لوگوں کا آپس میں انکساری سے پیش آنا
عباد الرحمٰن کے اوصاف • محمدی اشتهاردی
تواضع و انکساری کی ایک قسم دوسرے انسانوں کے ساتھ، والدین کے ساتھ، ہمسایوں کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ اور عام لوگوں کے ساتھ انکساری اور عاجزی سے پیش آنا ہے۔
عاجزی و انکساری کا طرزِ عمل انسانوں کے باہمی تعلقات میں استحکام اور ان کے درمیان محبت و الفت میں اضافے کا موجب ہوتا ہےجس کے نتیجے میں ان کے مابین خلوص و صفامیں اضافہ ہوتا ہے، اور معاشرے سے ہر قسم کی کدورت، بدگمانی اور دوسرے مذموم اثرات مثلاً غرور و تکبر اور خود پسندی ختم ہوجاتے ہیں۔
عاجزی و انکساری، معاشرے میں انسان کے احترام اور اس کے وقار کی بلندی کا سبب بن کر باہمی اعتماد اور سکون وراحت کا باعث بنتی ہے۔ یہ صفت انسان کے اخلاق کو زینت بخشتی ہے اور اچھے تعلقات اور مخلصانہ روابط کو مضبوط کرتی ہے، انسانوں کو حق کے سامنے تسلیم کرکے ہر قسم کی جارحیت اور دوسروں کے حقوق پامال کرنے سے روکتی ہےمختصر یہ کہ عاجزی، انکساری اور فروتنی بہت سی انفرادی و اجتماعی، معنوی و اخلاقی برکات کا سرچشمہ ہے۔
قرآن کریم نے، زیر بحث آیت میں اس اخلاقی صفت کو خدا کے ممتاز بندوں کی اوّلین خصوصیت قرار دیا ہے اور اس کی علامت ” انکساری اور آہستگی سے چلنا“ ہے جو دوسروں کے دل میں محبت اور پسندیدگی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے :علما کی ہمنشینی تمہیں تین چیزوں سے دوسری تین چیزوں کی جانب لے جاتی ہے: (۱) تکبر سے تواضع و انکساری کی طرف(۲) بے تعلقی سے احساس ذمے داری اور نصیحت کرنے کی طرف(۳) جہل و نادانی سے علم و دانش کی طرف (مجموعۂ ورام۔ ص۲۳۳)
البتہ تواضع و انکساری کی مختلف صورتیں ہوا کرتی ہیں، ان میں سے ایک واضح ترین صورت راستہ چلنے کا انداز ہےبعض افراد غرور اور تکبر کی بنا پر اس انداز سے چلتے ہیں جیسے زمین کا سینہ چاک کردینا چاہتے ہوںیہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں حضرت لقمان کی اپنے فرزند کو کی جانے والی نصیحتوں میں آیا ہے کہ آپ نے اس سے فرمایا:
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ
اور خبردار لوگوں کے سامنے اکڑ کر ان سے منھ نہ پھیر لینا اور زمین پر غرور کے ساتھ نہ چلنا کہ خدا اکڑنے والے اور مغرور کوپسند نہیں کرتاسورئہ لقمان ۳۱۔ آیت ۱۸
خداوند ِعالم نے پیغمبر اسلامؐ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا
اور روئے زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کہ نہ تم زمین کو شق کرسکتے ہو اور نہ سراٹھا کر پہاڑوں کی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہوسورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۳۷
سچ ہے، اگر انسان خود اپنے آپ اور کائنات کے بارے میں معمولی سی معرفت وشناسائی بھی رکھتا ہو تو جان لیتا ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات کے مقابل وہ کس قدر معمولی او ر حقیر ہے، خواہ اگر وہ اپنی گردن لمبی کرتے ہوئے پہاڑوں کی بلندیوں کو بھی چھولےجبکہ حال یہ ہے کہ زمین پر موجو بلند ترین پہاڑ بھی زمین کی عظمت کے سامنے کچھ نہیں اور خود زمین عظیم کہکشائوں کے سامنے ایک ناچیز ذرہ ہے۔
یہ سب جاننے کے باوجود انسان کا کبروغرور میں مبتلا ہونا کیا اس کے مطلق جہل و نادانی کی دلیل نہیں؟
مختصر یہ کہ تواضع و انکساری اور عاجزی وخاکساری کا اظہار متقین کے خاص امتیازات میں سے ہےامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے متقین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
ومشیھم التّواضع
اور ان کی چال منکسرانہ ہوتی ہےنہج البلاغہخطبہ۱۹۲