عباد الرحمٰن کے اوصاف

توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی

عباد الرحمٰن کے اوصاف   •   محمدی اشتهاردی

اس گفتگو کو مکمل کرنے کی غرض سے توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی کے بارے میں چند احادیث کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

شریح بن ہانی سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا:جنگ ِجمل کے دوران، ایک عرب امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میںحاضر ہوا اور کہا: اے امیر الومنین! کیا آپ خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں؟ وہاں موجود جو لوگ اس شخص کی یہ بات سن رہے تھے انہوں نے اس پر چڑھائی کردی اور کہا: اے بدو! کیا تجھے نظر نہیں آرہا کہ اس وقت امیر المومنین کا ذہن دوسرے مسائل کی جانب متوجہ ہے (ہر بات کا ایک وقت ہواکرتا ہے کیا یہ اس قسم کے سوالات کا موقع ہے؟ )

یہ دیکھ کر امیر المومنین ؑنے ان لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا: دَعوُہُ فَانَّ الّذی یُریدہُ الاعرابیّ ھُوَالّذی نُریدُہُ مِنَ القوم (اسے کچھ نہ کہو، یہ بدو جس چیز کے بارے میں ہم سے سوال کررہا ہے وہ وہی چیز ہے جو ہم اس دشمن جماعت سے چاہتے ہیں (اور اسکی خاطر ان کے خلاف مصروف ِجنگ ہیں)۔

پھر آپ ؑنے فرمایا: اےاعرابی! ہم جو یہ کہتے ہیں کہ خداواحد ہے، تو اس کے چار معنی ہیں، ان میں سے دو معنی خدا کے بارے میں روانہیں ہیں اور دو معنی (اسکے بارے میں) ثابت و مسلم ہیں۔ جو دو معنی روانہیں(وہ درجِ ذیل ہیں)

۱کوئی شخص کہے کہ خدا واحد ہے اور اسکا مقصد ” واحد ِعددی“ ہوکیونکہ جس چیز کا دوسرا نہیں ہوتا وہ اعداد کی فہرست میں نہیں آتی اور اسکے بارے میں ایک اور دو نہیں کہا جاسکتا۔

۲۔ اور اسی طرح اگر کوئی کہے کہ خدا واحد ہے اور اس کی مراد جنس میں سے واحد ِنوعی ہوتو یہ بھی درست نہیںکیونکہ اسکا مفہوم یہ ہوگا کہ خدا کی شبیہ موجودہے۔

اب رہے توحید کے وہ دو معنی جو خدا کے لیے روا اور ثابت ہیں، تو ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ یکتا ہےلہٰذا اسکی کوئی شبیہ اور مثل موجود نہیں۔ دوسرے یہ کہ: وہ ” احدی المعنی“ ہے۔ یعنی اسکی ذات ناقابلِ تقسیم ہے، نہ خارجی وجود میں، نہ ہی عقل میں اور نہ وہم و تصور میں (بلکہ اسکی ذات بسیط ِمعنی ہے)۔ (بحارالانوار۔ ج۳۔ ص۲۶)

رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی ابن مسعود سے فرمایا: ایّاکَ اَنْ تُشْرِکَ بِاللہِ طَرفَۃَ عَیْنٍ، واِنْ نُشِرْتَ بِالمِنشارِ اَوْ قُطِّعْتَ اَوْصُلِبْتَ اَوْاُحْرِقْتَ بالنّارِ (پلک جھپکنے کے عرصے کے لیے بھی خدا کا شریک قرار دینے سے پرہیز کرو۔ چاہے تمہیں آرے سے چیر کے رکھ دیا جائے، یا تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا آگ میں جلادیا جائےبحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص۱۰۷)