیر معاشرہ بنانا چاہتے ہیں، تو اِس معاشرے کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہر قسم کی لغویات اور فضولیات سے محفوظ اور پاک ہو۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

اَعْظَمُ النّٰاسِ قَدْراً مَنْ تَرَکَ مَالاً یَعْنیہ

لوگوں میں بافضلیت ترین انسان وہ ہے جو بے معنی کاموں کو چھوڑ دے۔
بحار الانوارج۷۱ص۲۷۶

نیز آپؐ نے فرمایا ہے:

تَرْکُ مٰالاٰ یَعْنیٖ زیٖنۃُ الْوَرَعِ

لغو وبیہودہ کاموں کو چھوڑنا، پرہیز گاری کی زینت وزیبائی ہے۔
بحار الانوارج۷۷ص۱۳۱

امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:

اِیّٰاکَ وَالدُّخُولُ فیمٰا لاٰ یَعْنیٖک فَتَذِلَّ

بے مقصد اور فضول کاموں میں پڑنے سے پرہیز کرو کیونکہ ایسے کاموں میں مشغول ہونا تمہاری ذلت ورسوائی کا موجب ہوگا۔
بحار الانوارج۷۸ص۲۰۴

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

رُبَّ لَغْوٍ یَجلبُ شَرّاً

بسا اوقات فضول کام بدی اور برائی کا موجب ہوجاتے ہیں۔
غرر الحکمنقل از میزان الحکمۃج۸ص۵۱۴

نیز آپؑ ہی کا ارشاد ہے:

مَن اشتَغَلَ بالفُضُول، فٰانَہُ مِنْ مُھِمّۃِ المامولِ

ایسا شخص جو اپنے آپ کو فضول اور بے مقصد کاموں میں مشغول کرلے، وہ قابلِ توجہ اہم کاموں کی انجام دہی سے محروم رہے گاحوالۂ سابق

امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں میں ہے کہ:

وَعَمِّرْنی مٰا کٰانَ عُمْری بِذْلَۃً فی طٰاعَتِکَ، فَاِذٰا کٰانَ عْمری مَرْتَعاً لِشّیْطانِ فَاقْبِضْی اِلَیْکَ

بارِ الٰہا! جب تک میری زندگی تیرے فرامین کی بجا آوری میں بسر ہورہی ہے، اُس وقت تک اُسے باقی رکھنا اور جب وہ شیطان کی چراگاہ بن جائے، تو میری روح قبض کرلینا۔
صحیفۂ سجادیہدعا۲۰

روایت کی گئی ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانے میں، مدینہ میں ایک مسخرہ رہا کرتا تھا، جو اپنی بے سروپا حرکات سے لوگوں کو ہنساتا تھابعض اوقات اُس نے اشارتاً کہا تھا کہ اِس شخص (یعنی امام زین العابدینؑ) نے مجھے زچ کرکے رکھ دیا ہے، میں نے ہر ممکن کوشش کرکے دیکھ لی، مگر انہیں نہیں ہنسا سکاایک روز یہی مسخرہ امام زین العابدین ؑکے پیچھے پیچھے چلتا ہوا آیا اور آپ ؑکے دوشِ مبارک سے آپ ؑکی عبا اچک کر لے گیاامام ؑنے اُس کی اِس حرکت پر بھی کوئی توجہ نہ دیلیکن امام ؑکی معیت میں چلنے والے لوگ دوڑے اور اُس کے ہاتھ سے عبا چھین کر امام ؑ کی خدمت میں واپس لے آئےامام ؑنے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ عرض کیا گیا: یہ مدینہ کا رہنے والا ایک مسخرہ ہے، جو اپنی اِس قسم کی حرکتوں سے لوگوں کو ہنساتا ہے۔

امام ؑنے فرمایا: اِس سے کہو کہ: اِنَّ ﷲ یَوْمَاً یخسِرُ فیہِ المُبْطِلُونَ(۲) (خدا کے پاس ایک دن ایسا ہے (قیامت) جس دن فضول کام کرنے والے لوگ نقصان اٹھائیں گےمناقبِ آلِ ابی طالبج۴ص۱۵۸)

لغویات اور فضولیات سے دور رہنے کے بارے میں موجود بے شمار روایات میں سے ہم نے جن چند منتخب روایات کو پیش کیا وہ اِس موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہیں اِن روایات کے ذریعے پیغمبر اسلام ؐاور ائمۂ معصومین ؑنے بیہودگی اور ہر قسم کے غیر مفید کاموں اور بے فائدہ سرگرمیوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہےاسکے ساتھ ساتھ یہ روایات اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ وقت اور مواقع انتہائی قدر وقیمت کی حامل شئے ہیں، انہیں باطل امور اور بے فائدہ کاموں میں تلف نہیں کرنا چاہیے۔

۱۔ سورئہ طور ۵۲آیت ۲۳، سورئہ مریم ۱۹آیت ۶۲، سورئہ واقعہ ۵۶آیت ۲۵، سورئہ نبا ۷۸آیت ۳۵، سورئہ غاشیہ ۸۸آیت ۱۱۔

۲جملہ وَخَسِرَ ہُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ، سورئہ غافر ۴۰ کی آیت ۷۸ میں آیا ہے۔